’’سٹی کالج حیدرآباد‘‘ اس کی تاریخی اور علمی شناخت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا

November 25, 2020

حیدر آباد میں قیام پاکستان کے چند سال بعد تک تعلیمی نظام معطل رہا،لیکن بعد ازاں، آہستہ آہستہ اس نظام کی سانسیں بحال ہونے لگیں۔ برصغیر کے طول وعرض سے آنے والے تعلیم یافتہ افراد کو درس و تدریس کے لئے باقاعدہ بھرتی کیا جانے لگا۔بہتر تعلیم کی فراہمی کیلئے علم دوست شخصیات نے 1951ء کے دوران ایک تنظیم ’’ریناساں ایجوکیشنل سوسائٹی ‘‘قائم کی جس کے بانی اور حیدر آباد کے معروف سی ایس پی آفیسر ایس کے رحیم نے اس دور کے مشہور قانون دان ،دھرم داس کو تنظیم کا سرپرست بنایا۔ دیگر عہدے داروں میں معروف ادیب و شاعر ،براڈ کاسٹر الیاس عشقی اور احمد عبدالقیوم بھی شامل تھے۔ ابتدائی طور پرحیدر آباد کی معروف شاہراہ ’’اسٹیشن روڈ‘‘ پر واقع این ٹی ہوپ فل اسکول کی عمارت میں شام کا پہلا کالج قائم کیا گیا ، جس کا نام ’’سٹی کالج‘‘رکھا گیا۔

اس کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملازمت پیشہ افراد یا محنت کش دن بھر رزق حلال کمانے کے بعد شام کو تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ایس کے رحیم کے اس نظریے کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ دو سال بعد ہی کالج تولا رام بلڈنگ میں منتقل کر دیا گیا،ساتھ ہی اس کا الحاق سندھ یونی ورسٹی جام شورو سے بھی کرا لیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل گورنمنٹ کالج کالی موری (موجودہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) اور شہداد پور کالج کا سندھ یونیورسٹی سے الحاق تھا۔سٹی کالج میں داخلہ ملنےوالے90فیصد طلبا کا تعلق ملازمت پیشہ یا محنت کش طبقے سے تھا، جنہوں نےاپنی تعلیم پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔

یہی وجہ تھی کہ اس کالج کے ابتدائی فارغ التحصیل طلبا مغربی و مشرقی پاکستان کے اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ یہ اس کالج کا درخشاں باب تھا۔ اس کالج سے لا تعداد فارغ التحصیل طلبا نے سیاست ،علم و ادب فن و ثقافت اور مختلف شعبوں میں سٹی کالج کا نام روشن کیا۔ یہ کالج حیدر آباد میں فنون لطیفہ کی ترویج کا بھی موثر ذریعہ ثابت ہوا۔ کالج کے اوپن ایئر آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے کل پاکستان بین الکلیاتی مباحثے بھی ہوتے تھے۔مباحثوں میں پاکستان کے دور دراز علاقوں اور صوبوں کے طلبا شرکت کرنے کواپنےلئے اعزاز تصور کرتے تھے۔

مباحثوں میں سابق کمشنر شفیق الرحمن پراچہ ،ظہور الحسن بھوپالی، سابق صوبائی وزیر دوست محمد فیضی، رضوان صدیقی، محمود صدیقی، طاہر رضوی و دیگر شخصیات ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے۔ یہ مباحثے اردو، سندھی اور انگریزی زبانوں میں کسی وقفے کے بغیر 314دن تک جاری رہتے تھے۔ اس کالج کے تحت منعقدہونے والی کلاسیکل میوزک کانفرنسوںکو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ،جن کی شہرت آج بھی ہے۔اس کے علاوہ تمثیلی مشاعرے اور ’’ملوکن کی مجلس‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔

ملک بھرمیں طلبا یونینوں پر پابندی عائد ہوئی تو اس کے اثرات دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ سٹی کالج پر بھی مرتب ہوئے۔کالج کی طلبا یونین کے انتخابات سیاسی خاندانوں میں بھی منفرد حیثیت رکھتے تھے، وہ معدوم ہو گئے، طلبا کی سرگرمیاں خاموش ہو گئیں، حالانکہ سٹی کالج کی طلبا یونین ہر دور میں فعال رہی ۔

