حکومتی دعوے

November 29, 2020

اگر صرف وعدوں اور دعوئوں سے ملک چلتے تو یقیناً پاکستان ایک کامیاب اور ترقی یافتہ ملک ہوتا کیونکہ ہمارے حکمران وعدے اور دعوے کرنے کے ماہر ہیں۔ سابقہ حکومتوں کی طرح پی ٹی آئی حکومت نے بھی ملک کی ترقی کے حسین خواب دکھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تاہم کپتان کی حکومت کو 2سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کو آیا ہے پر ابھی تک وہ وعدے پورے نہ کر سکے۔مہنگائی کا خاتمہ آج تک نہ ہوسکا بلکہ اشیاء مہنگی سے مہنگی ہوتی گئیں۔ اسی طرح 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کے وعدے،ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دینا، سرکاری ہسپتالوں کے لیے ٹاسک فورس بنانا، اور ایسے کئی وعدوں کی لمبی فہرست تشنہ تکمیل ہے۔ آخر کب تک ہمارے مستقبل کے ساتھ ایسے ہی کھیلا جائے گا؟آخر وہ دن کب آئے گا جب ہم اس مہنگائی، کرپشن اور بیروزگاری کے رونے سے باہر نکلیں گے؟

پی ٹی آئی اقتدار میں آنے سے قبل بارہا ملک سے کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ سیاستدانوں سے پائی پائی وصول کر کے ان کو جیلوں میں ڈالنے کا اعلان کرتی رہی تھی، یہ حقیقت ہے کہ نیب کی کارروائیوں میں تیزی تو ضرور آئی جو بہت اچھا اقدام ہے، لیکن بعد میں انہیں کارروائیوں کو یکطرفہ اور انتقامی سیاست کا نام دیا گیا ۔پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستان کو سر سبز و شاداب بنانے کے لئے بلین ٹری منصوبے کا آغاز کیا گیاوہ بھی تکمیل تک پہنچنے میں ناکام رہا، انکشاف ہوا کہ1ارب سے زیادہ درخت لگانے کا دعویٰ کرنے والے10کروڑ درخت بھی نہ لگا سکے، مزدور کو ساڑھے 15ہزار روپے کے بجائے صرف 5ہزار روپے دیئے گئے۔ وزیراعظم عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ ’’انصاف‘‘ اور ’’پولیس کی کارکردگی میں بہتری‘‘ کا تھا لیکن ابھی تک کوئی ایسا نظام دکھائی نہیں دیا جو انصاف دلا سکے۔عمران خان نے آخری وعدہ جو کراچی والوں کے ساتھ کیا تھا وہ تھا کراچی کو 1100ارب کا پیکیج جو ابھی تک پورا نہیں ہوا۔

دوسری جانب محکمہِ تعلیم سندھ نے اچانک جماعت نہم کی حیاتیات، کمپیوٹر اور انگریزی کی کتابیں تبدیل کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ تعلیمی ادارے لگ بھگ 6مہینوں کے لیے بند تھے ۔ 6 مہینوں کے بعد جیسے ہی اسکول کھلے تو معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا کتابیں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس بارے میں کسی قسم کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا اور سندھ کے تمام بورڈز نے بھی اس بارے میں کسی قسم کی کوئی اطلاع دینے کی زحمت نہیں کی۔کراچی میٹرک بورڈ کی ویب سائٹ اس ضمن میں تاحال خاموش ہے۔ہمیں بھی اس بارے میں اس وقت معلوم ہوا، جب گورنمنٹ اسکولوں کے طالب علموں کو انگریزی کی نئی کتابیں فراہم کی گئیں اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی آفیشل ویب سائٹ پر حیاتیات اورانگریزی کی نئی کتابیں اپلوڈ کی گئیں۔ بہتر ہوتا کہ نئے سال سے یعنی 2021 سے ان کتابوں کا اجرا کیا جاتا۔ ابھی پرانی ترتیب چلنے دی جاتی۔پہلے ہی وقت کی شدید قلت ہے۔ بچے تیاری کیسے کریں گے۔اس فیصلے نے اساتذہ اور طلبہ دونوں کو پریشان کر دیا ہے کہ اب ان مضامین کی تیاری اتنے کم عرصے میں کیسے ہو پائے گی۔قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ حیاتیات کی کتاب تاحال اردو بازار میں دستیاب نہیں ہے۔ کووڈ 19کی وجہ سے پہلے ہی بچوں کا آدھا سال ضائع ہو چکا ہے۔سمجھ نہیں آتاکہ ہمارا محکمہ تعلیم اس حد تک سست کیوں ہے؟پبلشرز کو چاہیے تھا کہ وہ ایک مہینہ پہلے ہی اس کا انتظام کر دیتے تاکہ بچوں کی پڑھائی میں خلل واقع نہ ہوتا۔ 15ستمبر سے جماعت نہم اور دہم کے لیے اسکول کھول دیے گئے۔ ان جماعتوں کے بچے اسکو ل میں آرہے ہیں۔ لیکن قابل ِ افسوس بات یہ ہے کہ محکمہ ِ تعلیم کی غفلت کی وجہ سے ان کے پاس نصاب کی ساری کتابیں نہیں ہیں۔ شنید ہے کہ 7اپریل 2021 سے جماعت نہم اور دہم کیلئے بورڈ کے امتحانات شروع کر دیے جائیں گے۔ ایسی صورت حال میں کتابوں کا تبدیل کر دینا’’پھر بازار میں نہ لانا‘‘ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے حکام ِ بالا کو بچوں کی تعلیم کی کتنی فکر ہے ۔

چند دن قبل خبر آئی تھی کہ پہلی سے بارہویں تک کے نصاب میں30% سے%50تک تخفیف کی جائے گی۔ سیکرٹری تعلیم کی طرف سے سفارشات رکھی گئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ وزیرِ تعلیم کی منظوری کے بعد اسے لاگو کیا جائے گا۔مگر وزیرِ تعلیم کی بیانات میں ہمیں کورونا کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے اس بارے میں ایک بیان بھی نہ دیااور نہ ہی تاحال سفارشات منظور کیں۔اس کے برعکس فیڈرل بورڈ اور پنجاب کے بورڈز نے نصاب میں40% سے45% تک کمی کردی ہے۔