حکومتی پابندی: پی ڈی ایم ملتان کا جلسہ کر پائے گی؟

November 26, 2020

ایک طرف ملتان کورونا کیسوں کی شرح کے لحاظ سے ملک بھر میں سب سے آگے جا رہا ہے، تو دوسری جانب اپوزیشن کا30 نومبر کو ہونے والاجلسہ ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ اس صورتحال میںکیا اپوزیشن کو جلسہ کرنا چاہیے ؟ یا حکومت کی یہ بات مان لینی چاہیے کہ ایسے حالات میں جب کورونا کا پھیلاؤ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا ہے یہ جلسہ منسوخ کر دیا جائے، مگر اس وقت اپوزیشن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ اپنے طے شدہ شیڈول کو ختم کرے ، بلکہ جتنا حکومت انہیں منع کر رہی ہےاتنا ہی زوردار طریقہ سے پی ڈی ایم کے رہنما جلسوں کے طے شدہ شیڈول کے مطابق انعقاد پر زور دے رہے ہیں۔

پشاور کے جلسے میں اگرچہ عوام کی شرکت اپوزیشن کی توقع کے مطابق رہی، حالانکہ صوبائی حکومت نے بہت زور لگایا کہ عوام کو کورونا کے خطرے سے ڈرا کر جلسے میںشرکت سے روکا جاسکے ،مگر اپوزیشن کے حامیوں نے ایک نہ سنی اور جوق در جوق جلسے میں پہنچ گئے، البتہ جلسے میں جوش و خروش کا رنگ اس وقت پھیکا پڑ گیا، جب مریم نواز کی سٹیج پر موجود گی کے دوران یہ خبر پہنچی کہ لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ شمیم اختر کا انتقال ہوگیا ہے۔

مریم نواز نے یہ خبر بڑے حوصلے و تحمل سے سنی اور سٹیج پر بیٹھی رہیں،البتہ جب بلاول بھٹو زرداری تقریر کر رہے تھے، تو انہوں نے چند کلمات کہنے کی اجازت مانگی، جب وہ عوام سے خطاب کرنے لگیں تو فرط غم سے ان کی آواز رندھ گئی اور انہوں نے کہا کہ وہ آج تقریر نہیں کرسکیںگی ، کیونکہ دادی کی وفات کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں ہیں ،وہ مختصر خطاب کر کے جلسہ گاہ سے رخصت ہوئیں ،تو بلاول بھٹو زرداری نے دوبارہ اپنا خطاب جاری رکھا ،تاہم جلسہ میںایک سوگ کی کیفیت طاری رہی ،اب امکان یہ ہے کہ مریم نواز شریف ملتان کے جلسہ میں بھرپور خطاب کریں گی ،یہ بھی اس وقت ممکن ہے کہ جب ان کی دادی کا جسد خاکی جلد پاکستان پہنچ جائے اور جلسے سے پہلے ان کی تدفین ہو جائے۔

ملتان میں اس جلسہ کی تیاریوں کے لیے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور دیگر رہنما سرگرم ہیں ،کارنر میٹنگز، ورکرز کنونشن اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، سرائیکی تنظیموں کے عہدیداروں سے بھی مسلسل رابطے کئے جارہے ہیں اور ساتھ ہی انہیں یقین دہانی بھی کرائی جارہی ہےکہ اس بڑے جلسے میں وہ باقاعدہ طور پر جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کاکیس پیش کریں گے، جس کی تمام سیاسی جماعتیں تائید اور حمایت کریں گی، اس طرح یہ جلسہ ایک تاریخی موڑ اختیار کر جائے گا، ان دعووں کا کیا اثر ہوتا ہے اور ان پیشکشوں پر قوم پرست تنظیموں کے عہدے دار کیا ردعمل ظاہرکرتے ہیں،اس کا فیصلہ تو 30نومبر کے جلسے کو دیکھ کر ہی ہوگا۔

تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہی یوسف رضا گیلانی اور دیگر لیڈ ر ہیں جو اپنے دور اقتدار کے دنوں میں کچھ اسی قسم کے وعدے کرتے رہے ہیں ،لیکن ان کی تکمیل کی نوبت نہیں آئی، ادھر مسلم لیگ ن بھی اس جلسے کے بارے میں خاصی سنجیدہ ہے اور اس کی صوبائی قیادت بھی یہاں کے دورے کر چکی ہے، جنوبی پنجاب بھر میں اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے ان سیاسی جماعتوں کے عہدے دار سرگرم ہیں جمیعت علماء اسلام، جمعیت اہل حدیث کی طرف سے بھی رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، لگتا یہی ہے کہ ملتان کے اس جلسہ کو پی ڈی ایم ہر قیمت پر تاریخی جلسہ بنانا چاہتی ہے، اب دوسری طرف حکومت سوائے کورونا کی آڑ لیکر اس جلسہ کو ناکام بنانے کے، اور کوئی قدم اٹھانے سے قاصر نظر آتی ہے،پشاور کی طرح ملتان کے جلسہ کی بھی اجازت نہیں دی گئی ،تاہم پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ انہیں ان جلسوں کے لئےروایتی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کام صرف اطلاع دینا ہے جو وہ اپنے شیڈول اور انتظامیہ کو دی گئی درخواست کے ذریعے پہلے ہی دے چکے ہیں، ملتان کا جلسہ قلعہ کہنہ قاسم باغ میں منعقد کیا جارہا ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خلاف چلنے والی تحریک کا جلسہ ناکام بنانے کے لیے، جلسہ سے ایک رات پہلےمبینہ طور پر پانی چھوڑنے کا حکم دیا تھا ،کیا اس بار بھی انتظامیہ اس جلسہ کو روکنے کے لیے کوئی ایسا حربہ استعمال کر سکتی ہے ؟شاید ایسا ممکن نہیں ۔کیونکہ اس صورت میں جلسہ گاہ کا مرکز گھنٹہ گھر بن جائے گا،جو کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کی نسبت انتظامیہ کے لیے زیادہ سردردی کا باعث بن سکتا ہے، ملتان کے جلسہ کے لئے پیپلز پارٹی میں اس لئے بھی ایک خاص جوش و خروش پایا جاتا ہے کہ یہ جلسہ اس کے یوم تاسیس پر منعقد ہورہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے عہدے داران اور ان کی طرف سے لگائے گئے بعض بینرز پر بھی یہی درج ہے کہ 30 نومبر کو پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس قلعہ کہنہ قاسم باغ میں جوش و جذبے سے منایا جائے گا، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی میں اکیلے اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ ملتان میں کوئی بڑا جلسہ کر سکے، اس لیے پی ڈی ایم کے جلسہ کو ہی یوم تاسیس کے جلسے کا رنگ دیا جارہا ہے،یعنی پیپلزپارٹی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہ رہی ہے اور اس کے لئے سید یوسف رضا گیلانی بڑی مہارت کے ساتھ جلسہ کی کامیابی کے لیے مہم چلائے ہوئے ہیں۔

ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ملتان میں زیادہ وقت گزار رہے ہیں اور انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں موٹرسائیکل پر گھومنے اور لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، پی ٹی آئی کارکنوں کا کہنا ہے کہ صرف اپنے حلقہ انتخاب پر توجہ دے کر شاہ محمودقریشی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ پارٹی کے وائس چیئرمین ہونے کے باوجود صرف ایک حلقہ تک محدود ہیں اور انہیں اس بات کا بھی کوئی خیال نہیں کہ ان کی اس پالیسی کی وجہ سے ملتان میں تحریک انصاف اپنی مقبولیت کے گراف کو بڑی تیزی سے زمین بوس کر رہی ہے۔