’’ غوثُ الاعظمؒ ‘‘ جہانِ تصوف کا روشن ستارہ

November 27, 2020

مفتی احمد میاں برکاتی

سیّد الاولیاءحضرت شیخ سیدنا عبد القادر جیلانیؒ جنہیں ’’غوث اعظم‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، آپ سنی حنبلی طریقہ کے نہایت اہم صوفی بزرگ ، شیخ اور سلسلہ قادریہ کے بانی ہیں۔آپ کا نام سید عبدالقادر جیلانی ، کنیت ابو محمد، جب کہ محی الدین،غوثِ اعظم،پیرانِ پیر دستگیر، غوث الثقلین اور محبوب سبحانی وغیرہ القاب سے مشہور ہیں۔والد کا اسم ِمبارک ابوصالح موسیٰ جنگی دوست، جب کہ والدہ ماجدہ کانام ام الخیر فاطمہ ہے۔آپ یکم رمضان بروز جمعہ 470ھ کو ایران کے شہر جیلان میں پیدا ہوئے۔ مادر زاد ولی ،نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں۔ والدکی طرف سے سلسلۂ نسب امام حسن رضی اللہ عنہ جب کہ والدہ کی طرف سے امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔سیدنا جنید بغدادی،امام حسن عسکری اور حسن بصری علیہم الرحمہ جیسے جلیل القدر اولیائے کرام نے آپ کی ولادت کی کئی سو سال قبل ہی پیش گوئی فرمائی، جو ہُوبہو درست ثابت ہوئی۔چالیس سال وعظ و نصیحت فرمائی جس سے ایک خلقِ خدا کفر و معصیت سے تائب ہوکر آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئی۔

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکاتعلق حضرت جنید بغدادیؒ کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمات و افکارکی وجہ سے آپ کو مسلم دنیا میں غوثِ اعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا ۔آپ کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

حضرت شیخ عقیل سنجی سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں؟ فرمایا، اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے۔ سوائے اولیاء اللہ کے اْسے کوئی نہیں جانتا۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جان لے گا اور وہ فرمائے گا کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

سالک السالکین میں ہے کہ جب سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒکو مرتبۂ غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے: میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

منادئ غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ نے گردنیں جھکا دیں۔( بھجۃ الاسرار)

تمام علماء و اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒمادرزاد یعنی پیدائشی ولی ہیں۔ آپ کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ آپ ماہِ رمضان المبارک میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک دودھ نہیں پیتے تھےاور یہ بات گیلان میں بہت مشہور تھی کہ ’’سادات کے گھر انے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دن بھر دودھ نہیں پیتا‘‘۔

بچپن میں عام طور سے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں، لیکن آپ بچپن ہی سے لہو و لہب سے دور رہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ’’جب بھی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں سنتا تھا کہ کوئی کہنے والا مجھ سے کہتا، اے برکت والے، میری طرف آ جا‘‘۔

ایک مرتبہ بعض لوگوں نے سید عبدالقادر جیلانی ؒ سے پوچھا کہ آپ کو ولایت کا علم کب ہوا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دس برس کی عمر میں جب میں مکتب میں پڑھنے کے لئے جاتا تو ایک غیبی آواز آیا کرتی تھی جسے تمام اہلِ مکتب بھی سنا کرتے ’’اللہ کے ولی کے لئے جگہ کشادہ کر دو‘‘۔

کسی نے غوث ِ اعظم علیہ الرحمہ سے پوچھا کہ آپ کے محی الدین نام کا کیا سبب ہے؟تو فرمایا511ھ کو جب کہ میں پاپیادہ عازم حج تھا،میرا گزر ایک بیمار پر ہوا ،جس کا رنگ متغیر تھا، اس نے مجھے دیکھ کر کہا:السلام علیکم یا عبدالقادر، میں نے سلام کا جواب دیا ۔اس نے کہا: آپ مجھے بٹھادیں۔میں نے اسے بٹھادیا ۔تب اس کا بدن بڑھنے لگا اور اس کی صورت (بھی) اچھی ہوگئی اور اس کا رنگ بھی صاف ہوگیا، میں اس سے ڈرا تو وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا،نہیں ۔تو وہ بولا، میں دین ہوں، میں خستہ حال ہوگیاتھا، جیسا کہ آپ نے مجھے دیکھا، بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے سبب زندہ کردیا اور آپ محی الدین ہیں ۔(بہجۃ الاسرار)

