کورونا اور کرسمس

November 29, 2020

اگرچہ کرسمس برطانیہ اور ’مسیحی دنیا‘ کا سال میں سب سے بڑا مذہبی تہوار ہوتا ہے لیکن معلوم تاریخ میں اس سال یہ پہلا موقع ہو گا جب کرسمس اور نئے سال کے جشن کی رونقیں ماند، مذہبی اور روایتی جوش و خروش کووڈ 19کے خوف تلے دب کر رہ جائے گا۔ کورونا کی دوسری لہر آنے کے بعد برطانوی حکومت نے جزوی طور پر تقریباً ڈیڑھ ماہ کا جو لاک ڈائون لگایا تھا، وہ بھی 2؍ دسمبر کے بعد ختم ہو جائے گا، اس لاک ڈائون میں تعلیمی ادارے بند نہیں کئے گئے۔ حکومت نے دو دسمبر کے بعد پابندیوں میں جن نرمیوں کا اعلان کیا ہے، اُن میں یہ بھی ہے کہ کرسمس کے موقع پر تین فیملیز ایک جگہ اکٹھا ہو سکتی ہیں، کرسمس شاپنگ کے لئے سٹورز کھولنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے تاکہ کرسمس اور نئے سال کی خوشیاں ممکنہ حد تک معمول کے مطابق منائی جا سکیں لیکن کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنا ابھی مشکل ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت عوام کو یہ مشورہ بھی دے رہی ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے کار پر سفر کریں اور بڑی تقریبات منعقد کرنے اور ان میں شریک ہونے سے پرہیز کریں۔ دنیا بھر میں کوئی سو سے زیادہ کمپنیز کورونا وائرس سے بچائو کی ویکسین تیار کر رہی ہیں اور کچھ تیاری کے آخری مراحل میں بھی ہیں لیکن برطانیہ میں سب سے زیادہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی تیار کردہ ویکسین پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ خبروں کے مطابق اس کے نتائج آئندہ مہینے دسمبر میں ہی آنے کی توقع ہے۔ آکسفورڈ میں بچوں کے وبائی امراض اور انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو پولارڈ کے مطابق ہم ادویات تیار کرنے والی ایک کمپنی آسٹرازنیکا کے ساتھ مل کر یہ ویکسین تیار کر رہے ہیں۔

دسمبر 2019ء میں جب کورونا وائرس کی ابتدا ہوئی، انگلینڈ میں حکومت اس وقت سے کسی قسم کے دبائو میں آئے بغیر ماہرین اور پارلیمنٹ کے مشورے سے جزوی اور مکمل لاک ڈائون کا فیصلہ کر رہی ہے حالانکہ سکاٹ لینڈ، آئر لینڈ اور ویلز کی مقامی حکومتیں اس ضمن میں اپنے طور پر فیصلے کر رہی ہیں۔موسم گرما میں جب انگلینڈ میں مکمل لاک ڈائون کیا گیا تھا تو سکول کالج بھی بند کر دیئے گئے تھے لیکن حالیہ لاک ڈائون میں تمام تعلیمی ادارے کھلے ہیں مگر وزیراعظم بورس جانسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات کا شدید خطرہ موجود ہے کہ برطانیہ میں کورونا متاثرین کی تعداد آنے والے مہینوں میں 2ملین سے بھی بڑھ سکتی ہے جس سے این ایچ ایس( قومی ادارہ صحت) پر طبی و اخلاقی بوجھ بڑھ جائے گا اور ایسی صورتحال میں ڈاکٹر اور نرسیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گی کہ کس مریض کا علاج کیا جائے، کسے آکسیجن مہیا کی جائے اور کسے نہیں؟ برطانیہ میں اس وقت صورتحال سنگین اس لئے بھی ہے کہ رواں سال مارچ، اپریل کی طرح اکتوبر اور نومبر میں اموات کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل چار، پانچ اور چھ سو تک اموات اور اٹھارہ سے چوبیس ہزار تک کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ ابھی 25؍ نومبر کو 695اموات اور 18ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ تادم تحریر برطانیہ میں ڈیڑھ ملین سے زیادہ کیسز رپورٹ جبکہ 59ہزار اموات ہو چکی ہیں، ان میں 400کے قریب ایسے متاثرہ افراد بھی شامل ہیں جو وائرس کی تصدیق ہونے کے صرف ایک مہینہ کے اندر موت کے منہ میں چلے گئے۔

کرسمس کی آمد پر برطانیہ تشویش میں مبتلا ہے، جہاں کورونا متاثرین کی تعداد ڈیڑھ ملین سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ یہ سمجھی جا رہی ہے کہ اس وبا کے آغاز پر ٹیسٹنگ کی شدید کمی تھی۔ ملک بھر میں لوگ اس پہلو پر شدت سے یقین کرنے لگے ہیں کہ جب سے کروڑ 19وبا آئی ہے، حکومت عوام سے مسلسل جھوٹ بول رہی ہے اور یہ غلط بیانی کورونا سے ہونے والی اموات، کورونا کیسز، ویکسین اور اس وبا سے مکمل چھٹکارا ملنے سے متعلق کی جا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بحث ہے کہ حکومت کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ ایسا نہیں ہے جہاں سے یہ اعدادوشمار چیک کئے جا سکیں جو حکومت بتا رہی ہے کیونکہ میڈیا پر بھی یہ پابندی ہے کہ وہ اسپتالوں یا صحت کے دیگر مراکز و اداروں سے معلومات لے کر عوام تک پہنچائے، برطانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی سی‘‘ بھی چند ایسی لیک شدہ خفیہ حکومتی دستاویزات کی بات کر رہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے ملک میں مکمل لاک ڈائون اور سخت اقدامات نہ کئے تو ہلاکتوں کی تعداد پہلی لہر سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جو چار ہزار روزانہ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ قبل ازیں سکولوں اور یونیورسٹیز کی یونینز نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قومی سطح کے لاک ڈائون کے دوران تدریسی عمل کو آن لائن منتقل کر دیا جائے۔ برطانیہ کی نیشنل ایجوکیشن یونینز نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ ’یہ خود سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہو گا، اگر ہم اس بات کو جھٹلائیں گے کہ سکولوں نے کورونا وائرس کے پھیلائو میں کیسے اور کیا کردار ادا کیا ہے؟

کورونا کرسمس کی تباہ کاریوں کو حقیقی ماننے والے برطانوی ’’سائنٹیفک ایڈوائزری گروپ فار ایمرجنسیز‘‘ (سیج) کی اُن سرکاری دستاویزات کا حوالہ بھی دے رہے ہیں جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس انگلینڈ میں بتائی گئی بدترین صورتحال سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے چنانچہ اس منظر نامے کے مطابق تو سردیوں کے دوران کووڈ سے 85ہزار سے زیادہ اموات ہو سکتی ہے۔ ’’سیج‘‘ کی یہ رپورٹ ہر جمعہ کو شائع ہوتی ہے، پچھلے جمعہ کو آنے والی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد پچاس ہزار روزانہ بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ ایک اندازے کے مطابق اکتوبر کے وسط تک انگلینڈ میں کورونا متاثرین کی تعداد 43سے 74ہزار تھی، ’’بی بی سی‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق آنے والے چند ہفتوں میں ممکنہ طور پر ’’این ایچ ایس‘‘ مزید مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرنے سے قاصر ہو سکتا ہے۔ متعلقہ ادارے یہ پیش گوئی بھی کر رہے ہیں کہ کرسمس پر لاک ڈائون میں نرمی کے باعث کورونا کی تباہ کاریوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