غوث پاکؒ کے فکر و فلسفے کی بنیاد

November 27, 2020

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

اولیائے کرامؒ کی زندگی اور ان کے ’’پندونصائح‘‘ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔اللہ کے ان مقرب بندوں کاعمل احکام الٰہی اور تعلیمات محمدیﷺ کے مطابق ہوتا ہے،ان اولیائے حق کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات اسلامی تعلیمات کا سبق ہوتے ہیں۔اب یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اولیائے عظامؒ کے اقوال وتعلیمات کو پڑھتے ہیں،مگر ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ ہمیں بزرگان دین کے اقوال وتعلیمات کو سمجھنے اور ان پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ انہی برگزیدہ ہستیوں میں محبوب سبحانی، سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ممتاز مقام پر فائز اورسرفہرست ہیں، جنہیں دنیا آج قطب وقت، سلطانِ طریقت اور غوث الاعظمؒ کی حیثیت سے جانتی اور مانتی ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا وجود اسلام کا ایک زندہ معجزہ تھا۔

یہ تاریخ اسلام کی ایک روشن حقیقت ہے کہ محبوب سبحانی سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جس دور میں اصلاحِ معاشرہ اوردعوتِ دین کا فریضہ لے کر اٹھے،وہ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش اوراسلام کے لیے بڑی ابتلاء کا زمانہ تھا ۔

حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ 25 سال تک مجاہدات میں مصروف رہے،اس لیے اس عرصے کے دوران آپ وعظ سے علیحدہ رہے، مگر جوںہی آپ ہر لحاظ سے علوم ظاہری و باطنی میں کامل ہوگئے تو آپ کو حکم دیا گیا کہ مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوں،اس حکم کا واقعہ یوں ہے۔حضرت شیخ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ تشریف لائے اورآپ ﷺ فرمارہے ہیں۔اے عبدالقادر،تم راہِ حق بتانے کے لیے وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے؟تاکہ لوگ گم راہی سے بچیں۔اس کے جواب میں آپ نے سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں التجا کی۔یارسول اللہ ﷺ میں ایک عجمی ہوں۔عرب کے فصحاء کے سامنے لب کشائی کیسے کروں؟

اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو،تو آپ نے تعمیل ارشاد فرماتے ہوئے منہ کھولا۔سرور کائنات ﷺ نے اپنا لعاب دہن آپ کے منہ میں ڈال دیا۔ اس طرح سرکار دو عالم ﷺ نے سات مرتبہ آپ کے منہ میں اپنا لعاب لگایا اور بعدازاں حکم دیا کہ اب جائو، وعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دو۔آپ کے سوانح نگاروں نے بعض کتب میں یوں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ ہاتف غیبی سے اشارہ ہوا کہ اے عبدالقادر جیلانیؒ! بغداد میں داخل ہوکر لوگوں میں وعظ کرو۔ چناںچہ جب میں نے بغداد واپسی کے بعد لوگوں کو پہلی ہی جیسی حالت پر پایا،تو پھر واپسی کا قصد کرلیا، لیکن ہاتف غیبی نے مجھ سے دوبارہ کہا ۔اے عبدالقادر، بغداد میں لوگوں کو نصیحت کرو۔ کیوں کہ تمہاری ذات سے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچنے والا ہے۔

آپ فرماتے تھے کہ لوگوں کے دلوں پر میل جم گیا ہے، جب تک اسے زور سے رگڑا نہیں جائے گا، وہ دور نہ ہوگا۔ میری سخت کلامی انشاء اللہ ان کے لیے آب حیات ثابت ہوگی۔ ایک دفعہ اپنے وعظ کے متعلق آپ نے فرمایا کہ میرا منبر وعظ پر بیٹھنا تمہارے قلوب کی اصلاح و تطہیر کے لیے ہے، نہ کہ الفاظ کے الٹ پھیر اور تقریر کی خوش نمائی کے لیے ۔ میری سخت کلامی سے مت بھاگو، کیوں کہ میری تربیت اس نے کی ہے،جو دین خدا وندی میں سخت تھا ۔میری تقریر بھی سخت ہے اور کھانا بھی سخت اور روکھا سوکھا ہے،پس جو مجھ سے اور میرے جیسے لوگوں سے بھاگا، اسے فلاح نصیب نہیں ہوئی ۔جن باتوں کا تعلق دین سے ہے ان کے متعلق جب تو بے ادب ہے تو میں تجھے چھوڑوں گا نہیں اور نہ یہ کہوں گا کہ اسے کیے جا۔ تو میرے پاس آئے یا نہ آئے، پروا نہ کروں گا۔