یونین کے تحت طلبا میں سیاسی شعور و بصیرت کو پروان چڑھانے کیلئے باقاعدہ فکری نشستیں منعقد کی جاتی تھیں اور امتحانات کے دنوں میں طلبا کی نصابی تیاری کو خاصی اہمیت دی جاتی تھی۔ معروف تعلیمی ماہر و ادیب پروفیسر مرزا سلیم بیگ نے ہمیں بتایا کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے دور میں تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی اپنائی گئی، اس منصوبے پر باقاعدہ عمل درآمد کیا گیا۔ جس کی بنا پر سرکاری شعبوں سے آنے والے اساتذہ و دیگر عملے نے سٹی آرٹس کالج کی درخشاں روایات ،تعلیمی نظام، علمی وادبی سرگرمیاں، شہرت اور وقار کو غیر محسوس طریقوں و حربوں سے تبدیل کرنا شروع کیا۔،بعد ازاں اس منصوبے سے خود اساتذہ اور متعلقہ عملے کو شدید مالی اور سنیارٹی کی مد میں نقصان اٹھانا پڑا ۔

دوسری جانب چونکہ کبھی اس تاریخی درس گاہ، سٹی کالج کو اس کا درخشاں ماضی لوٹانے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے، شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہوکہ کالج میں اردو زبان بولنے والوں کی کثیر تعدادزیر تعلیم رہی ہے اور آج بھی سابق طالب علم عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کالج سے اپنی والہانہ محبت کے اظہار کیلئے کوشاں رہتے ہیں‘‘۔ کالج کے پرنسپل کی پشت پر لگی تختی پر تعینات ہونے والے پرنسپلز کی ناموں کے مطابق پہلے پرنسپل مرزا عابد عباس تھے۔ دیگر میںپروفیسر عبدالستار شیخ ،پروفیسر سید قوی احمد، پروفیسر عبدالرحیم ڈیتھو،پروفیسر عظیم عبدالکریم عباسی اور پروفیسر انوار احمد زئی سمیت متعدد پروفیسرز پرنسپل رہے۔اب پروفیسر رشید مہر اس قدیم سٹی کالج کے پرنسپل کی حیثیت میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ڈھولن داس تولارام بلڈنگ میں بھائی ہندو دیالہ منڈل سے لے کر سٹی کالج کے قیام اور دور رفتہ کے دوران کالج کے وسیع و عریض اوپن آڈیٹوریم کے خاتمے اور چٹیل میدان بنا کر اس میں جناح لاء کالج، سٹی سائنس کالج، ایس کے رحیم بوائز ہائی اسکول، سیٹھ کمال الدین ہائی اسکول اور سندھ کالج آف کامرس کی کلاسیں مختلف علاقوں سے سٹی کالج کی عمارت اور میدان میںمنتقل کر دی، جن کیلئے سیمنٹ کنکریٹ کی علیحدہ بھی عمارتیں تعمیر کرائی گئیں، جس سے سٹی کالج کی عمارت کا حسن ماند پڑ گیا۔

سٹی کالج اور اس کے احاطے میں قائم دیگر کالجوں اور اسکولوں میں مجموعی طور پر 5ہزار سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔ماضی میں سٹی کالج کے طلبا کو ہر سال’’ کل پاکستان ٹور‘‘کے لئے لے جایا جاتا تھا۔ 6 ؍جولائی 1975 کوایک گروپ تفریح کے لئے بس میں شمالی علاقہ جات کی دلہن مری کی چھانگلہ گلی پہنچا تو بس ایک پہاڑی کا موڑ کاٹنے کے دوران بس گہری کھائی میں جا گری۔ بس میں 60سے زائد طلبا سوار تھے، جن میں سے 46طلبا اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ دیگر شدید زخمی ہوئے۔ حیدر آباد سمیت ملک بھر میں سوگ کا عالم تھا۔

ان شہداء کی یاد میں سٹی کالج کے احاطے میں ایک یادگار تعمیر کرائی گئی اور تمام شہدا کے نام اس پر لکھے گئے۔بعد ازاں 86ء کے بعد عروج پانے والی ایک سیاسی جماعت کے منتخب رکن اسمبلی کے فنڈز سے ہونے والی تزئین و آرائش اورترقیاتی کاموں کے دوران اس یادگار کو مٹا دیا گیا۔اس سانحہ کے بعد کالج میں تفریحی دورے ختم کر دیئے گئے اور وہ سیاسی جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں کی سیاست کا اکھاڑا بن گیاجس کی بنا پر سٹی کالج میں علمی و ادبی سرگرمیوں کے بجائے غیر نصابی سرگرمیوں میں کا رجحان بڑھتا گیا۔ کلاسوں میںسیاست اور شہر میں فکری نشستیں ہونے لگیں۔ کالج کی شناخت تعلیم کی بجائے سیاست میں ہونے لگی۔

