پُر اسرار ’’لال کتاب‘‘

November 29, 2020

لال کتاب(ریڈ بُک) کی اصطلاح مغربی دنیا میں ایک مخصوص استعارہ رہی ہے۔ماضی کے یورپ میں لال کتاب (ریڈ بُک) اور سُرخ فیتے(ریڈ ٹیپ)سے مُراد اہم سرکاری دستاویز، محکمہ جاتی ضوابط، خفیہ احکامات کی فائلز، آمدن، اخراجات اور ٹیکس وغیرہ کے کاغذات ہوا کرتے تھے۔ برطانوی راج نے جب ہندوستان میں فوجی چھاؤنیوں اور کمشنری نظام کی جدید طرز پر بنیاد رکھی، تو یہ الفاظ بھی مقامی اداروں کی فرہنگ کا حصّہ بن گئے۔ بیسویں صدی کی ابتدا تک’’ ریڈ بُک ‘‘کی اصطلاح دیگر شعبوں میں لکھی جانے والی کتب کے لیے بھی عام ہوگئی۔ جیسے شہرۂ آفاق ماہرِ نفسیات، کارل ژنگ نے ذاتی مشاہدات پر مبنی تصنیف کو’’ریڈ بُک‘‘ کا نام دیا۔ بیسویں صدی میں ٹیکنیکل اور میڈیکل مینول کی چند کتب ریڈ بُک کے نام سے معروف ہوئیں۔فی زمانہ، لال کتاب کا لفظ استعمال کرنے کی روایت دَم توڑ چُکی ہے۔ سُرخ فیتے کی ترکیب اب مزید منفی معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔قیافے اور پیش گوئی کی دنیا میں بھی ’’لال کتاب ‘‘کے نام سے تحاریر کا ایک مجموعہ پایا جاتا ہے۔

دراصل لال کتاب کسی ایک کتاب کا نام نہیں اور نہ ہی یہ کسی ایک علم پر مبنی ہے۔ یہ ایک کتابی سلسلہ اور مستقبل بینی کے کئی فنون کا مرکّب ہے۔ 1939 ء سے 1952 ء تک لال کتاب کے نام سے پانچ کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ یہ کتابیں ترتیب سے جلد اوّل، دوم، سوم، چہارم، پنجم نہیں تھیں، بلکہ ایک دوسرے کے ضمنی، وضاحتی، ترمیمی اور توسیعی ایڈیشنز تھے۔ 1939ء کا پہلا ایڈیشن تو مکمل طور پر صرف دست شناسی، جسمانی اعضا کے قیافے اور ایک مفصّل مثالی زائچے پر مشتمل تھا، جس میں ٹوٹکے اور اُپائے(تدابیر، ترکیب) کا علیٰحدہ باب شامل نہیں تھا۔ بعدازاں، نئے ایڈیشنز میں پامسٹری کے ساتھ آسٹرولوجی، قیافہ شناسی، مثالی زائچے، شگن، ٹوٹکے، نئی تدابیر شامل ہوتی گئیں۔

کہیں کہیں واستو(ہندوستانی فنِ تعمیر)، خوابوں کی تعبیر، نیم حکیمانہ مشورے اور سیارگان کے خاکے بھی ہیں، جو اس دَور کی عام فکر اور طرزِ زندگی کے عکّاس ہیں۔شومئی قسمت کہ پہلی اشاعت سے آخری اشاعت تک لال کتاب کو کسی نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا، بلکہ کئی عشروں تک یہ ماہرین کی نظروں سے اوجھل رہی، کیوں کہ یہ جس زبان میں لکھی گئی اور جس مقام سے شائع ہوئی، وہ ماہرین کے نزدیک علمِ نجوم کا مستند حوالہ نہیں۔تاہم، کچھ عرصہ قبل گم شدہ لال کتاب کا دوسرا جنم ہوا، تو ماہرین چونک گئے، کیوں کہ اس میں موجود مواد جیوتش کی عام روایت سے مختلف ہے۔ آج مستقبل بینی سے دِل چسپی رکھنے والا ہر دوسرا فرد لال کتاب کے نام سے آشنا ہے۔اس کے کئی زبانوں میں جزوی اور کُلی تراجم ہوچُکے ہیں۔

