ہر معذوری نظر نہیں آتی

November 29, 2020

ڈاکٹر ایمن حسان

اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال 3دسمبر کو انٹرنیشنل ڈے آف پیپل وتھ ڈس ایبلیٹیز(معذورین کا عالمی یوم) منایا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بَھر کی قریباً 15فی صد آبادی(اندازاً ایک ارب)کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے،جن میں سے ساڑھے چار کروڑ افرد ذہنی یا اعصابی معذوری کا شکار ہیں اور ان مریضوں کی نصف تعداد علاج معالجے کی بھی استاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان میں صُورتِ حال اس لحاظ سے خاصی پیچیدہ ہے کہ ہمارے پاس سرے سے مستند اعدادوشمار ہی موجود نہیں۔تاہم، عالمی ادارۂ صحت کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کُل آبادی کا تقریباً 10فی صد حصّہ ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار ہے۔

جب کہ مختلف اداروں کے مطابق یہ تعداد 10فی صد سے بھی زائدہے۔ اِمسال اس دِن کے لیے جو تھیم منتخب کیا گیا ہے، وہ "Not All Disabilities Are Visibile" ہے،یعنی’’ہر معذوری نظر نہیں آتی‘‘۔ اصل میں بعض معذوریاں ایسی بھی ہوتی ہیں، جن میں مبتلا افراد بظاہر تن درست دکھائی دیتے ہیں، مگر حقیقتاً وہ معذور ہوتے ہیں۔جیسے ذہنی بیماریاں، دائمی درد یا تھکاوٹ (Chronic fatigue syndrome)، بینائی یا سماعت کی خرابی، دماغی چوٹیں، اعصابی عوارض، سیکھنے کی صلاحیت میں کمی(Learning Disability) اور ذہنی تناؤ یعنی ڈیپریشن وغیرہ۔ چوں کہ یہ معذوریاں زیادہ تراہلِ خانہ اور دیگر افراد کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتی ہیں اور صرف مریض ہی محسوس کر سکتے ہیں، اس لیے آسانی سے نظر انداز کردی جاتی ہیں۔

پھر مریض بھی مسلسل کشمکش کا شکار رہتے ہیں کہ آیا اپنے احساسات کا اظہار کریں بھی یا نہیں اور اگراظہار کیا جائے،تو کس سے؟یہاں تک کہ وہ افراد بھی جو کسی حد تک اپنی معذوری کا ادراک رکھتے ہیں، اپنی علامات بتانے میں ہچکچاہٹ ہی محسوس کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے احساسات کو شخصی کم زوری یا ذہنی اختراع قرار دے کر تضحیک کا نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ افراد گویا دہری اذیت سے دوچار رہتے ہیں۔بچّوں میں جو ذہنی معذوریاں عام ہیں، اُن میںآٹزم ، سیکھنے کی صلاحیت میں کمی، اے ڈی ایچ ڈی(Attention Deficit Hyperactivity Disorder)، دماغی فالج، بینائی یا سماعت کی خرابی، ڈاؤن سینڈروم، اور دماغی معذوری (Congnitive Disorder)وغیرہ شامل ہیں۔ذیل میں چندایسے عوارض سے متعلق معلومات درج کی جارہی ہیں، جو پوشیدہ معذوریوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

دائمی درد یاتھکاوٹ کی بیماری، درمیانی عُمر کے افراد میںخاصی عام ہے،جسے معذوری کا درجہ دیا گیا ہے۔اصل میں تھکن بیماری نہیں، بلکہ بیماری کی علامت ہے،مگرجب تھکن اور درد اس حد تک بڑھ جائے کہ روزمرّہ امور انجام دینا دشوار لگیںیا یادداشت بھی متاثر ہونے لگے، تو یہ مستقل تھکاوٹ، بیماری میں بدل جاتی ہے۔

اس بیماری کی عام علامات میں مسلسل اور(کم از کم چھے مہینے تک) شدید تھکاوٹ، جسمانی تکلیف، جوڑوں میں مسلسل دردیا سُوجن، سَر درد اور صُبح بیدار ہونے پر بھی تھکاوٹ محسوس ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ چوں کہ اس بیماری کی علامات بظاہر نظر نہیں آتیں،اس لیے مریضوں کو اردگرد کے افراد طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، اُنہیں لوگوں کے غصّے اور حقارت کا سامنا رہتا ہے یا ان کی شکایات کو ہم دردیاں بٹورنے کا نام دیا جاتا ہے، لہٰذابیش تر مریض اپنے مرض کو خاموشی سے سہہ لینے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ اس بیماری کی درست تشخیص کے لیے معالج سے معائنہ اَزحد ضروری ہے۔

اِسی طرح پوشیدہ معذوریوں میں بہت عام، لیکن خطرناک مرض ذہنی تناؤ یا ڈیپریشن ہے کہ اس میں مبتلا مریض اپنی جان تک لے سکتا ہے۔ڈیپریشن کی عام علامات میں افسردگی اور ایسی سرگرمیوں میں دِل چسپی کا فقدان ہے، جو پہلے پسندیدہ تھیں۔ اس کے علاوہ نیند، وزن اور بھوک میں کمی یا زیادتی، تھکاوٹ، کسی بھی کام کے بعد پچھتاوے کا احساس، خود کو ہر مسئلے کا قصوروار سمجھنا، اپنے آپ کو نقصان پہنچانا اور بار بار خودکُشی کا خیال آنا وغیرہ بھی ڈیپریشن کی علامات ہیں۔

