ایڈز... عالمی یک جہتی، مشترکہ ذمے داری

November 29, 2020

پروفیسر ڈاکٹر رافعہ بلوچ، لاڑکانہ

عالمی ادارۂ صحت اور یونائیٹڈ نیشنز جوائنٹ پروگرام آن ایڈز (UNAIDS:United Nations Joint Programme On Aids)کے اشتراک سے ہر سال یکم دسمبر کو ’’ایڈز کے انسداد کاعالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔رواں برس یہ یوم منانے کے لیے جس تھیم کا اجرا کیاگیا ہے، وہGlobal Solidarity, Shared Responsibility ہے۔ یعنی عالمی یک جہتی، مشترکہ ذمّے داری۔

جسم کا دفاعی نظام قدرت کا بیش بہا انعام ہے کہ اِس کی بدولت ہم ہر طرح کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر یہ نظام کسی بھی سبب کم زور پڑجائے، تو اس کے نتیجے میں مختلف جان لیوا بیماریاں حملہ آور ہوسکتی ہیں۔ ایڈز بھی ایسے ہی عوارض میں شامل ہے، جن میں نہ صرف جسم کا دفاعی نظام بے اثر ہوجاتا ہے، بلکہ جسم مستقل بنیادوں پر وائرسز کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔

ایڈز کا مرض ایچ آئی وی کے ذریعے پھیلتا ہے، اگر ایچ آئی وی کا بروقت اور باقاعدہ طور پر علاج نہ کروایا جائے، تو مدافعتی نظام مزید تباہ ہو کر ایڈز کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دُنیا بَھر میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر اس مرض کی روک تھام اور شعور و آگاہی کے لیے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام موجود ہے، جس کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت مُلک بَھر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایڈز کا شکار ہیں۔

ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر ایڈز کو جنسی بے راہ روی سے پھیلنے والی بیماری سمجھا جاتا ہے،اسی لیے اس عارضے میں مبتلا مریضوں کو نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔حالاں کہ یہ بیماری خون کے اجزاء کے ذریعے پھیلتی ہے اور یہ تاثر بالکل درست نہیں کہ مریض کے ساتھ ہاتھ ملانے، ساتھ بیٹھ کے کھانا کھانے سے صحت مند افراد بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ مرض کے پھیلاؤکے کئی محرّکات ہیں۔

مثلاًغیر جنسی تعلقات، باڈی فلیوڈ ،متاثرہ ماں سے نومولود میں مرض منتقل ہونا ،خون کی منتقلی،دانت نکلوانے یا کسی اور سرجری کے دوران غیر مطہر آلاتِ جرّاحی کا استعمال، ایک سے زائد بار سرنج استعمال کرنا، جِلد گدوانا یا اس پر ٹیٹوز بنوانا وغیرہ۔ علاوہ ازیں، بعض کیسز میں ڈائی لیسسز مشینز بھی، جن کی دیکھ بھال مناسب طریقے سے نہ کی جائے، وجہ بن جاتی ہیں۔عمومی طور پر ایڈز کا مرض ابتدائی مراحل میں ہو، تو مریض بظاہر صحت مند نظر آتا ہے، لیکن مرض جسم کے اندر نمو پا رہا ہوتاہے۔

ایڈز کی علامات میں وزن میں تیزی سے کمی ، مسلسل دست، کھانسی، بخار، سردی لگنا، زائد پسینہ، خاص طور پر نیند آنا، سانس پھولنا، مستقل تھکاوٹ، نمونیا، آنکھوں میں دھندلاہٹ، جوڑوں کا درد، گلے میں سُوجن، نزلہ زکام اور پٹّھوں میں در وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جِلد پر زخم بھی ایڈز کی علامت ہوسکتی ہے۔ ایڈز کی تشخیص ایچ آئی وی اینٹی باڈیز ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ ایک معمولی ٹیسٹ ہے، جو کسی مستند لیبارٹری ہی سےکروایا جائے۔ایڈز کی تشخیص اس لیے بھی انتہائی ضروری ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر چار میں سے ایک فرد ایڈز میں مبتلا ہے، مگر اپنی بیماری سے لاعلم ہے۔ اس اعتبار سے پوری دُنیا میں نوّے لاکھ چالیس ہزار افراد ایڈز کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا خطرہ ہیں ،جن کے ذریعے سے یہ مرض صحت مند افراد میں باآسانی پھیل سکتا ہے۔