کتاب کا پس منظر

لال کتاب کا پس منظر گزشتہ صدی کا غیر منقسم پنجاب اور شمالی ہندوستان کا معاشرہ ہے۔ مثلاً اُس دور کی زندگی، کاروبار، مکانات کی قصباتی بناوٹ، مشترکہ خاندانی نظام، سُسرالی رشتے دار، پالتو جانور، رسومات، اوہام، علوم، زبانیں اور محاورے وغیرہ۔ اسلوب کے لحاظ سے کتاب کا کچھ حصّہ منظوم ہے اور بیش تر نثر۔ فنی نکتۂ نظر سے لال کتاب کئی علوم اور مختلف عنوانات کا متوازی بیان ہے اور یہ سب کچھ ایک ہزار سے زائد صفحات پر محیط ہے۔ اگرچہ یہ کتاب اُردو زبان میں ہے، لیکن اس کی تحریر کسی پرانی جنتری کی طرح گنجلگ اور مبہم ہے۔ کچھ مقامات پر مخصوص ہندی اصطلاحات بھی نظر آتی ہیں جیسے آکاش، اُپاؤ، استھان، سِدھی، بھوساگر، بِدھاتا، پَرانی، پاپ، سبھاؤ، نشٹ، رِن وغیرہ۔ ہر عنوان سے قبل تُک بندی اور بے بحر اشعار ہیں۔ مصنّف کو اس کی رعایت دی جاسکتی ہے، کیوں کہ وہ شاعر نہیں، عام سرکاری ملازم ہے، جس کی دِل چسپی کا محور پامسٹری اور آسٹرولوجی ہے۔

تاہم، اس نے بعض کہاوتوں اور محاوروں کو خُوب صورتی سے احکامِ نجوم کا جامہ پہنایا ہے۔چند دِل چسپ مثالیں ملاحظہ کیجیے۔"ماں پہ دِھی پِتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا"۔ اگرچہ اس کا عام مطلب تو یہ کہ بچّے اپنے والدین کے نقشِ قدم ہی پر چلتے ہیں، لیکن کتاب نے اس ضرب المثل کو مجازی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ جہاں ماں کو زائچے کے چوتھے گھر، دِھی کو برج سنبلہ، پِتا کو سیارہ مشتری اور گھوڑے کو چاند سے نسبت دی ہے۔

ان سیارگان، زائچے کے گھر اور برج پر ترتیب سے غور کریں، تو کتاب میں بیان کیا گیا ایک اصول بن جاتا ہے۔علمِ نجوم پر مبنی شاعری کی روایت بہت قدیم ہے، لیکن رائج ضرب المثل کو احکامِ نجوم کے مجازی معنی پہنانے کی مثال نایاب ہے۔ اُردو میں مستعمل عام فارسی محاورہ ہے"زميں جنبد نہ جنبد گل محمد"، اِس مضمون کو لال کتاب (1941ء ایڈیشن)نے تبدیلی کے ساتھ اس طرح برتا ہے"زمیں جنبد، بجنبد، پر نہ جنبد مہر ومنگل، گر بجنبد ماہ بجنبد"۔کتاب نے یہاں سیارگان کے ناموں کے ساتھ تضمین کی ہے۔ اس شعر میں مہر(یعنی شمس) اور منگل(یعنی مریخ) کی فطری استقامت اور ضدی پن کی جانب اشارہ ہے، جب کہ ماہ(یعنی قمر) چوں کہ تیز رفتار ہے، لہٰذا منقلب المزاجی ممکن ہے۔

