صحابیاتؓ کی اسلام کی خاطر قربانیاں

November 29, 2020

حافظ محمّد زبیر

جس طرح دینِ اسلام کی خاطر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، اُسی طرح صحابیاتؓ بھی پیچھے نہیں رہیں۔اُنھوں نے بھی اسلام کی خاطر ہر تکلیف اور اذیّت برداشت کی، لیکن اُن کے پائے استقامت لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں ڈگمگائے۔ جب کبھی اسلام کے لیے بڑی سے بڑی جانی و مالی قربانی کی ضرورت پڑی، مسلمان خواتین آگے ہی نظر آئیں۔

اُنہوں نے اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی خاطر اپنے گھر بار لُٹا دئیے، خونی رشتوں کو خوشی خوشی موت کے حوالے کر دیا، اپنی آبائی سرزمین چھوڑ کر دُور جا بسیں،مگر اُن کے حوصلے کبھی پست نہ ہوئے۔ اُنہیں تپتے صحراؤں، دہکتے کوئلوں پر لٹایا گیا، لوہے کے لباس پہنا کر سورج کی سختی چکھائی گئی، بچّوں اور اہلِ خانہ کو نظروں کے سامنے سُولی پر لٹکایا گیا، نیزوں، تلواروں، خنجروں اور کوڑوں کے ساتھ لہولہان کیا گیا، بھوکے پیاسے دھوپ میں باندھ کر رکھا گیا، گھربار، بہن بھائی، ماں باپ، پیارے رشتوں سے جُدا کیا گیا اور وطنِ عزیز سے نکالا گیا۔ غرض ظلم و جبر اور سفّاکی کا کوئی ایسا حربہ نہیں تھا، جو اُن پر نہ آزمایا گیا ہو، مگر تپتے صحرا اور اندھیری، ٹھٹھرتی راتیں گواہ ہیں کہ صنفِ نازک کی استقامت میں ذرّہ برابر جنبش نہ آئی اور ہمیشہ کے لیے اوراقِ تاریخ کو ان کی قربانیاں محفوظ کرنی پڑیں۔

مشہور صحابی، حضرت عمّار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی والدہ، حضرت سمیّہ رضی اللہ عنہا وہ شیر دِل خاتون ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے شجرِ اسلام کی جڑیں مضبوط کیں۔ یوں اُنہیں جہاں اِسلام کی پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، وہیں یہ شرف بھی ملا کہ آپؓ راہِ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والی واحد صحابیہ ہیں۔کفّارِ مکّہ نے آپؓ کے قبولِ اسلام ہی کو آپؓ کا ناقابلِ برداشت جرم بنا دیا تھا، جس کی پاداش میں آپؓ پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ زمین کانپ اٹھی۔

رسول اللہﷺ جب اُنھیں اپنے بیٹے، حضرت عمّارؓ اور شوہر حضرت یاسرؓ کے ساتھ مکّے کے تپتے صحرا میں ایذا پاتے دیکھتے، تو فرماتے’’ اے آلِ یاسرؓ! صبر کرو۔ تمہارے لیے جنّت کا وعدہ ہے۔‘‘ابوجہل، آپؓ پر شدید ظلم و ستم کرتا تھا، لیکن آپؓ نے اِس کے باوجود اسلام کا دامن نہ چھوڑا، بلکہ ان مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ایک روز ابوجہل نے نیزہ تان کر اُنہیں دھمکاتے ہوئے کہا کہ’’ تُو کلمہ نہ پڑھ، ورنہ تجھے یہ نیزہ مار دوں گا۔‘‘

اس پر اُنھوں نے زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ ابو جہل نے غصّے میں اُن کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لَت پَت ہو کر گر پڑیں اور شہید ہوگئیں۔ظلم و ستم کی ان آندھیوں کے آگے سینہ سپر ہوجانے والی ہستیوں میں حضرت نہدیہؓ اور اُن کی بیٹی بھی ہیں۔ یہ دونوں بنو عبدالدار کی ایک عورت کی باندیاں تھیں، جو اُنہیں سخت تکلیفیں دیا کرتی اور کہا کرتی کہ’’ مَیں کبھی تمہیں آزاد نہیں کروں گی اور یہی سلوک جاری رکھوں گی، اگر اس سے چھٹکارا چاہتی ہو، تو توحید کا انکار کر دو یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارا کوئی ہم مذہب تمہیں خرید کے آزاد کر دے۔‘‘

ایک مرتبہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اُن کے پاس سے گزرے، تو وہ عورت اُس وقت بھی اُنہیں یہی کہہ رہی تھی،جس پر آپؓ نے فرمایا’’ اے اُمّ فلاں! انہیں آزاد کر دو۔‘‘ وہ بولی’’ آپ نے ان دونوں کو بگاڑا ہے، آپ ہی آزاد کریں۔‘‘چناں چہ آپؓ نے اُنہیں خرید کر آزاد کردیا۔حضرت بی بی ام عُبَیْس رضی اللہ عنہا نے بھی دین کی خاطر بہت مظالم برداشت کیے۔ یہ بنی زہرہ کی باندی تھیں۔ اُنھیں بھی کافروں نے بہت ستایا، بے حد ظلم و ستم کیا۔ بالخصوص اسود بن عبد یغوث تو آپؓ کو سخت تکالیف پہنچایا کرتا تھا۔انھیں بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد کیا۔

دینِ اسلام کی خاطر مصیبتوں کے پہاڑ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانے والی ایک اور صحابیہ حضرت لُبَیْنہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔ آپؓ بنی مُؤَمَّل کی باندی تھیں۔ ابتدائے اسلام ہی میں اسلام کی حقّانیت کا نُور ان کے دل میں جاگزیں ہوا اور وہ دامنِ مصطفیٰ ﷺ سے وابستہ ہوگئیں۔ کفّارِ مکّہ نے ان پر بھی ظلم و ستم کی انتہا کردی۔ آخر کار جب ظلم و ستم بڑھتے گئے، تو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اُنھیں اِس ظلم و ستم سے یوں نجات دلائی کہ کافر مالک سے خرید کر آزاد کر دیا۔راہِ خدا میں درد ناک اذیّتیں اور تکالیف برداشت کرنے والی ایک شیر دِل خاتون حضرت حَمَامہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔ آپؓ مؤذنِ رسولﷺ، حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ ہیں۔

انھیں بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کردیا تھا۔ ایک اور صحابیہ، حضرت زنیرہ رضی اللّٰہ عنہا نے بھی اسلام کے خاطر بہت سے مظالم برداشت کیے، یہاں تک کہ ابوجہل کے بہیمانہ تشدّد سے آپؓ کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ اس پر ابو جہل نے کہا’’ تیری یہ حالت لات و عزّی نے کی ہے‘‘ اِس پر اُنھوں نے یہ ایمان افروز جواب دیا’’ لات و عزّی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کی پوجا کون کرتا ہے؟ یہ آزمائش تو میرے ربّ کی طرف سے ہے اور میرا مالِک و پروردگار میری بینائی لَوٹانے پر قادر ہے۔‘‘ چناں چہ اگلی ہی صبح اُن کی بینائی لَوٹ آئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انھیں خرید کر آزاد کیا، تو اِس ظلم وستم سے نجات ملی۔