تاہم، ایسی کئی احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اختیار کر کے ایڈز کے مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔مثلاً اگر خاندان، محلّے یا گاؤں میںکوئی ایچ آئی وی یا ایڈز کا مریض ہو، تو بہتر ہوگا کہ متاثرہ فرد سے وابستہ افراد کے ٹیسٹ کروائے جائیں۔علاوہ ازیں،بلا ضرورت اور اسکریننگ کروائے بغیر خون لگوانے، غیر ضروری ڈرپس اور انجیکشن سے اجتناب برتا جائے۔ حجام سے صاف بلیڈ استعمال کرنے پر اصرار کریں۔

مریض کے زیرِ استعمال نیل کٹر اورریزر الگ رکھیں۔ اگرحاملہ ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو، تو نارمل ڈلیوری نہ کروائی جائے، کسی ماہر اور سینئر ڈاکٹر سے آپریشن کروایا جائے۔ زچگی کے فوری بعد بچّے کا ایڈز ٹیسٹ کروائیں۔ اگرخدانخواستہ رپورٹ پازیٹیو ہوتو معالج کی ہداہت کے مطابق بچّےکوایڈز کے علاج کا مکمل کورس کروایا جائے،جب کہ نیگیٹیو ہونے کی صُورت میں بھی چھے ہفتے کے علاج کا کورس لازماًکروائیں۔ ایڈز میں مبتلا مریضہ نومولود کو دودھ نہ پلائے۔ اگر ایڈز کا مریض کسی بھی طبّی مسئلےسے دوچار ہوکر معالج کے پاس جائے ،تو اپنی بیماری سے متعلق ضرور آگاہ کرے کہ اس بیماری کے ساتھ معالج کو بھی کچھ ضروری احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے۔

چوں کہ ہمارے یہاںنشئی افراد میںایڈز لاحق ہونے کے امکانات زیادہ پائےجاتے ہیں،لہٰذا منشیّات کے عادی افراد کی ہر ممکن مدد کی جائےکہ وہ اس لت سے باز آجائیں ۔ بے راہ روی اس مرض کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے، لہٰذا معاشرے میں ایسے گھناؤنے کاروبار کی روک تھام کے لیے قانونی اقدامات کیے جائیں اور قانون کی عمل داری یقینی بنائی جائے۔ صحتِ عامہ کے شعبے سے منسلک تما م عملہ حتیٰ کہ خاکروب وغیرہ باقاعدگی سے ایچ آئی وی اسکریننگ کروائیں۔

تمام سرکاری و نجی اسپتالوں کا کچرا اچھی طرح جلایا جائے۔ مریضوں کے ساتھ نفرت آمیز رویّہ اختیار کرنے سے اجتناب برتا جائے۔ نیز، اگر استطاعت ہو تو ایڈز کے مریضوں کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کسی روزگار کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔مثلاً ریڑھی، رکشہ یا کوئی مشین دلودایں،تاکہ وہ اپنے روزگار سے اس بیماری کا علاج کرواسکے اور اپنے لیے اچھی غذا کا خود اہتمام کر سکے۔

علاوہ ازیں،جو مریض علاج کروارہے ہیں، وہ پابندی سے ادویہ استعمال کریں اور معالج سے مستقل رابطے میں رہیں، تاکہ کسی بھی قسم کی پیچیدگی پیدا ہونے سے قبل ہی اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔یاد رکھیے،بروقت تشخیص اور علاج کی بدولت ایڈز کے مریض صحت مند زندگی گزارسکتے ہیں،لہٰذا حکومت پریہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ایڈز کی تشخیص اور علاج کے لیے ہر شہر میں سہولتیں فراہم کرے۔

(مضمون نگار، شیخ زید ویمنز اسپتال،لاڑکانہ کے شعبہ گائناکالوجی اینڈ آبسٹریکٹس کی سربراہ ہیں، جب کہ شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونی ورسٹی کے شعبہ سرجری کی سربراہ بھی رہ چُکی ہیں۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) سے منسلک ہیں)