کتاب کا مصنّف کون ہے؟

اصلی سرورق پر کسی مصنّف کا نام درج نہیں۔ تاہم، ہر ایڈیشن کے ٹائٹل پر پبلشر ’’شرما گردھاری لال‘‘ ضرور لکھا ہے، جو سالانہ جنتریاں شایع کرتے تھے۔ مصنّف سے متعلق دو مفروضات ہیں۔ پہلا مفروضہ یہ کہ لال کتاب کے مصنّف گردھاری لال خود ہیں اور دوسرا یہ کہ اسے رُوپ چند جوشی نے تحریر کیا۔ یہاں دوسرا مفروضہ حقیقت کے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اصل کتاب کے ہر ایڈیشن میں گردھاری لال کا نام بطور پبلشر ضرور موجود ہے، بطور مصنّف نہیں۔

یہ دونوں افراد(روپ چند جوشی اور گردھاری لال)اب حیات نہیں۔بعض محقّقین کے مطابق، پنڈت روپ چند جوشی کا تعلق پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گاؤں سے تھا۔ اُنھوں نے اپنے والد، پنڈت جوتی رام جوشی سے پامسٹری اور آسٹرولوجی سیکھی، پھر شوقیہ مطالعہ کرنے لگے۔وہ نوجوانی میں ایک اسکول ماسٹر تھے۔ پھر اُنھیں انگریز سرکار کے محکمہ ڈیفینس اکاؤنٹس میں نوکوی مل گئی اور آخری عُمر تک یہیں ملازمت کرتے رہے۔ اس محکمے کے منشی، کلرک اور اکاؤنٹنٹ، لال مجلّد کھاتے(لیجر رجسٹر) استعمال کیا کرتے تھے۔ سرکاری اور فوجی حساب کتاب کے رجسٹر کو ڈیپارٹمنٹ والے عرفِ عام میں "لال کتاب" کہتے تھے۔ اپنی ملازمت کے دَوران ہی رُوپ چند جوشی نے دست شناسی اور قیافہ شناسی پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام "لال کتاب" رکھا۔ اس کتاب کو گردھاری لال نے 1939 ء میں جالندھر سے شائع کیا۔ پہلی اشاعت کے بعد یہ کتابی سلسلہ بن گیا۔

سوال یہ ہے کہ پنڈت رُوپ چند جوشی نے "لال کتاب " کو خود تصنیف کیا تھا یا یہ کسی قدیم نسخے کا اردو ترجمہ ہے؟ کیوں کہ کتاب اپنے تئیں ذرا مختلف نوعیت کا علمِ نجوم پیش کرتی ہے۔کتاب میں موجود اصول اور احکامِ نجوم، سکّہ بند جیوتش سے قدرے مختلف ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایک مَن گھڑت کہانی کو قصداً فروغ دیا گیا کہ گردھاری لال یا رُوپ چند جوشی کو لال کتاب کا نسخہ ہمالے کے ایک جوگی نے تحفہ دیا تھا، جس میں قدیم ترین جیوتش کا اصل راز چُھپا ہے۔ ہمارے محدود مطالعے کے مطابق یہ جیوتش کی قدیم کتاب بالکل نہیں۔ سنسکرت زبان جاننے والا کوئی محقّق اس کی سند نہیں دیتا، لیکن انٹرنیٹ پر موجود شوقین نجومی ایسے مفروضوں کو آنکھ بند کر کے آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ سنسکرت میں لکھی جیوتش کی سیکڑوں کتب کے قدیم نسخے آج ڈیجیٹل فارمیٹ میں دست یاب ہیں۔

ان میں سے درجنوں کے انگریزی تراجم ہوچُکے ہیں۔ جیوتش کی قدیم سنسکرت کتب کا اسلوب، ابتدا، اختتام، ابواب کی ترتیب، تراکیب اور اصطلاحات لگے بندھے انداز میں ڈھلی ہیں، کیوں کہ اُن کے لکھنے اور پڑھنے والے صرف خاص برہمن گھرانے ہوا کرتے تھے۔ لال کتاب کا اندازِ بیان عوامی ہے اور ترتیب حالیہ دَور کی اختراع ہے۔تاہم کتاب میں موجود پامسٹری کے بعض نکات لامحالہ قدیم ہست سامدرک شاستر سے اخذ معلوم ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں سامدرک (یعنی دست شناسی اور قیافہ شناسی کا علم) تحریری نہیں رہا، بلکہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا ہے۔ مستقبل بینی کے میدان میں سامدرک کو درجہ دوم اور سوم کا علم سمجھا جاتا ہے،جس میں ریاضی اور ہیئت کا عمل دخل نہیں۔ اس کے برعکس، جیوتش ایک مشکل میدان رہا ہے، جو ریاضی اور ہیئت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے اسے’’ خواص کا علم‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔

