نسلی تعصب اور کرنے کا کام

November 26, 2020

تحریر: محمد صادق کھوکھر۔لیسٹر
​اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی ممالک میں سب سے زیادہ رواداری برطانیہ میں پائی جاتی ہے، یہاں کے حالات دیگر یورپی ممالک کی نسبت زیادہ اچھے ہیں، اس لیے ہر وقت اپنے رب سے امن و سکون اور عافیت کی دعا مانگتے رہنا چاہیے، جب امن و سکون جیسی نعمت میسر ہو تواپنے رب کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ نسل پرستی کی آگ جب کسی معاشرے میں بھٹرک اٹھتی ہے تو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوجاتا ہے، کون نہیں جانتا کہ بوسنیا کے باشندے دوسری اقوام کے ساتھ امن و سلوک سے رہ رہے تھے لیکن شیطان کی ایک چنگاری نے یکایک حالات بدل کر رکھ دئیے صرف ایک دن میں آٹھ ہزار نفوس نسل پرستی کی بھینٹ چڑھ گئےپھر یہ سلسلہ روزمرہ کا معمول بن گیا، مظلوم بوسنیائی عوام کو اپنے دیس میں بھی پناہ نہیں ملتی تھی، وہ بھاگ بھاگ کر قریبی ممالک میں جاتے، پڑوسی ممالک کچھ باشندوں کو قبول کر لیتے کچھ انکار کی بھینٹ چڑھ جاتے، یہ ظلم یورپ میں بیسویں صدی کے آخری ایام میں برپا تھا، ظلمت کی یہ سیاہ رات ایک طویل عرصہ تک محیط رہی، انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیدار یہ سب کچھ دیکھتے رہے، بالآخر جب ظلم کی حد ہو گئی تو صلح کرادی گئی، میانمار کے مسلمانوں کا کیا جرم تھا جن کی بستیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا، یہی نہیں انہیں مار مار کر وہاں سے نکالا، بہت سے لوگ شہید ہو گئے، کئی لوگ بحری جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے قریبی ممالک میں پناہ کے طلب گار ہوئے لیکن انہیں قبول کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا، وہ جس ساحل پر جاتے واپس دھکیل دئیے جاتے، وہ مہینوں سمندروں میں دھکے کھاتے رہے، لیکن روشن خیال اور ’’تہذیب یافتہ انسانوں‘‘ کے سر پر جوں تک بھی نہ رینگی، وہ کئی ماہ چٹاگانگ کے جنگلوں میں خونخوار درندوں کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے کیوں کہ شہروں میں رہنے والے ’’مہذب درندے‘‘ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے طیب ایردوان ان کی مدد کو پہنچے اور ان کی کفالت کا ذمہ لیا، اس طرح بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں وہ کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے، عصبیت کے یہ صرف دو نمونے پیش کیے گئے ہیں ورنہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن ہم ان واقعات سے سبق نہیں سیکھتے، مسلمانوں کی اصل طاقت ان کی دولت نہیں ہوتی، اگر ایسا ہوتا تو اپنے وقت کا سب سے دولت مند ملک کویت پل بھر میں پڑوسی ملک کی جارحیت کا شکار نہ بنتا، ہتھیار اور اسلحے کے ذخیرے بھی اتنی بڑی طاقت نہیں ہوتے، روس اور امریکہ دونوں نحیف طاقتوں کے ہاتھوں رسوا ہو چکے ہیں، مسلمانوں کی اصل طاقت ان کا ایمان ہوتا ہے، ان کا اخلاق و کردار ہوتا ہے، مسلمان جہاں بھی رہتا ہے اپنے رب کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے، اخلاق و کردار کی مضبوطی ہی اس کی اصل طاقت ہوتی ہے، وہ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی سے کوسوں دور رہتا ہے، ایمان داری، سچائی، معاملات میں کھرا پن اور نوعِ انسان سے محبت اس کی پہچان ہوتی ہے، کردار کی یہی بلندی اس کی طاقت بن کر معاشرے پر اثر اندازہوتی ہے جس ہدایت پر وہ خود عمل پیرا ہوتا ہے اس کی دعوت عام باشندوں کو بھی دیتا ہے، قرآن کی دعوت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ یہ ساری انسانیت کے لیے ہدایت ورہنمائی ہے، یہ صرف عربوں یا پاکستانیوں کے لیے نہیں، اس پر اتنا ہی حق دوسرے خطوں میں رہنے والوں کا بھی ہے بلکہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے دوسروں انسانوں تک قرآن کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ڈالی ہے، یہ وہ دولت ہے جو تقسیم ہونے سے کم نہیں ہوتی بلکہ بانٹنے والوں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے، ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نہ خود قرآن پر غور وفکر اور عمل کرتے ہیں نہ دوسرے انسانوں کو اس طرف راغب کرتے ہیں صرف پیدائشی مسلمان ہونے پر ہی فخر کرتے ہیں بلکہ دورِ زوال میں مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی جنم لے چکا ہے جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے پر نادم ہے، یہ حضرات معذرت خواہانہ زندگی بسر کرتے ہیں، یورپ کی نقالی میں سب کچھ کرنے پر آمادہ رہتے ہیں، بوسنیا کے مسلمانوں کی حالت بھی ایسی ہی تھی بلکہ ان کا رنگ اور رہن سہن بھی یورپی تھا، شراب پینا پلانا عام معمول تھا، حتیٰ کہ مسلم خواتین بھی غیر مسلموں سے شادی کرتی تھیں، قرآن سے اتنی دوری تھی کہ زندگی بھر دیکھا تک نہیں تھا، مساجد کے علماء بھی دوسروں کی شادیوں میں مخلوط محوِ رقص ہو جاتے تھے، غیر مسلموں سے نام نہاد رواداری میں وہ بہت آگے بڑھ چکے تھے لیکن یہ سب روشن خیالی ان کے کسی کام نہیں آئی، درحقیقت معذرت خواہی کسی کو متاثر نہیں کرتی یہ صرف ذہنی پستی کو آشکارا کرتی ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں بھی رہیں اس کی فلاح کا سوچیں، اس کی بہتری کو مدِ نظر رکھیں، دنیا اور آخرت کی فلاح ربِ کائنات کے بتائے ہوئے نظام میں ہے، اسی کی رضا کو مقصود و مطلوب بنائیں، رب کا پیغام اعتماد اور یقین سے اس کے بندوں تک پہنچانا مسلمانوں کا اولین فرض ہے یہی وہ لازوال دولت ہے جس کی دنیا طلب گارہے، یہی نظریہ حیات دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکتا ہے، سلامتی کی راہ اور ترقی کا یہی زینہ ہے، اسی قوت نے پہلے بھی مسلمانوں کو سربلند کیا تھا اور مستقبل بھی اسی سے انشاء اللہ تابناک ہو گا۔ دنیا آج بھی امن و سکون کی متلاشی ہے، امن کی کنجی ہمارے پاس ہے لیکن ہم غفلت کا شکار ہیں، یہ کیسی بد بختی ہے کہ اصلی دولت ہمارے پاس ہے اور ہم اسے دوسروں سے مانگ رہے ہیں، ضرورت صرف خود شناسی اور فرض شناسی کی ہے، غفلت کے پردے چاک کرنے کی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