آپ کے والد کے انتقال کے بعد ،آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے نانا نے کی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی ؒتحصیل ِ علم کے لئے بغداد تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی، علم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیرکے لئے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے۔تحصیل ِ علم کے بعدآپ نے بغدادشہر کو چھوڑا اور عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک عبادت و ریاضت کی۔دوبارہ بغداد میں سکونت اختیار کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت و نیک نامی بغداد اور پھر دور دور تک پھیل گئی۔چالیس برس تک آپ نے اسلام کی تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا۔ نتیجتاً ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سلسلہ تبلیغ کو مزید وسیع کرنے کے لئے دور دراز وفود کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ خود سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے تبلیغ اسلام کے لئے دور دراز کے سفر کئے اور برِصغیر تک تشریف لے گئے۔

آپ نے فرمایا: ’’اے انسان! اگر تجھے مہد سے لحد تک زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسالے تو رب تعالیٰ کی عزت و جلال کی قسم، یہ ممکن نہیں، اس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت و صحبت میسر نہ آئے‘‘۔

حلیۂ مبارک کی تفصیل کچھ یوںہے کہ جسم نحیف،قد درمیانہ،رنگت گندمی،آواز بلند، سینہ کشادہ،چہرہ انتہائی خوب صورت،سر بڑا ،بھوئیں ملی ہوئی، جب کہ ریش مبارک لمبی اورگھنی تھی۔آپ نےچار نکاح کیے، جن سے کثیر اولاد متولد ہوئی۔چند بیٹوں کے نام یہ ہیں۔شیخ عبدالوہاب،شیخ عبدالرزاق،شیخ عیسیٰ،شیخ ابراہیم،شیخ عبدالعزیز،شیخ عبدالجبار،شیخ یحییٰ،شیخ ابو محمد،شیخ عبداللہ۔

آپ کی تصانیف میں فتوح الغیب، غنیۃ الطالبین، سرالاسرار،درودِ کبریتِ احمر،رسالہ غوثِ اعظم،فتح ربانی(خطبات کا مجموعہ )مکتوباتِ محبوبِ سبحانی،جلاء الخواطر اور قصیدہ غوثیہ زیادہ مشہور ہیں۔

91 سال کی عمر میں11 ربیع الثانی 561ھ کو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک بغداد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے،جہاں ہر سال عرس کے موقع پر دنیا بھر سے عقیدت مند بڑی تعداد میںشرکت کرتے ہیں۔

حکمت بھری باتیں…!

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا:٭…اگر برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے تو یہ دنیا خوں خوار درندوں کا گھر بن جائے۔٭…جو اللہ سے واقف ہوجاتاہے، وہ مخلوق کے سامنے متواضع (جھکنے والا) ہوجا تا ہے۔٭…جس کا انجام موت ہے،اس کے لیے (بھلا) کون سی خوشی ہے۔٭…شکستہ قبروں پر غور کرو کہ کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے۔٭…جو شخص شریعت کے( بیان کردہ) آداب سے ادب نہ سیکھے،اسے قیامت کے دن آگ ادب سکھائے گی۔٭…ہر وہ شخص جو اللہ کے حکم کی عظمت کوملحوظ نہ رکھے اور مخلوق پر شفقت نہ کرے، وہ اللہ سے دور ہے۔٭…اس شخص سے جس نے اللہ کی عبادت بغیر علم حاصل کیا (اس سے ) علیحدہ ہوجاؤکہ اس کا بگاڑنا سنوارنے سے زیادہ ہوگا۔٭… اللہ والے اللہ کی عبادت کرتے ہیں،پھر بھی خوف زدہ رہتے ہیں،جب کہ تم گناہ کرتے ہو، پھر بھی بے خوف ہو،یہ کھلا دھوکا اور فریب ہے،بچو، بچو، کہیں اللہ تمہاری گرفت نہ فرمائے۔٭…جو اپنے نفس کا اچھی طرح معلّم نہ ہو، وہ بھلا دوسروں کا معلّم کیسے ہو سکتا ہے؟