جیوتش کی کتابیں ہزاروں برس سے سنسکرت میں لکھی جاتی رہی ہیں۔ اگر روایتی جیوتش کی کتب اور لال کتاب کے متن کا موازنہ کیا جائے، تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ کتاب، قدیم جیوتش کے کسی نسخے پر مبنی نہیں، بلکہ گزشتہ چند صدیوں کے دَوران قصباتی علاقوں میں فروغ پانے والا سادہ متبادل ہے۔ لال کتاب کی آسٹرولوجی اور سنسکرت جیوتش کتب میں وہی فرق ہے، جو فارسی غزل اور فلمی قوّالی میں ہے۔رُوپ چند جوشی کو مصنّف تسلیم کرنے کی دوسری وجہ کتاب کے اندر موجود کچھ مخصوص اصطلاحات ہیں، جو عموماً گورنمنٹ اور فوجی ملازمین استعمال کرتے ہیں، جیسے"ہیڈکوارٹر"۔ مصنّف نے درجنوں بار "ہیڈکوارٹر" کی تشبیہ استعمال کی ہے۔ یہ لفظ کسی اور جیوتش کتاب میں نظر نہیں آتا۔ کچھ انوکھی تراکیب بھی ہیں، جیسے "شکی گرہ"، "مصنوعی گرہ" اور "پکے گھر" وغیرہ۔یہ سنسکرت جیوتش کی روایتی تراکیب نہیں اور نہ ہی ان کا ترجمہ ہیں۔ کتاب کے’’ اثراتِ سیارگان‘‘ کے مضمون میں ماضی قریب کا علاقائی رنگ صاف جھلکتا ہے، مثلاً "مقدماتِ دیوانی، محکمانہ علم، موٹر لاری،سونے کا پونڈ، جدی جائیداد، والدینی حال، اسکول، عیشی پٹھا، بھائی بند، زمین کے جھگڑے، گولی، الارم، ردی، شکی حالت، کچا دھواں ‘‘وغیرہ۔

اِن میں سے کوئی بھی ترکیب، سنسکرت جیوتش کتب میں موجود اصطلاحات کا ترجمہ نہیں۔ ان الفاظ کے پس منظر سے آپ ایک سو سال پرانے مشرقی پنجاب کے ایک سرکاری ملازم اور اس کے قصباتی پس منظر کو سمجھ سکتے ہیں، جس نے جیوتش جیسے مشکل عنوان کو عوامی انداز میں پیش کیا۔رُوپ چند جوشی کو مصنّف گرداننے کی تیسری وجہ یہ کہ کتاب میں قدیم جیوتش کے برخلاف، بہت حد تک سیکولر رویّہ نظر آتا ہے۔ یعنی لال کتاب مذہبی رنگ میں نہیں رنگی۔ تاریخی طور پر پنجاب میں برہمن طبقہ حاوی نہیں رہا۔ کتاب کی ابتدا دیوتاؤں کی حمد و ثنا یا دعائیہ منقبت سے نہیں ہوتی۔ یہ سنسکرت میں لکھی پرانی جیوتش کتب کے رویّے کے برعکس صُورت ہے اور بین السطور کسی خاص عبادت گاہ، دان، یاترا یا منتر کو بھی ترجیح نہیں دی گئی۔ سیکڑوں صفحات کی کتاب میں چند صنمیاتی خاکے اور صرف ایک ٹیبل میں نوگرہ سے منسوب معروف دیوتاؤں کے نام اور ان کے دان لکھے ہیں۔

