گلگت بلتستان کی دیدہ زیب قدیم عمارتیں

November 29, 2020

قراقرم کے پہاڑوں میں کئی غیرمعمولی تاریخی عمارتیں موجود ہیں جبکہ کئی داستانوں تک محدود رہ گئی ہیں۔ بچ جانے والی عمارتیں نہ صرف تاریخی ورثہ ہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ ان کی تعمیر میں اعلیٰ تعمیراتی مواد کا استعمال کرتے ہوئے عمدہ تعمیراتی تفصیلات اور بیرونی تبدیلیوںکے کم سے کم اثر پر توجہ مرکوز کی گئی۔

گلگت بلتستان کی تاریخی عمارتوں میں بہت سارے پرانے قلعے شامل تھے، جن کی نمائندگی اب باقی رہ جانے والے التت، بلتت، شگر اور کھرفوچو قلعوں، خپلو پیلس، چقچن مسجد اور وادی گنیش سے ہوتی ہے۔ ان تمام روایتی عمارتوں میں تعمیراتی مواد کے طور پر پتھر، مٹی اور لکڑی کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔

قلعہ کھرفوچو

گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں واقع کھرفوچو قلعے کو 16ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کھر ڈونگ نامی پہاڑی کی چوٹی پر تعمیر کیا جانے والے یہ قلعہ اسکردو کی مرکزی مارکیٹ یادگار چوک سے آدھے گھنٹے کی مسافت (چند کلو میٹر) پر ہے۔ یہ قلعہ قدیم فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے، جہاںسے اسکردو کا نظارہ ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت لگتا ہے۔ اپنے فن تعمیر، دشوار گزار رستوں اور حیرت کدوں کی وجہ سے اسے قلعوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس طلسماتی قلعے کے صدر دروازے (جو کبھی سنگے ستاغو کہلاتا تھا) کے ساتھ والی دیوار پر انگریزی زبان میں ’’KHARPHOCHO‘‘ لکھا گیا ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق قلعے کے درمیان ایک سات منزلہ محل تعمیر کیا گیا تھا، جس کے سامنے پانی کا حوض تھا۔

خوراک ذخیرہ کرنے اور اسلحہ رکھنے کے لئے پہاڑ کاٹ کر کمرے بنائے گئے تھے۔ اس میں ایک عالیشان مسجد، سپاہیوں کے رہنے کے لیے بیرکیں اور زندان بھی موجود تھے۔ محل میں چوبی کام دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جبکہ مختلف اقسام کے سنگِ مرمر کا استعمال اس قرینے سے کیا گیا تھا کہ دیکھنے والے حیرت میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ مختلف ادوار میں حکمرانوں نے قلعے کو توسیع دی اور اسے مضبوط بنایا۔ کسی زمانے میں یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا۔ تاہم، 1840ء میں ڈوگرہ افواج کے حملے کے بعد قلعے میں گھمسان کی جنگ ہوئی اور پھر اسے آگ لگا دی گئی۔

قلعہ شگر

قلعہ شگر یعنی چٹان والا قلعہ وادی شگر میں واقع ایک قدیم قلعہ ہے، جس کی تعمیر شگر پر 33نسلوں تک حکمرانی کرنے والے اماچہ خاندان (مقامی راجا خاندان) نے 17ویں صدی میں کروائی تھی۔ خوبصورت باغات سے گھرا ہوا قلعہ شگر کشمیری اور بلتی طرزِتعمیر کا بے مثال نمونہ ہے۔ لکڑی اور پتھر سے تعمیر کیے گئے اس قلعے کے کمروں، بڑے بڑے پتھروں، پرانے زمانے کے برتنوں اور صندوقوں کو دیکھنا سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ قدرتی حسن اور طرز تعمیر کے شاہکار اس قلعے کے اندر ایک خوبصورت مسجد، باغ اور بارہ دری موجود ہے جبکہ عقب میں بہتا دریائے شگر اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ 1999ء اور 2004ء میں اس کی بحالی کا کام کیا گیا۔

خپلو پیلس

وادی خپلو گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے کا صدر مقام ہے، جو اسکردو سے 103کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ یہاں 200سال پرناخپلو قلعہ موجود ہے جو تبتی اور ایرانی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ 1840ء میں بنایا جانے والا یہ تعمیراتی ورثہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اسے خپلو کے راجا کی شاہی رہائش گاہ کی حیثیت حاصل تھی۔

اس کی تعمیر میں کشمیری اور بلتی کاریگروں نے حصہ لیا۔ متعدد خطوں کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے اس محل کی ساخت میں تبتی، کشمیری، لداخی، بلتی اور وسطی ایشیائی اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ تین منزلہ خپلو پیلس کی تزئین نو 2005ء میں شروع کی گئی اور 2011ء میں تمام کام مکمل ہوا۔

مسجدچقچن

مسجد چقچن، خپلو میں واقع ایک قدیم مسجد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1370ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی جب علاقے کے لوگ بدھ مت مذہب چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق یہ عمارت مسجد بننے سے پہلے بدھ مت کی خانقاہ تھی. یہ تبتی ، مغل اور فارسی طرزِتعمیر کا بہترین امتزاج ہے۔ یہ دو منزلہ مکعب نما تعمیراتی ڈھانچہ ہے، جس کی چکنی دیواریں لکڑی کے سلیبوں اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ملا کر بنائی گئی ہے جبکہ خالی جگہوںکو مٹی سے بھرا گیا ہے۔ عمارت کو موسمی تغیرات سے محفوظ رکھنے کا یہ ایک قدیم تعمیراتی طریقہ ہے۔

وادی گنیش

وادی ہنزہ کا قدیم ترین قصبہ ’گنیش‘شاہراہ قراقرم پر بسائی گئی سب سے پہلی اور پرانی آبادی تھی۔ وادی کے درمیان میں 1400سال پرانا سوئمنگ پول آج بھی موجود ہے۔ یہاں بہت سے قدیم واچ ٹاور، مسجدیں اور مذہبی سینٹر موجود تھے جن میں سے کچھ آج بھی قائم ہیں۔ مختلف قبائل اور مسلک کی چار الگ الگ مساجد ایک ساتھ بنی ہوئی ہیں جو آج تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔

لکڑی ، پتھر اور مٹی سے تعمیر کی گئیں ان مساجد کا تعمیراتی کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وادی میں ایک بڑے شکاری ٹاور کے ساتھ بنا400سال پرانا ’’علی گوہر ہاؤس‘‘ یہاں کی پہچان ہے، جسے یونیسکوایوارڈ برائے تحفظ ثقافتی ورثہ برائے ایشیا و بحرالکاہل ممالک سے نوازا گیا۔ یہ قدیم گھر ہنزہ کے میر کے نامزد کردہ سفیر کے زیرِاستعمال رہا۔