ریکوڈک تنازع، پاکستانی معیشت کیلئے ایک بڑا خطرہ

November 29, 2020

بلوچستان کے علاقے چاغی میں واقع ریکوڈک کے پہاڑوں میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر ہیں،لیکن وہ پہاڑ اب سونا اُگلنے کے بجائے چھے ارب ڈالرز جرمانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان، خالد خان نے عُہدہ سنبھالتے وقت اِس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اُن کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کو کسی طرح ریکوڈک کے سلسلے میں ہونے والے جرمانے میں ریلیف دِلوایا جائے۔ اِس تشویش کی وجہ یہ ہے کہ اگر جرمانہ اُسی شکل میں لاگو ہو جاتا ہے، جس کا عالمی عدالت نے حکم دیا ہے، تو یہ مُلکی معیشت کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ اس ایشو کا میڈیا میں بہت کم ذکر ہو رہا ہے، ایسا شاید اِس لیے بھی ہے کہ اس سے موجودہ کم زور معاشی حالات کے ماحول میں مزید مایوسی نہ پھیلے، اِسی لیے جب رواں سال ستمبر میں عالمی سرمایہ کاری عدالت کی طرف سے چھے ماہ کا اسٹے آرڈر ملا، تو اٹارنی جنرل نے اسے مُلک کے لیے ایک بڑی کام یابی قرار دیا۔

جب ریکوڈک میں یہ ذخائر دریافت ہوئے، تو پورے مُلک خاص طور پر بلوچستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب خوش حالی کا زمانہ آیا ہی چاہتا ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو سونے کے اِتنے بڑے ذخائر ہمارے جیسے مُلک کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہیں۔ سونے کے ذخائر کی مائیننگ کی سہولت خصوصی مہارت رکھنے والی صرف چند فرمز ہی کے پاس ہے اور اُن میں آسٹریلیا کی کمپنی، ٹیتھیان پہلے نمبر پر ہے۔ اسی کمپنی کو ریکوڈک کا کانٹریکٹ دیا گیا، لیکن جب مائیننگ کا معاہدہ عملی شکل اختیار کرنے کے قریب پہنچا، تو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت پاکستان نے معاہدہ منسوخ کردیا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، افتخار چوہدری اُس بینچ کے سربراہ تھے، جس نے یہ کیس سُنا۔

اِس پر کمپنی نے چھے ممالک اور بین الاقوامی عدالتوں میں پاکستان کے خلاف مقدمات دائر کردیے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اُس نے منصوبے کی فزیبلٹی اور دوسرے بنیادی کاموں کا بیس فی صد مکمل کر لیا، جس پر اُس کے اربوں ڈالرز خرچ ہوئے۔ٹیتھیان یہ مقدمہ جیت گئی اور عالمی عدالت نے، جو عالمی بینک کے تحت کام کرتی ہے، پاکستان پر چھے ارب روپے جرمانہ عاید کردیا، جو اُسے کمپنی کو ادا کرنا ہے۔ اِس فیصلے کے بعد آنے والی تمام حکومتیں اب تک صرف دو ہی کاموں میں لگی ہوئی ہیں۔ایک تو یہ کہ کسی طرح معاملہ طول کھینچے تاکہ کچھ وقت مل جائے یا پھر کسی طرح یہ جرمانہ معاف ہوجائے۔واضح رہے، چھے ارب ڈالرز کا یہ جرمانہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے لیے جانے والے قرضے کے برابر ہے۔

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ جب ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہوئے، تو حکومت نے مائیننگ کا فیصلہ کیا تاکہ قدرتی وسائل عوام کی خوش حالی کے لیے استعمال کیے جا سکیں۔ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر کوئی سازشی ٹولہ یا غیر مُلکیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے افراد ان وسائل سے استفادے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔عین ممکن ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ زیرِ زمین معدنیات نکالنے کے لیے خاص ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے، جو صرف ترقّی یافتہ ممالک کے پاس ہے۔پھر یہ کہ ان قدرتی وسائل سے تربیت یافتہ افراد ہی کے ذریعے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ جس خطّے میں یہ قدرتی وسائل ہوں،وہاں کے لوگ خود ہی اُنھیں زمین سے نکالنا شروع کردیں۔مائیننگ کے لیے مشین آپریٹنگ اور زیرِ زمین کام کی تربیت کے لیے ادارے بنانے پڑتے ہیں۔سعودی عرب میں آرامکو اور ایران میں برٹش پیٹرولیم نے تیل نکالا، ریفائنریز لگائیں، لوگوں کو تربیت دی، تب جاکر وہاں خوش حالی آئی۔ دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو وہاں ملازمتیں ملیں، جن میں پاکستان سرِفہرست ہے۔اِتنا کچھ کرنے کے بعد یہ تیل پیدا کرنے والے مُلک کہلائے، وگرنہ تیل تو اُن کی زمینوں کےنیچے ہزاروں سال سے موجود تھا۔ریکوڈک کا معاملہ بھی یہی ہے۔یہ سونا تو وہاں ہزاروں سال سے موجود ہے، لیکن جدید ٹیکنالوجی ہی سے اس کی نشان دہی ممکن ہوسکی اور یہ بھی پتا چلا کہ اسے مارکیٹ سے کم قیمت پر نکالنا ممکن ہے۔