کتاب کے پانچ رُوپ

پانچ ایڈیشنز پر مبنی لال کتاب کی اشاعت کا سلسلہ تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں جاری رہا۔ ان کی تفصیل یہ ہے: سامُدرک کی لال کتاب (لال کتاب کے فرمان) اشاعت1939ء،جالندھر۔ سامُدرک لال کتاب کے ارمان، اشاعت، 1940 ء جالندھر۔ سامُدرک کی لال کتاب، اشاعت 1941 ء، جالندھر۔ علمِ سامُدرک کی لال کتاب، اشاعت1942 ء، جالندھر ۔ جوتش کی لال کتاب، اشاعت، 1951 ء، جالندھر۔ لال کتاب کے یہ تمام(پانچوں) ایڈیشنز شرما گردھاری لال نے جالندھر سے شائع کیے۔ ان کا نام اور تصویر بطور پبلشر موجود ہے۔ ابتدائی چار ایڈیشنز کی کتابت ایک ہی کاتب نے کی۔ کتاب کے آخری صفحے کی آخری سطر کے نیچے کاتب کا نام "آتما رام نورپوری" رقم ہے۔ سابقہ ریاست نورپور اس دور کے پنجاب کے ضلع کانگڑہ کا حصّہ تھی۔ اب یہ علاقہ ہماچل پردیش کا حصّہ ہے۔ اسی نورپور کے علاقے، دھرمسالا میں لال کتاب کے ابتدائی چار ایڈیشنز کی پرنٹنگ ہوئی۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ پہلے چار ایڈیشنز یکے بعد دیگرے ہر برس شائع ہوئے، لیکن پانچواں ایڈیشن دس سال کے وقفے کے بعد 1952 ء میں شائع ہوا اور اُس کی پرنٹنگ نئی دہلی میں ہوئی۔

یہ آخری ایڈیشن سب سے ضخیم ہے، جس کے ایک ہزار سے زیادہ (1173) صفحات ہیں۔ اس کی کتابت قدرے خُوب صورت ہے، اردو صاف ہے اور چند مقامات پر انگریزی مترادفات بھی درج ہیں۔ نیز، آسٹرولوجی سے متعلق بہت سا نیا مواد شامل ہے۔ نامانوس ہندی الفاظ، مشکل اصطلاحات اور ٹیبل کے وضاحتی فُٹ نوٹس موجود ہیں۔ شاعری نہ صرف محدود ہے، بلکہ گزشتہ اشاعتوں سے مختلف بھی ہے۔غالباً اس آخری لال کتاب کو پرنٹنگ سے قبل دہلی کے کسی مقامی جوتشی نے نظرِ ثانی کی غرض سے دیکھا ہوگا۔ اس کے سرورق پر"جوتش کی لال کتاب" کا عنوان درج ہے اور یہی پانچواں ایڈیشن، انگریزی اور ہندی میں جزوی اور کُلی طور پر ترجمہ ہوا۔

کتاب کی پامسٹری

ابتدائی چاروں ایڈیشنز کے سرِورق پر "جوتش" کا لفظ موجود نہیں تھا۔ اس کی جگہ "سامُدرک" (samudrik) تحریر تھا۔ سنسکرت اور ہندی میں "سامدرک" کے لفظی معنی " دریا، سمندر سے متعلق" کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً اس سے مُراد دست شناسی، قیافہ شناسی اور مستقبل شناسی لی جاتی ہے، کیوں کہ یہ علم سمندر کی لہروں کی طرح لامتناہی ہے۔لال کتاب کا پہلا ایڈیشن روایتی دست شناسی اور قیافہ شناسی پر مبنی تھا۔اس کے مطابق، اگر کسی کو اپنی حتمی تاریخِ پیدائش اور وقت پیدائش معلوم نہ ہو یا جوتش کی کنڈلی درست نہ بنی ہو، تو وہ پامسٹری اور جسمانی اعضا کے قیافے کی مدد سے "سامدرک کنڈلی" بنالے۔ سیارگان کے نتائج اسی "سامدرک کنڈلی" کے حوالے سے لکھے ہیں۔ بیان کردہ دست شناسی کےقواعد عام انگریزی کتب میں موجود پامسٹری سے کافی الگ ہیں۔ اس کی عبارت سمجھنا تھوڑا مشکل ہے، کیوں کہ اندازِ بیان گنجلک اور ترتیب سے عاری ہے۔ اس سقم کے باوجود اس کی پامسٹری بعض اوقات حیران کُن طور پر درست ثابت ہوتی ہے۔ کتاب کا مصنّف، اپنے زمانے یعنی گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں میں دست یاب ویسٹرن آسٹرولوجی اور کیرو کی پامسٹری سے شناسا نظر آتا ہے۔ علاوہ ازیں، کتاب میں جدید مغربی دست شناسی کی ہلکی سی جھلک بھی ملتی ہے۔

