ماحولیاتی آلودگی اور ہماری ذمے داریاں

November 29, 2020

محمّد ریاض علیمی

انسانی صحت کے لیے کُھلی فضا اور صاف ہوا بے حد ضروری ہے، لیکن آج کے ترقّی یافتہ دَور میں انسان کو سانس لینے کے لیے صاف ہوا میّسر ہے اور نہ ہی کُھلی فضا۔وہ آلودہ اور زہریلی فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جس کے سبب طرح طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے اسلام نے درخت لگانے اور اُن کی حفاظت کرنے پر زور دیا ہے، کیوں کہ یہ سبزہ ہی ہے، جس سے فضائی آلودگی پر قابو پانے میں سب سے زیادہ مدد ملتی ہے۔

سیرتِ طیّبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺنے بنفسِ نفیس درخت لگائے اور ایسا کرنے کی ترغیب بھی دی۔ اِسی طرح آپ ﷺنے زمین کو غیر آباد چھوڑنے کی بجائے اُسے کاشت کاری اور زراعت کے ذریعے ہرا بَھرا رکھنے کی ترغیب دی۔چناں چہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا’’ جب کوئی مسلمان شجر کاری یا کاشت کاری کرتا ہے، پھر اُس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا حیوان کھاتا ہے، تو وہ اُس کے لیے صدقہ ہے‘‘(بخاری، 2320)۔ حضور نبی کریمﷺ نے ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا’’جو شخص کوئی درخت لگاتا ہے، تو جِتنا اُس کے ساتھ پھل لگتا ہے، اُتنا ہی اللہ تعالیٰ اُس کے لیے اجر لکھتا ہے‘‘(کنزالعمال، 9057)۔حضور نبی اکرم ﷺنے جس طرح پودے لگانے کی ترغیب دی، اسی طرح بلاوجہ درخت کاٹنے سے بھی منع فرمایا۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا’’ جو شخص کسی درخت کو (بلاضرورت)کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اُس کا سَر جہنّم میں ڈالے گا‘‘(ابو داؤد، 5239)۔ رسول اللہ ﷺ غزوات وسرایا میں صحابۂ کرامؓ کو روانہ کرتے وقت اِس بات کی خصوصی وصیّت کرتے کہ وہ دَورانِ جنگ فصلوں اور باغوں کو تباہ نہ کریں۔

آلودگی کی ایک قسم’’ زمینی آلودگی‘‘ بھی ہے۔ پوری دنیا، بالخصوص پاکستان میں یہ بھی ایک سنگین مسئلہ بن چُکی ہے۔زمینی آلودگی کی وجوہ میں سے بڑی وجہ اردگرد کے ماحول کا صاف نہ رکھنا ہے۔ بالفاظِ دیگر جگہ جگہ گندگی پھیلانا اور کوڑا کرکٹ ڈالنا زمینی آلودگی کو جنم دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اس سے بچاؤ کے لیے جو اصول بتائے، اُن میں گلیوں، محلّوں اور راستوں کی صفائی بھی شامل ہے۔ آپﷺ نے متعدّد احادیثِ مبارکہ میں گندگی پھیلانے سے منع فرمایا اور گندگی پھیلانے والوں کی مذمّت فرمائی۔اسلام نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، جس میں صرف جسمانی ہی نہیں، گھر اور دیگر مقامات کو بھی صاف ستھرا رکھنے کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’ ’بے شک اللہ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے ، صاف ہے اور صفائی کو پسند کرتا ہے ، کریم ہے، کرم کو پسند کرتا ہے اور سخی ہے، سخاوت کو پسند کرتا ہے، اس لیے تم لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھا کرو اور اُن یہود کی مشابہت اختیار مت کرو، جو اپنے گھروں میں کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں۔‘‘(مسند ابویعلی الموصلی)۔نیز، فرمایا’’جہاں تک تم سے ہوسکے، صفائی کرو، کیوں کہ اسلام کی بنیاد صفائی پر ہے اور جنّت میں صرف صاف رہنے والے ہی داخل ہوں گے۔‘‘(کنز العمال)۔ نبی کریمﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمیں اپنی ذمّے داریوں کا احساس دِلاتا ہے کہ جابجا گندگی اور غلاظت نہ پھیلائیں، کیوں کہ اس سے اردگرد کا ماحول آلودہ ہوتا ہے۔

آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’تین لعنت کی چیزوں یعنی پانی لینے کی جگہ پر، سائے میں (جہاں لوگ بیٹھتے ہوں ) اور راستے میں قضائے حاجت کرنے سے بچو۔‘‘(سنن ابنِ ماجہ)۔پانی کے بغیر انسانی زندگی کا تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا۔ایک طرف تو دنیا میں پانی کے ذخائر سُکڑتے جا رہے ہیں، دوسری طرف، ان ذخائر کو آلودگی کا سامنا ہے اور اس کا ذمّے دار کوئی اور نہیں، ہم ہی ہیں۔

ہماری صنعتیں ایک طرف فضا میں مضرِ صحت دھواں چھوڑ کر ہوا کو آلودہ کر رہی ہیں، تو دوسری جانب زہریلا صنعتی فضلہ کسی روک ٹوک اور حفاظتی تدبیر کے بغیر تالابوں، ندیوں، دریاؤں وغیرہ میں ڈال رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف آبی حیات متاثر ہو رہی ہے، بلکہ یہ آلودہ پانی انسانی جان کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔اِس ضمن میں اسلام کے احکام واضح ہیں، جن میں ہر اُس کام کی ممانعت کی گئی ہے، جو پانی کو آلودہ کرنے کا سبب ہو۔نبی کریم ﷺ نے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔

نیز، پانی کو ڈھانپ کر رکھنے کا بھی حکم دیا۔ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی فضلے کی پینے کے پانی میں ملاوٹ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے سیوریج نظام کی بہتری کے ساتھ عوام تک پینے کا صاف پانی پہنچانا بھی ضروری ہے۔

نبی کریمﷺ نے معاشرے کو ہر قسم کی آلودگی سے بچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر سَرانجام دی جانے والی کاوشوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اس خطرناک مسئلے سے بچنے کے لیے رہنما اصولوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔اگر ہم ان اصولوں کی پیروی کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ان سنگین مسائل پر قابو نہ پاسکیں۔