آپ کو پیدائشی ولی کہا گیا ہے۔اس حقیقت کے نشانات بھی آپ کے مواعظ میں تابندہ ہیں۔ اس ضمن میں آپ کا ارشاد ہے:میں بچپن میں اپنے وطن میں ایک آواز سنا کرتا تھا۔’’یَامُبارَکُ، یَامُبارَکُ۔‘‘ پس میں اس آواز سے ڈر کر بھاگا کرتا تھا کہ آواز دینے والا نظر نہیں آتا۔نیز خلوت میں بھی مجھے سنائی دیا کرتا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے،’’میں تمہیں اچھے حال پر پارہا ہوں۔‘‘

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تصوف کے مشہور سلسلے سلسلۂ قادریہ کے بانی شمار ہوتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں اس سلسلے سے وابستہ بزرگانِ دین نے اسلام کی تبلیغ واشاعت اور معاشرے کی اصلاح میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔اس کے ہمہ جہت اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔آپ کو یہ فیضان عطا ہوا،اپنے والدین کے زیرِ سایہ،جو حسنی اور حسینی سیدتھے۔ ان کے متعلق آپ نے دورانِ وعظ فرمایا:’’میرے والد دنیا سے بے رغبت تھے۔باوجود یہ کہ اس کے حاصل کرنے پر انہیں قدرت تھی۔ میری والدہ اس زہد میں ان کے موافق اور ان کے اس فعل پر راضی تھیں۔ وہ دونوں نیکوکار، دین دار اور مخلوق خدا پر شفیق تھے۔‘‘

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے حبیب ﷺ کا قرب ملا تو وہ مقامِ رفعت بھی عطا ہوا،جہاں سے آپ نے فرمایا:’’اپنے دین کی پوشاک حضرت محمدﷺ سے مانگو،میری اتباع کرو کہ میں رسول اللہﷺ کے طریقے پر ہوں۔ میں آپ ﷺکا تابع ہوں، کھانے میں بھی پینے میں بھی۔آپ ﷺکے جملہ احوال اور اُن اُمور میں جن کی طرف آپ ﷺاشارہ فرمایا کرتے تھے۔میں ہمیشہ اسی طرح تمہیںراہِ حق کی طرف بلاتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ کو جو کچھ میرے وجود سے مقصود ہے،وہ پورا ہوجائے۔

لوگوں نے آپ سے عرض کی کہ ہم آپ جیسے روزے رکھتے ہیں اور آپ جیسی نمازیں پڑھتے،آپ جیسی ریاضت کرتے ہیں،لیکن آپ جیسے حالات بالکل ہم نہیںدیکھ پاتے،تب فرمایا،تم نے (ظاہری ) اعمال میں تو میری پیروی کی ہے،کیا خدا کی نعمتوں میں مزاحمت کر سکتے ہیں؟واللہ میں کبھی نہیں کھاتا، یہاں تک کہ مجھے کہا جا تا ہے کہ تمہیں میرے حق کی قسم ہے،کھاؤاور میں کبھی پانی نہیں پیتا، یہاںتک کہ مجھ سے کہا جا تا ہے کہ تمہیں میرے حق کی قسم ہے،پیو اور میں کوئی کام نہیں کرتا،یہاں تک کہ مجھے کہا جا تا ہے کہ یہ کا م کرو۔(بہجۃ الاسرار)

حضرت شیخ امام موفق ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ اُن میں سے ہیں کہ جنہیں وہاں پر علم، عمل اور فتویٰ نویسی کی مہارت دی گئی ہے ، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لیے نہیں کرتا تھا کہ آپ میں تمام علوم جمع ہیں ،آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے ، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرمادیئے تھے۔(بہجۃ الاسرار)

امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی ؒ، شیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلویؒ اور علامہ محمد بن یحییٰ حلبی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے‘‘۔ایک جگہ علامہ شعرانی ؒ فرماتے ہیں کہ’’حضورِ غوث پاک ؒ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر،حدیث،فقہ اور علم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کو تفسیر، حدیث،فقہ، کلام ،اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے‘‘۔

ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو…!

سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اور اس طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔(بھجۃ الاسرار)