مثلاًہاتھ کی ساخت، انگوٹھے کے تین حصّوں اور انگلیوں کی لمبائی کا موازنہ جیسے نتائج جدید مغربی انداز کی پامسٹری سے اخذ کردہ ہیں۔

لال کتاب سے منسوب غلط فہمیاں

اکیسویں صدی میں لال کتاب کی اچانک مقبولیت کے باعث اس سے بہت سے غیر تاریخی حقائق اورغیرمنطقی توہمّات وابستہ کردیے گئے۔ چند عوامی غلط فہمیاں یہ ہیں۔

یہ کالے علم پر مبنی ہے؟

یہ شوشا پندرہ بیس سال پہلے چھوڑا گیا۔ اس غلط فہمی کو پھیلانے والے چند نام نہاد پروفیشنل گرو تھے، جو انٹرنیٹ پر آن لائن آسٹرولوجی گروپس اور پورٹلز چلاتے تھے۔ کئی امریکی اور یورپی گورے ان کے شاگرد تھے، جنھیں وہ ویدک آسٹرولوجی کے نام سے روحانی تدابیر اور پوجا پاٹ کے طریقے بھی بیچا کرتے تھے۔ جب گم شدہ لال کتاب کی سافٹ کاپیز اور انگریزی تراجم انٹرنیٹ پر عام ہوئے تو کئی کاروباری گروؤں کا دھندا مندا ہوگیا۔ مسابقت کی چال کے طور پر یہ بات پھیلا کردی گئی کہ لال کتاب، کالے علم اور "وام چار تنتر" پر مبنی ہے،اسے ہاتھ نہ لگاؤ، ورنہ سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔

ان سب حربوں کے باوجود کتاب اپنی آسان تراکیب اور انوکھے اصولوں کی وجہ سے دن بدن مقبول ہوتی گئی، یہاں تک کہ اس کی گونج امریکا، یورپ تک پہنچ گئی۔بھارت کے کئی مقامی جوتشیوں نے کتاب کی شہرت کو اچھا کاروباری موقع جانتے ہوئے، دل وجان سے اپنا لیا۔ حتیٰ کہ اسے "پراچین بھارتیا جیوتش کا خفیہ خزانہ‘‘ قرار دے ڈالا۔ کئی پنڈت تو راتوں رات’’ لال کتاب اسپیشلسٹ‘‘ بن گئے۔ نہ صرف ویب سائٹس، مشاورتی آفس اور لرننگ اسکول کھول لیے، بلکہ کئی فرنچائز بھی کھل گئیں۔کچھ ایسا ہی کام پاکستانی پروفیشنل نجومیوں اور آسٹرولوجی میگزین اور جنتریاں چھاپنے والوں نے بھی جلی خفی انداز میں کیا۔ یعنی وظائف، لوح اور پتھروں کے ساتھ لال کتاب کے ٹوٹکے بھی اسلامی روحانی وظائف بتا کر کلائنٹ کو بیچنے لگے۔ تاہم اب عوام کی دل چسپی لال کتاب میں کچھ کم ہوگئی ہے۔

