بچے اور اسکرین ٹائم کا مؤثر استعمال

November 29, 2020

رولڈ ڈاہل کی 1964ء میں شائع ہونے والی کتاب ’چارلی اینڈ دی چاکلیٹ فیکٹری‘ میں لکھا ہے،’’خدارا، خدارا، ہم ہاتھ جوڑتے ہیں، جاؤ اپنے ٹی وی پھینک آؤ اور ان کی جگہ آپ اسی دیوار پر خوبصورت کتابوں کی الماری نصب کر لو‘‘۔

چاہے بڑے ہوں یا بچے، یہ بات ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جب آپ اسکرین استعمال کرنے لگتے ہیں تو آپ کو اس کی بہت جلد ایسی عادت ہوجاتی ہے کہ اس سے دور رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجاتا ہے۔ بچوں کے معاملے میں یہ عادت اس لیے اور بھی زیادہ سنگین ہوجاتی ہے کہ اس کے باعث بچوں کے ذہنوں میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں، جن کے بارے میں ہم آہستہ آہستہ جان رہے ہیں۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کے اثرات صرف بُرے ہی ہیں لیکن یہ اچھے بھی نہیں ہیں۔ تاہم اس بات کا ادراک ہونا بھی اہم ہے کہ اسکرینز کو کس طرح مفید انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور کس وقت ان کا استعمال ترک کرکے اس کے مثبت اثرات سے بچوں کو کس طرح مستفید کیا جاسکتا ہے۔

عالمی شہرت یافتہ مفکر افلاطون نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ شاعری اور ڈرامہ نوجوان ذہنوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اسی نوعیت کی پریشانی ان والدین کو بھی ہوئی جن کے گھروں میں شروعات سے ہی ٹیلی ویژن نے ایک لازمی حیثیت حاصل کی۔ والدین اس دوران بھی بچوں کو ٹیلی ویژن کا عادی ہونے اور اس کی وجہ سے آنکھوں کے متاثر ہونے کے حوالے سے خبردار کرتے تھے۔

ایک طرف جہاں کتب بینی سے بچوں کی علمی قابلیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں ہمیں اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں ہر جانب اسکرینز موجود ہیں۔ مختلف مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچے جن کی عمر دو سال سے کم ہے وہ دن میں تین گھنٹے اسکرینز کے سامنے گزارتے ہیں۔

یہ دورانیہ پچھلے 20 سال میں دُگنا ہوا ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق اسکول جانے کی عمر والے بچوں میں 49 فیصد کا دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین دیکھنے کا دورانیہ رہا اور 16 فیصد کا چارگھنٹے سے زائد۔

اسکرین ٹائم بڑھنے سے بچوں کی جسمانی سرگرمیاں کم ہوجاتی ہیں، ورزش میں کمی آتی ہے، وزن بڑھتا ہے اور خاندان کے ساتھ اکھٹا کھانا کھانے کے کم مواقع میسر آتے ہیں۔ اس کے باعث بچوں کو بڑی عمر میں نیند کی کمی جیسے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق وہ بچے جن کے کمرے میں ٹی وی موجود ہے، وہ ہر روز 31 منٹ کم سوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو ٹیلی ویژن بالکل نہیں دیکھنا چاہیے۔

تاہم بچوں کو ٹیلی ویژن سے اس وقت متعارف کرانا چاہیے جب ان کی عمر کم از کم دو سال ہوجائے اور انھیں صرف چند معلوماتی پروگرامز دیکھنے کے لیے پیش کیے جائیں۔ ٹی وی شو ’’سیسیم اسٹریٹ‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ تحقیق کے مطابق ٹی وی پر چلنے والے معلوماتی مواد کی مدد سے تین سے پانچ برس کے بچوں کے روّیوں، خواندگی اور علمی مہارت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

ٹیمپل یونیورسٹی، فلاڈیلفیا میں نوزائیدہ بچوں کی زبان کی لیبارٹری کی کیتھی ہیرش پاسیک کا کہنا ہے کہ 'اگر یہ معلوماتی پروگرامز ہیں اور انھیں ٹی وی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تو ان کے بچوں پر منفی اثرات نہیں ہو سکتے ہیں بلکہ اس کے باعث غریب بچوں کی بھی مدد کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر آپ رات کا خبرنامہ یا کوئی پُرتشدد پروگرامز دیکھ رہے ہیں جو ہمارے ٹیلی ویژن پر ہر وقت نظر آتے ہیں تو یہ بچوں کے لیے بہت بُرا ہے۔ یہ باتیں میڈیا کی دیگر شکلوں کے حوالے سے بھی کہی جاسکتی ہے۔

جب آپ اسکرین پر اور اسکرین آپ پر اثر انداز ہو رہی ہو، جیسے ویڈیو کالز کے دوران، دور پرے سے کہانیاں سنانا یا ایسے شوز دیکھنا جن کے دوران ہم اپنے بچوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہوں ہمارے لیے انتہائی مفید ثابت ہو سکتے ہیں، انھیں ہم انٹرایکٹو میڈیا کا نام دے سکتے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ٹیلی ویژن کے استعمال کا تعلق تخلیقی سوچ میں کمی سے بھی ہے۔

اسی تناظر میں ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اسکرین کے سامنے گزارا گیا وقت اسکول جانے والے بچوں کی 'دماغی منظر کشی کی صلاحیتوں میں کمی لاتا ہے۔ دماغی منظر کشی سے مراد یہ ہے کہ ہم دنیا میں لوگوں، جگہوں اور واقعات کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں انسانوں کی ایک عام عادت ہے جس کے ذریعے کسی بھی جگہ پر عدم موجودگی کے باوجود وہ دنیا میں ہونے واقعات کی دماغی منظر کشی کرتے ہیں۔

زیادہ اور غیر موزوں اسکرین ٹائم کے باعث تخلیقی سوچ میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ اسکرین ہمارا کام کر دیتی ہے۔ اسکرینز ہماری آنکھوں کے سامنے اور کانوں تک معلومات لے آتی ہیں لیکن ہمارے دیگر حواس پر اثر انداز نہیں ہوتی جیسے محسوس کرنے، چھونے یا توازن برقرار رکھنے کی حِس۔ اچھی خبر یہ ہے کہ والدین کے لیے اب بھی یہ انتہائی آسان ہے کہ وہ بچوں کی دماغی منظر کشی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ان کا اسکرین ٹائم بھی کم کریں۔

والدین کو صرف یہ کرنا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کو کھیلنے کی اجازت دینی ہے کیونکہ تخلیقی کھیلوں کی بنیاد ہی دماغی منظر کشی ہے۔ جتنا زیادہ بچوں کو کھیلوں میں لگایا جائے گا، اتنا زیادہ ان کے خیالات میں پختگی آئے گی۔ بچے جتنا زیادہ وقت اسکرینز کے سامنے گزار رہے ہیں، اتنا ہی کم وقت باہر جسمانی سرگرمیوںمیںگزارتے ہیں۔