ٹیتھیان زیرِ زمین سونا نکالنے میں عالمی شہرت رکھتی ہے۔ اِس کمپنی نے افریقا میں بہت کام کیا ہے۔معاہدے میں طے ہوا تھا کہ ٹیتھیان ابتدا میں 80 فی صد کی حق دار ہوگی اور باقی 20 فی صد آمدنی پاکستان کو ملے گی۔زمین پاکستان کی، جب کہ سرمایہ اور باقی تمام لوازمات کمپنی کے ذمّے ہوں گے۔لیکن2011 ء میں بلوچستان حکومت نے اسے غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے معاہدہ تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔اِس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، مگر ہائی کورٹ نے درخواست مسترد کر دی، جس پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور سپریم کورٹ نے اس بین الاقوامی تجارتی معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔

اسے ریاست کی طرف سے معاہدے کی منسوخی مانا گیا اور یہی اِس کیس کی بنیاد بھی بنا۔ٹیتھیان اس کے خلاف تجارتی معاہدوں کی بین الاقوامی عدالت میں چلی گئی، جسے’’ انٹرنیشنل سینٹر فارسیٹلیمنٹ آف انویسٹمینٹ ڈسپیوٹ‘‘ (اکسڈ) کہا جاتا ہے۔جولائی2019 ء میں ایک طویل سماعت کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ سُنایا، جس میں پاکستان پر چھے بلین ڈالرز جرمانہ عاید کیا گیا۔یہ فیصلہ سات سو صفحات پر مشتمل ہے، جو ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔پاکستان اس فیصلے کے خلاف اپیل میں گیا اور اکسڈ نے جولائی میں اس کی ادائی کے لیے چھے ماہ کا اسٹے آرڈر دے دیا۔اسی کو اٹارنی جنرل نے مُلک کے لیے ایک بڑی کام یابی قرار دیا۔بہرحال، مقدمے کی حتمی سماعت 21 مئی 2021ء کو ہوگی۔

ریکوڈک کیس پاکستان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔اِس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں بین الاقوامی معاملات میں کس قدر سنجیدگی پائی جاتی ہے۔یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ ہمارے بین الاقوامی معاہدات میں ایسی خوف ناک پیچیدگی سامنے آئی ہو اور ہمیں جرمانے کی ادائی یا معافی مانگنی پڑی ہو۔ تین سال قبل تُرکی کی ایک کمپنی سے بھی ایسے ہی معاملات ہوئے تھے، جنھیں بڑی مشکل سے نمٹایا گیا۔بلاشبہ، ریکوڈک ایک ایسا منصوبہ بن سکتا تھا، جس سے مُلکی تقدیر بدل جاتی، خاص طور پر بلوچستان کی معاشی مشکلات کا تو ازالہ ہو ہی جاتا۔یہ صوبہ پس ماندہ بھی ہے اور وہاں اِس حوالے سے بہت سی شکایات بھی ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ اِس کیس میں پاکستان کو بین الاقومی قانونی لڑائی میں لاکھوں، بلکہ کروڑوں ڈالرز بھی خرچ کرنے پڑے۔عالمی قانونی فرمز اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنی پڑیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اِسٹے آرڈر کے باوجود جرمانے کا حکم اپنی جگہ موجود ہے اور اِس بات کا بھی خطرہ ہے کہ کہیں اِس عرصے کا سود بھی نہ دینا پڑ جائے۔حکومت کوئی درمیانی راہ نکالنے کے لیے وقت حاصل کر رہی ہے، لیکن فاتح فریق کو منانا آسان نہیں۔ یہ اِس لیے بھی مشکل ہے کہ مُلک کی اعلیٰ ترین عدالت اِس معاہدے کے خلاف فیصلہ دے چُکی ہے۔تاہم، امکان یہی ہے کہ اب کمپنی کی شرائط ناگوار اور ضمانتیں سخت ہوسکتی ہیں۔ جن میں سے بعض کی قیمت حکومت کو سیاسی طور پر بھی ادا کرنی پڑے گی۔ہم بتا چُکے ہیں کہ جو جرمانہ عاید کیا گیا ہے، وہ آئی ایم ایف کے تین سال کے کُل قرضے کے برابر ہے اور یہ بھی کہ اس قرضے کی اقساط تو سالوں بعد ادا کرنی ہوں گی، جب کہ جرمانہ یک مشت ادا کرنے کا حکم ہے۔خارجہ امور ہوں یا معاشی پالیسیز، یا پھر قانونی معاملات، سب ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح مشروط ہوتے ہیں۔

