محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟

November 29, 2020

یہ بھی ماننا پڑے گا لیڈر شپ نثر ہے اور نوجوان شاعری! اسلام آباد سے مظفرآباد تک کے سفر میں میرا باتونی ہونا اس قدر رائیگاں جارہا تھا کہ آخر میں چپ ہی کرگیا۔ خاموشی بھی کیا تھی پہلے تو کچھ لمحے اپنے اندر کا بابا اور بچہ آپس میں لڑتے رہے اور انہیں چپ کراتا رہا، دلِ ناداں کی داخلی لڑائی ختم ہوئی تو خارجی محاذ گرم ہوگیا۔ اس اندرونی و بیرونی جنگ کا یک نکاتی جھگڑا یہ ٹھہرا کہ ہم نام نہاد بزرگ اور بےبنیاد پروفیسر بچوں کی بات سنتے ہی نہیں، سنیں بھی تو پوری کہاں سنتے ہیں؟ گر نوجوانوں کی سن لیں تو ممکن ہے معاشرتی و معاشی امراض کی کچھ تشخیص انہی نوجوانوں کے ذریعے ہوجائے۔ بغیر تشخیص علاج بھی کہاں ممکن ہے؟ ان کی بات پر کان نہیں دھرتے کہ بچے ہیں مگر دل جو بچہ ہے، اس کی ساری مان لیتے ہیں۔ واہ رے حضرتِ انسان! یہ تو نوجوان کو بھی چاہئے کہ اگر وہ کامرس میں دانا ہے تو آرتھوپیڈک سرجری میں گرو بننے کی کوشش نہ کرے۔ قصہ مختصر نوجوانوں کو سننے اور ان کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت پر ہزاروں کالم درکار ہیں سو ایک ہزار لفظوں پر مشتمل ایک کالم ناکافی سہی مگر ایک اہم اشارہ ضرور ہے!

دورانِ سفر جو محمد رغیب الدین نے میری بولتی بند کی وہ بھی ہے ایک واقعہ لیکن یہ بعد میں، پہلے ایک صداقت عامہ کہ پورے عالم میں اس وقت 15 سے 24 برس عمر کے نوجوانوں کا تناسب 16فی صد ہے۔ پاکستان میں 29برس سے کم عمربچوں، لڑکوں اور جوانوں کا تناسب 64فی صد ہے جبکہ 15برس سے 29برس کی عمر کے لوگوں کا تناسب 30 فی صد ہے۔ پاکستان کے متعلق ان اعدادوشمار کی شہادت یہ ہے کہ کم از کم اگلی تین دہائیاں پاکستان جوان دکھائی دیتا رہے گا۔ موٹی موٹی بات بھی کرلیں تو قوم کے اصلی یا نقلی اور سیاسی و گھریلو بزرگ اگر نوجوانوں کو مدنظر نہیں رکھیں گے تو ان کا تجربہ کس کھیت کی مولی ہوگا؟

جوانی افادیت کی ضمانت ہوتی ہے اور چیلنجز کا کھلا باب بھی۔عہد ِشباب بناؤ کا بحربیکراں بھی ہوتا ہے اور بگاڑ کا تلاطم بھی۔ اب یہ پروفیسر کو دیکھنا ہے کہ اپنی تنخواہ کی بڑھوتری کیلئےاس سے اپنے بےسود ریسرچ پیپرز کی کوانٹٹی بڑھانی ہے یا ملک و ملت کیلئے تحقیقی کوالٹی؟ ٹیکنیکل استاد نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے یا اسے ہنرمند بنانا ہے؟ سیاست دان نے اس سے نعرے لگوانے اور شیشے تڑوانے ہیں یا تدبیر اور تعمیر کا کام لینا ہے؟ حکمران نے اس کی دانش و بینش سے کوئی رخ متعین کرنا ہے یا اس کے استعمال سے اپنی دستار ہی کو چمک دمک دینی ہے؟ آج اور مستقبل میں اگر اس 64 اور 30 فیصد کو حساس، اساس اور احساس کے زمرے میں رکھ لیتے ہیں تو یہ سب معمار اور معیشت و معاشرت کے گائیڈڈ میزائل ہیں، اگر انہیں فراموش کرتے ہیں تو یہ ان گائیڈڈ میزائل ہیں، دونوں صورتوں میں ہیں یہ میزائل ہی! دوسری جانب قابل غور بات یہ بھی ہے کہ، وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا جو فرائض سے آشنا ہو اور حقوق کی اہمیت سے باخبر، یہ نہیں کہ 15 سے 24سال کی عمر میں گھر اور سوسائٹی کیلئے پیراسائٹ ہی ہو، بیٹا ہو کہ بیٹی یا طالب علم ہو کہ طالبہ اپنے حالات و واقعات کے اندر یہ زمانہ سمجھنے اور سیکھنے کا ہے۔ فرائض کی ادائیگی سے تھک جانے کے بعد انجوائے کرنے کا دور ہے نہ کہ انجوائے منٹ سے تھک جانے کے بعد ڈیوٹی کے آغاز کا۔ اگر ہم خواہاں ہیں کہ جنگ میں یہ شیرانِ غاب اور صلح میں رعنا غزالِ تاتاری ہوں تو انہیں تحقیق کی طرف لانا اور ادب کی جانب لے جانا پڑے گا۔ ان کے سامنے مثالی استاد اور بات کا پکا سیاست دان ہونا پڑے گا۔ انہیں دھوکا، فریب، جھوٹ اور مکاری کے ایکوسسٹم اور لیبارٹری سے دور قول و فعل کی مطابقت والے انسٹیٹیوٹ میں پالنا اور پوسنا پڑے گا۔ ماں کی گود جیسی کنڈرگارٹن سے جوانی کی جامعات و دانش گاہوں تک انہیں بولنا و لکھنا اور سوال اٹھانا و جواب تلاش کرنا سکھانا پڑے گا، لائحہ عمل بنانا پڑے گا یہ کس طرح جمہوریت، انتخابات، اقتصادیات، اسلامیات و انسانیت سیکھیں۔ اس پود کی آبیاری کیلئے آئینی دست شفقت ، علوم سفارت کاری اور فن ادارہ سازی سے انہیں ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ سکول میں ابتدائی تربیت، کالج میں تحقیقی رویوں کی بیداری اور یونیورسٹی میں ریسرچ کلائمیکس سکھائیں گے تو گلوبل ویلج میں نیچرل سلیکشن اور بقائے دوام کی منزل پاسکیں گے۔ نوجوانانِ وطن صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ اب اگر معاملہ یہ ہے کہ:

قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے

رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے

تو ایسے میں رہبری و رہنمائی درآمد تو نہیں کی جاسکتی تاہم بیدار کرنی پڑے گی۔ جس قوم کے بڑے دریافتوں کے در پر قیام نہ کریں، اس قوم کے چھوٹے گردابوں میں پھنس جاتے ہیں۔ پس نوجوانوں کو وزارت امور نوجوانان ہی نے نہیں ملکی و قومی، ادارتی و سفارتی اور تعلیمی و تعمیری قیادت نے بھی ان کی نشوونما و رہنمائی کرنی ہوتی ہے!

1۔حکمرانوں اور سوسائٹی کو نوجوانوں کی منشا، طبعی و نفسیاتی رجحانات اور چیلنجز فی الفور سمجھنے کے ساتھ انصاف اور قانون کی نزاکتیں بتانی ہوں گی۔ 2۔ انہیں ٹیبل کی قربت دینی ہوگی جو باعث اعتماد ہوگی۔ 3۔ ہر سطح اور موقع محل کے تناظر میں انٹرپرنیورشپ کی سہولت فراہم کرنا ہوگی۔ 4۔ مہارتیں سکھانی ہوں گی رسک لے کر انہیں رسک سے بچانے کا سلیقہ بتانا ہوگا جس میں کارپوریٹ اور پولیٹیکل انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 5۔ نوجوانوں کیلئے عہد حاضر کے مطابق نئے راستے متشکل کرنے ہوں گے۔

رغیب الدین اعلیٰ اداروں سے فارغ التحصیل تھا، میں نے ہمیشہ سمجھا کہ میرے دوست کا یہ بیٹا بس ’’ممی ڈیڈی برگر گروپ‘‘ سے ہی ہے مگر اسلام آباد سے مظفرآباد تک اس نے امریکی تاریخ سے پاک و ہند کی تاریخ تک، بین الاقوامی اکنامکس سے لیکر پاک بھارت اکنامکس اور پاک بھارت سے امریکہ و روس دفاعی امور تک مجھے بولنے نہیں دیا۔ جسے میں کچھ بھی نہیں سمجھ رہا تھا ،واللہ وہ پورا دیسی اور سی ایس ایس سے لے کر بزنس کرنے کی بھر پور خوبیوں سے مالا مال ہے، بقول میرے دوست وہ لکھتا نہیں مگر جب میں نے اسے فون کیا کچھ لکھو تو اس نے کشمیر و گلگت بلتستان پر وہ جاندار تحریر لکھ کر بھیجی کہ جو کسی بھی بڑے انگریزی اخبار کی زینت بن سکتی ہے۔ وہ جو ہم کہتے ہیں، نئی نسل میں لکھنے کی مہارت کا فقدان ہے۔ ارے بابا لکھوا کر تو دیکھو ، یہ حیران کردیں گے کہ گلشن میں علاج تنگئی داماں ہے ہمیشہ چند کلیوں پر قناعت کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں شاید۔ اجی بھول میں نہ رہئے گا نوجوان بہت سیانا ہے ذرا تراشیں اور سنیں تو، میں نے کل ٹی وی ٹاک شو پر جانا تھا، مظفر آباد فون کرکے مذاقاً پوچھا، رغیب! یہ آئندہ کشمیر کے الیکشن میں کیا ہونے والا ہے ؟ وہ بولا ’’ انکل! شارٹ کٹ کا زمانہ ہے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عالمی معاملہ ہو یا جی بی و آزاد کشمیر کے انتخابات کا، لوگ فنڈز کے متمنی ہیں، جو دے گا اس کے۔ محبت اب جذبہ یا نظریہ نہیں رہی ،فنڈز کی فقیر بن چکی ہے!‘‘