سیاست اس قدر بااثر رہی کہ ملحقہ آبادی کے مکینوں نے کالج کے احاطے کی دیواریں توڑ کر دروازے باہر نکال لیے۔ یہ مکین کالج کا وقت ختم ہوتے ہی عمارت اور میدان میں موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی چارپائیاں بچھادیتے تھے اور علی الصباح تک ان کی آزادانہ آمدورفت جاری رہتی تھی۔سٹی کالج کے اطراف میں اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر گارمینٹس ، چوڑی ، لوہے، اشیائے خورونوش کی مجموعی طور پر 16اہم مارکیٹیں ہیں۔

کالج کو چوں کہ ہمیشہ ہی فنڈ کی کمی کا سامنا رہا اس لیے اس کی انتظامیہ نے مطلوبہ ضرورتوں کو مدنظر رکھتے کالج کی اراضی پر 232 دکانیں تعمیر کیں اور انہیں ماہانہ کرائے پر دے دیا۔کہا جاتا ہے کہ کہ ان ٹھیلے اور پتھاروں کو ہٹانا گویا حیدرآباد میں بھونچال لانے کے مترادف ہے اور انتخابات میں ووٹ بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

اس لیے خاموشی ہی کو انتظامیہ اپنی عافیت تصور کرتی ہے، وگرنہ تجاوزات کے خلاف شہر میں جاری مہم کے دوران لاتعداد گھروں، دکانوںاور ٹھکانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیاہے۔ سٹی کالج کے پرنسپل رشید مہر کالج کے مسائل کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’کالج کی تاریخی اور علمی شناخت کو قطعی طورپر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کئی کالج و اسکول قائم ہیں۔

بارشوں کے دنوں میں کالج کے میدان میں پانی بھر جاتا ہے۔ دسمبر 2011 کے دوران رکن قومی اسمبلی نے اپنے فنڈز سے سائنس بی ایس سی بلاک تعمیر کرایا لیکن فرنیچر کے بغیر یہ عمارت ادھوری تھی ،اس لیے کالج کے ذاتی فنڈ سے 5لاکھ روپے مالیت کا فرنیچراور 300 کرسیاں خریدی ہیں۔ اس ضمن میں رکن اسمبلی کو متعدد بار یادد ہانی بھی کرائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کالج میں مزید دو واش روم بنوائے جائیں گے جب کہ پہلے سے موجود واش رومز کی حالت کو بہتر کیا جائے گا۔ تعلیمی معیار مزید بہتر بنانے کے لیے 6 عدد کمپیوٹرز پر مشتمل جدید ڈیجیٹل لائبریری بھی قائم کی جارہی ہے۔

چیف انجینئر ورکس ڈیپارٹمنٹ سے مذاکرات جاری ہیںتاکہ وہ کالج کی نکاسی و فراہمی آب کا نظام درست کرسکیں۔ پہلے سٹی کالج کی دیواروں کوتوڑ کر دروازے نکالے گئے، مگر ان دروازوں کو بند کرکے مکینوں کی آمدورفت ختم کردی تو انہوں نے اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ کالج کے احاطے میں پھینکنا شروع کردیا ہے۔

جہاں تک دکانوں اور پٹرول پمپ کے علاوہ تجاوزات کی بات ہے تو نہ صرف دکانداروں ، پٹرول پمپ کے لیزر اور مقامی انتظامیہ کو متعدد بار لیٹر لکھے گئے ہیں، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ حیدرآباد میں تجاوزات کے خلاف مہم جاری ہے مگر اس کالج کے اطراف قائم ہونے والی تجاوزات کے خاتمے لیے محض خاموشی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی انتظامیہ اور حکومت دکانداروں سے دکانیں اور پٹرول پمپ کی اراضی واگزار کرکے کالج کی تحویل میں دے بلکہ تجاوزات سے بھی پاک کیا جائے، جس سے ٹریفک کی روانی ، پیدل چلنے والوں کے لیے آسانی ہوگی اور کالج کا حسن بھی بحال ہوسکے گا۔