خاص طور پر بین الاقوامی معاہدوں میں دنیا آپ کے وعدوں، عمل اور ساکھ کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتی ہے۔ہمارے ہاں اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ بھی بین الاقوامی معاملات پر بے دھڑک رائے زنی کرتے ہیں۔بدقسمتی سے بعض سیاست دان اور ریٹائرڈ افسران صرف میڈیا میں نمبر بنانے کے لیے عالمی معاملات کو اِس قدر پیچیدہ اور پُراسرار بنا دیتے ہیں کہ عوام کی درست سمت میں ذہن سازی مشکل ہو جاتی ہے۔ وہ ایسی ایسی سازشی تھیوریز بیان کرتے ہیں کہ سُن کر حیرت ہوتی ہے اور یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ لوگ جب اقتدار میں تھے یا جب اعلیٰ عُہدوں پر فائز تھے، تب اِس طرح کے نام نہاد حقائق عوام کے سامنے کیوں نہیں لائے؟بہرکیف، ماہرین کے مطابق اب ریکوڈک معاملے کا زیادہ انحصار اِس اَمر پر ہے کہ دوسری پارٹی ہمارے بُرے معاشی حالات دیکھتے ہوئے کہاں تک رعایت دینے پر تیار ہے۔کیا وہ جرمانے میں کمی پر آمادہ ہوگی، دوبارہ مفاہمت کرے گی یا پھر جرمانہ اقساط میں وصول کرے گی؟اِن میں سے کوئی بھی آپشن ہماری فتح اور کام یابی نہیں۔

ریکوڈک جیسے کیس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے انتظامی اور قانونی معاملات کہیں جاکر بُری طرح گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔یہ بات کچھ زیادہ پرانی نہیں کہ سابق چیف جسٹس، ثاقب نثار اسپتالوں کا خود معاینہ کیا کرتے تھے اورخالصتاً تیکنیکی معاملات میں بھی مناسب مشاورت کے بغیر براہِ راست مداخلت کرتے۔ ان معاملات پر سخت کمنٹس دیتے اور فیصلے کرتے۔لاہور کا کڈنی اسپتال اس کی ایک بڑی مثال ہے۔اب آپ عدالتی فیصلوں کی جو بھی تاویلیں دیتے رہیں، لیکن جو نقصان ہونا تھا، ہوچُکا اور اس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ اِسی طرح دیامر بھاشا ڈیم کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کا معاملہ ہے۔اس سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز کی تعمیر قوم کی انتہائی اہم ضرورت ہے، لیکن ماہرین متفّق ہیں کہ یہ کام عدلیہ نہیں، انتظامیہ کا ہے، جس کے لیے مُلک ایک خطیر رقم خرچ کرکے انتخابات کے مراحل سے گزرتا ہے۔

تربیلا اور منگلا دنیا کے بڑے ڈیمز میں شمار ہوتے ہیں، اُنھیں مختلف مُلکی اداروں ہی نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، جس میں سرمایہ کاری، مشینری، ٹیکنالوجی کی منتقلی، تربیت سب شامل ہے۔ ہم آج تک اُن ڈیمز میں ذخیرہ کیے گئے پانی اور وہاں بننے والی بجلی سے استفادہ کر رہے ہیں۔تعمیراتی کام میں کیا گھپلے ہوئے؟ کون سی بے ضابطگیاں ہوئیں؟ یہ ایک الگ کہانی ہے، مگر ڈیمز آج قومی اثاثے ہیں، جو ساٹھ سال سے کام کر رہے ہیں۔ریکوڈک بھی ایک غیرمعمولی قومی اثاثہ ہے۔جب یہ مسئلہ ہوجائے، تو اسے چلانا بھی قومی ذمّے داری ہوگی۔