کتاب مسلم عرب، ایرانی، تُرک نجوم پر مبنی ہے؟

یہ غلط فہمی عام انڈین آسٹرولوجی سیکھنے والے بھارتیوں میں آج بھی موجود ہے، جس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لال کتاب کے تمام ایڈیشن اردو زبان میں شائع ہوئے۔ ایسے معصوم دعوے دار یہ نہیں جانتے کہ اردو پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کے لیے مسلمان ہونا شرط نہیں۔ زبان کا جغرافیہ اہم ہوتا ہے، عقیدہ نہیں۔ تقسیمِ ہند سے قبل، اردو لکھنے پڑھنے والوں میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سبھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ اردو میں تحریرلال کتاب ،جیوتش کی پہلی کتاب نہیں، جسے کسی ہندو نے تصنیف کیا ہو۔ اس سے پہلے انیسویں صدی (1801-1900) کے دوران شائع ہونے والی اردو کی کئی جیوتش کتب کے حوالے موجود ہیں، جنھیں ہندوؤں نے خود تصنیف و تالیف کیا۔

ایک اور مفروضے کے مطابق لال کتاب پرانے لاہور کے ایک علاقے کی کھدائی سے ملنے والی تانبے کی قدیم پتریوں پر مبنی نسخہ تھا، جس میں مسلم نجوم کے راز پوشیدہ ہیں۔ یہ پتریاں گردھاری لال شرما تک پہنچیں اور اُنھوں نے اس کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ اگر علم و تحقیق کی خردبین سے دیکھیں تو یہ کہانی بھی بے معنی معلوم ہو گی۔ تاریخی طور عرب، فارس نجوم ساتویں سے تیرھویں صدی (سقوطِ بغداد) تک عروج پر رہا اور اس کا مرکز جزیرۃ العرب(سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں ) نہیں تھا، بلکہ موجودہ عراق ،مصر ،شام اور وسطی ایشیا کے شہری علاقے تھے۔نیز، عرب، فارس نجوم کی مہارتیں، ہندوستانی جیوتش سےکافی الگ ہیں۔

کتاب تاجک آسٹرولوجی پر مبنی ہے؟

اگرچہ کتاب میں کئی جگہ سالانہ زائچوں کا حوالہ اور مثالیں موجود ہیں، لیکن سالانہ زائچہ تاجک زائچہ نہیں۔ کتاب کے سالانہ زائچے میں، تاجک آسٹرولوجی کے 16 یوگ، پنچ ورگیابل، تربیع، تثلیث و تسدیس کی نظرات بلحاظ درجات، سہائم، منتہا وغیرہ بھی شامل نہیں۔برِصغیر پاک و ہند میں "تاجک آسٹرولوجی" سے مراد نجوم کی وہ مقامی شاخ ہے جو "سالانہ زائچے" اور کچھ حد تک "وقتی زائچے" کا احاطہ کرتی ہے۔

تاجک جیوتش شاستر، دراصل عرب، فارس مسلم نجوم ہی کی مسخ شدہ ہندوستانی شکل ہے۔ یہ علمِ نجوم، مسلم حملہ آوروں کے ہم راہ ہندوستان آیا۔ پندرھویں سے اٹھاوریں صدی کے دوران ہندو جیوتشیوں میں اسے کافی پذیرائی ملی۔ جب ہندوستان میں مغل حکم رانوں کے دربار میں مقامی ہندو پنڈت اور غیر مقامی ایرانی، عراقی، تُرک علما و حکما ایک ساتھ موجود ہوا کرتے تھے۔پھر اس کی ریاضیاتی تخمین (calculations) تاجک ہے نہ اس کے اصول۔ اور نہ ہی اس کی پیش گوئی کی تیکنیک۔