ایسے افراد بظاہر نارمل یا خوش و خُرم دکھائی دیتے ہیں، لیکن اندرونی طور پر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی ذہنی کیفیت سمجھنے اور احساسات جاننے کے لیے سُننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں درکار ہوتی ہیں، جو کہ نایاب ہیں۔ ڈیپریشن کے مریض اگر اپنے احساسات کا اظہار قریبی افراد سے کریں، تو اسے ناشُکری، ایمان کی کمی یا توجّہ حاصل کرنے کے بہانے گردانتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ایسے مریض شدید پچھتاوے کا شکار ہو کربعض اوقات اپنی جان بھی لے لیتے ہیں۔ ان ہی علامات کی بناء پر عالمی ادارۂ صحت نے اسے پوشیدہ معذوریوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

پوشیدہ معذوریوں کی ایک اور قسم Cognitive Disability ہے،جسےعرفِ عام میں سمجھ بوجھ کی کمی بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو روزمرّہ امور انجام دینے میں بہت دقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ان بیماریوں میں سے ایک ہے، جنہیں بیماری نہیں سمجھا جاتا۔پھر اس مرض کی تشخیص بھی انتہائی مشکل ہے، جو صرف ایک ماہر معالج ہی کرسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال Dyslexia ہے، جس میں مبتلا بچّہ اوسط ذہانت کے باوجود کسی بھی زبان کو پڑھنے یااس کی تفہیم سیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔

اسی طرح Dyscalculia کے شکار بچّے اوسط ذہانت کے باوجود ریاضی میں انتہائی کم زور ہوتے ہیں۔ Dysgraphia میں مبتلا بچّے لکھائی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ بچّہ لائق ہونے کے باوجود مخصوص غلطیاں بار بار کیوں دہرا رہا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ بچّہ جان بوجھ کر تنگ کر رہا ہے۔حالاں کہ اصل وجہ ذہنی معذوری ہوتی ہے۔ ایسے بچّوں کو اسکول اور خاندان میں تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حتیٰ کا مارپیٹ سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں بچّے کی ذہنی اور جذباتی نشوونما شدید متاثر ہوجاتی ہے۔

ایک اور معذوری توجّہ کی کمی ہے، جسے طبّی اصطلاح میں "Attention Deficit Hyperactivity Disorder"کہا جاتا ہے۔ اس مرض کے شکار بچّے اسکول اور گھر کی ذمّے داریاں ادا کرنے میں پوری توجّہ نہیں دے پاتے ہیں۔ ایسے بچّوں کو بدتمیز اور نظم و ضبط سے عاری سمجھتا جاتا ہے اور والدین کی تربیت پرسوالات اُٹھائے جاتے ہیں۔ چوں کہ ظاہری طور پر بچّے بالکل نارمل دکھائی دیتے ہیں، اس لیے یہ پوشیدہ معذوریاں پوشیدہ ہی رہ جاتی ہیں،جو زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں۔

پاکستان میں فی الوقت سرکاری اور نجی سطح پر بعض تنظیمیں معذورین اور خصوصی افراد کے مسائل سے آگاہی اور ان کی فلاح کا کام انجام دے رہی ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں ترقّی یافتہ مُمالک سے بھی خصوصی افراد کی ترجیحی مدد کے طریقے سیکھنے کی اشدضرورت ہے۔ان مُمالک میں خصوصی افراد کے لیے خاص اسکول، متبادل نصاب، ہنر مندی کے پروگرامز، روزگار کے مواقع اور تعلیمی ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں۔تعلیمی اداروں میں ان کا مخصوص کوٹا مقرر ہوتا ہے اور ان کی رہایش کے لیے بھی مخصوص عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں،تاکہ انہیں خود مختار اور معاشرے کا کارآمد حصّہ بنایا جائے۔

اگرچہ پاکستان میں ان سب اقدامات پر فوری طور پر عمل درآمد ممکن نہیں، مگر ایک خود مختار ادارہ قائم کیا جاسکتا ہے، جو سرکاری سطح پر ان عملی سرگرمیوں کو فروغ دے سکے۔ انفرادی طورپر بھی ہمیں اپنے رویّوں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔مثلاً اسپیشل افراد سے عزّت و احترام سے پیش آئیں۔ ان پر رحم کھانے کی بجائے ان کے ہمّت و حوصلے کی تعریف کریں۔ اگر کوئی بظاہر تن درست فرد اپنی ذہنی یا جسمانی تکلیف کا ذکر کرے، تو اس کی بات غور سُنیں، اگر آپ کو اس کی کیفیت کے مطابق معلومات نہ ہوں، تو اسے جھٹلانے کی بجائے معالج سے رابطے پر آمادہ کریں۔

بچّوں کے اسکول سے شکایات آنے پر ان سے بات کریں۔ہوسکتا ہے کہ بچّے کے ساتھ کوئی پوشیدہ معذوری کا مسئلہ ہو، جو وہ بیان کرنے سے قاصر ہو۔معذورین کو مذاق کا نشانہ بنانے کی بجائے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگر کوئی فرد کسی بھی معذوری میں مبتلا ہے، تو اس کے والدین کا سہارا بنا جائے اور ان کی اخلاقی، جذباتی اور ممکنہ حد تک مالی مدد کا اہتمام کیا جائے۔ ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں انفرادی و اجتماعی طور پر اپنا کردار ادا کریں، تاکہ اسپیشل افراد کی زندگیوں میں بھی کوئی مثبت تبدیلی آسکے کہ اگر ان افراد کی صلاحیتوں کو جِلا ملے تویہ بھی آئن اسٹائن ، اسٹیفن ہاکنگ اور ہیلن کیلر بن سکتے ہیں۔

(مضمون نگار، سندھ میڈیکل کالج کی گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے کینیڈا سے خصوصی بچّوں کی اسپیچ تھراپی اور کاؤنسلنگ کی تربیت حاصل کی۔ اس وقت کینڈین کینسر سوسائٹی سے بطور وکیل وابستہ ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کی رکن ہیں)