کورونا وائرس کی دوسری لہر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے اور اگر خبروں کے حوالے سے دیکھا جائے، تو دنیا بھر کے میڈیا میں یہی موضوع چھایا ہوا ہے۔طبّی ماہرین کے مطابق حالیہ لہر بھی گزشتہ لہر سے کم خطرناک نہیں، لیکن اب ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملے کو وہ تربیت حاصل ہوچُکی ہے، جس کی بنیاد پر متاثرین کا ماضی کی نسبت زیادہ بہتر علاج کیا جا سکے گا۔پھر یہ کہ اب اِس وبا کا اِتنا خوف نہیں ہے، جتنا پہلے تھا۔اِس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک ویکسین تیار ہوجانے کا اعلان ہوچُکا ہے، جسے اس وائرس کے خلاف نوّے فی صد تک کام یاب بتایا گیا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ویکسین جلد ہی کروڑوں کی تعداد میں عوام کی پہنچ میں ہوگی۔چند روز قبل ایک اور ویکسین کی تیاری کی بھی خبر آگئی۔

اسے بھی ایک امریکی کمپنی، موڈرنا نے تیار کیا ہے۔کمپنی نے اس ویکسین کو کورونا وائرس کے خلاف95 فی صد تک مؤثر قرار دیا ہے۔ کمپنی نے اسے مارکیٹ میں لانے کے لیے متعلقہ اداروں سے منظوری پر کام شروع کردیا ہے۔ اِس ویکسین کی آزمائش30 ہزار افراد پر کی گئی۔موڈرنا کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سرِدست دو کروڑ ویکسین مارکیٹ میں لانے کے قابل ہے۔یہ ویکسین محفوظ ہے اور اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔طبّی ماہرین کسی ویکسین کی کام یابی کے لیے اسے ایک ضروری شرط قرار دیتے ہیں۔ایک اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اسے فائیزر کمپنی کی ویکسین کی طرح منفی80 ڈگری پر اسٹور کرنے کی ضرورت نہیں، یہ عام فریج میں بھی ایک ماہ تک رکھی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے ساتھ سپلائی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں ہوں گے۔

دونوں ویکسینز میں تقریباً ایک ہی طرح کی تیکنیک استعمال کی گئی ہے۔اس طریقۂ کار میں وائرس کے جینیٹک کوڈز خون میں شامل کیے جاتے ہیں، جو جسم میں موجود مدافعتی اور مزاحمتی نظام کو اِس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ وائرس کو روک دے اور پھر جسم میں موجود ٹی سیلز اسے ختم کردیتے ہیں۔ روس کی جانب سے بھی ویکسین بنانے کا دعویٰ سامنے آیا ہے، جسے وہ اپنے شہریوں پر آزما رہا ہے۔ نومبر کے ایک ہفتے میں دو مستند ویکسینز کا منظرِ عام پر آنا طبّی سائنس کی بڑی کام یابی ہے۔ زیادہ تر ماہرین کی رائے یہ تھی کہ ویکسین کی تیاری میں دو سال کا عرصہ لگے گا، لیکن فاسٹ ٹریک پر تیار ہونے والی یہ ویکسینز اِس امر کا پیش خیمہ ہیں کہ یہ عالمی وبا اب اختتام کے قریب ہے۔

اگر عوام کی جانب سے احتیاطی تدابیر جاری رکھی گئیں، تو اِن شاء اللہ اب یہ وبا زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔کورونا سے اموات کی شرح ایک فی صد سے کچھ زیادہ، جب کہ اِس کے مقابلے میں صحت یاب ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔یہ وائرس پہلی عالمی وبائوں کی طرح زیادہ اموات کا تو باعث نہ تھا، تاہم اس کا پھیلائو بہت زیادہ رہا، کیوں کہ ائیر ٹریول نے اس کی پہنچ تیز اور وسیع کردی تھی۔پھر یہ کہ اس کے معاشی، سماجی اور نفسیاتی اثرات بہت زیادہ رہے۔

اب جو اصل مسئلہ ہے، وہ دو جہتی ہے۔ایک تو یہ کہ ان ویکسینز کو تیاری کے بعد منزلِ مقصود تک اصل حالت میں پہنچایا جائے اور دوسری بات یہ کہ غریب ممالک کے لیے مفت نہیں، تو اتنی قیمت پر فراہم کرنا، جس سے دنیا کو معلوم ہوسکے کہ یہ واقعی گلوبل ویلج ہے اور انسانیت کم ازکم ایک ایسے اَن دیکھے دشمن وائرس کے خلاف تو متحد ہے، جو کسی رنگ، نسل یا مذہب کی تمیز کیے بغیر سب پر حملہ آور ہے۔