برج حمل کے فطری زائچہ پر مبنی نجوم ہے؟

برج حمل کو فطری زائچہ سمجھ کر پڑھنے کا طریقہ دورِ جدید کی اُپچ ہے۔ زائچۂ پیدائش کی حد تک یہ روایت نہ تو قدیم جیوتش (ہندی نجوم) کا حصّہ ہے، نہ ہی عرب، فارس مسلم نجوم کا خاصّہ۔ اور نہ ہی قدیم یونانی نجوم میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہے۔ فطری زائچۂ حمل کا استعمال قدیم ساسانی نجوم (Sassanian astrology) میں صرف عالمی نجوم (mundane astrology) کے چند اصولوں اور قراناتِ عظیم (Great Conjunctions) کی تشریح تک محدود تھا۔ بیسویں صدی کے ابتدامیں رفائل (Raphael)، سیفاریئل(Sepharial)، کیرو (Cheiro) اور ایلن لیو (Alan Leo) کی کتابیں نہ صرف یورپ بلکہ ہندوستان بھر میں مقبول تھیں۔

یہ سب قابل ماہرین تھے، لیکن انھوں نے عوام کے سہولت کے لیے جو کتابیں اور مضامین لکھے، ان میں سے بیش تر صرف ویسٹرن سن سائن (sun-sign) اور بارہ بروج کی خصوصیات پر مشتمل تھے۔ جب ویسٹرن آسٹرلوجی اور پامسٹری کی کتابیں ہندوستان آنے لگیں تو یہاں کی جنتریوں اور نجوم کی مقامی کتابوں پر اس کا لامحالہ اثر پڑا ۔ حتیٰ کہ مرحوم کاش البرنی کی تحریریں اور لال کتاب بھی ماڈرن ویسٹرن آسٹرولوجی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ پھر سن 30 اور 40 کی دہائی سے سن سائن پر مبنی پیش گوئیوں کے کالم یورپی اخبارات کی زینت بننے لگے۔ تاہم لال کتاب کسی طور سن سائن آسٹرولوجی نہیں۔

اُپائے (حل المسائل) کی کتاب ہے؟

یہاں سوال یہ نہیں کہ لال کتاب کے اُپائے (remedies) حقیقی زندگی میں کارآمد ہیں یا نہیں، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لال کتاب (1952 ء ایڈیشن) میں جابجا ٹوٹکے، تدابیر اور مسائل کے حل موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ ان ٹوٹکوں کا، کتاب میں موجود دیگر مواد سے موازنہ کریں تو یہ شاید ایک چوتھائی بھی نہیں۔

بہرحال، بطور مجموعی لال کتاب، اُپائے کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اصل سرِورق یا تعارفی صفحات میں مصنّف یا پبلشر کا ایسا کوئی دعویٰ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ1982 ء سے قبل بہت ہی کم نجومیوں کو اس کتاب کے وجود کا علم تھا۔ اس کی اچانک ڈھونڈ تو تب مچی، جب ایک انگریزی میگزین میں اس سے متعلق سنسنی خیز آرٹیکل شائع ہوا۔ کچھ عرصے بعد اس کا ایک اردو نسخہ، بھارتی پنجاب سے نمودار ہوا، تو اس کی فوٹو کاپیاں منہگے داموں بکنے لگیں۔ 90 ء کی دہائی تک لال کتاب کے پانچوں ایڈیشنز کی فوٹوکاپیاں برصغیر پاک و ہند میں پھیل چُکی تھیں۔ 2000 ء کے بعد اس کی عکسی نقول (اسکینڈ سافٹ کاپیاں)انٹرنیٹ پر عام ہونے لگیں۔

اس کے کچھ حصّوں کا انگریزی ترجمہ سامنے آ گیا۔ یہ کہا جائے کہ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ لال کتاب، کسی فلم کی طرح ہِٹ ہوگئی ،تو غلط نہ ہوگا۔ حالاں کہ یہ وہی کتاب تھی جسے 1940 ء اور 1950 ء میں نجوم کے قارئین نے گھاس نہ ڈالی تھی۔ مگر آج پروفیشنل آسٹرولوجر کے لیے پارس پتھر کی طرح قیمتی ہے۔

( مضمون نگار، وسیع النظر محقّق ہیں، جامعہ کراچی سے شماریات، اطلاقی معاشیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قدیم مشرقی و مغربی کتب کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور کسی بھی اردو اخبار کے لیے یہ اُن کی پہلی تحریر ہے)