ترکی۔ 2023ء کے بعد

November 30, 2020

گزشتہ دنوں ترکی کے 97ویں قومی دن پر میں نے کراچی میں اپنے دوست ترکی کے قونصل جنرل تولگا اوکاک کو اپنے تہنیتی پیغام میں مبارکباد دیتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان کی مسلم امہ بالخصوص پاکستان کیلئے محبت اور خصوصی جذبات کو سراہا تھا۔ 2023ءمیں ترکی کی آزادی کے 100سال مکمل ہونے کے ساتھ ترکی کے ’’معاہدہ لوزان‘‘ کی مدت بھی ختم ہورہی ہے جس کی دنیا منتظر ہے جبکہ کراچی میں ترکی کے قونصل جنرل تولگا اوکاک نے میرے گھر ملاقات کے دوران اس بات کی تردید کی ہے کہ معاہدہ لوزان کی کوئی مدت نہیں اور یہ غیر میعادی معاہدہ ہے، ہم صرف اسکی 100سالہ سالگرہ منارہے ہیں۔ ترکی وہ اسلامی ملک ہے جس نے 625سال تک 3براعظموں پر حکومت کی۔ اُس وقت ترکی کا نام ’’اناطولیہ‘‘ تھا۔ قائی قبیلے کے ارتغرل غازی کی بہادری نے اسلامی دنیا کے سر فخر سے بلند کردیے تھے جس کے بعد اُن کے بیٹے عثمان غازی نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی جس نے ایک طویل عرصے آدھی سے زائد دنیا پر حکمرانی کی مگر آج سے تقریباً 100سال پہلے اسلامی دنیا کا یہ عظیم ملک انگریزوں کی سازشوں اور اپنوں کی غداریوں کی وجہ سے زوال پذیر ہوگیا اور شکست کے بعد عظیم سلطنت عثمانیہ کا حصہ 40سے زائد اسلامی ممالک میں تقسیم ہوگیا اور غیرترک ریاستوں کو آزادی دے دی گئی جس کے بعد24جولائی 1923کو ترکی کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں برطانیہ، آئرلینڈ، فرانس، روس، اٹلی اور جاپان نے ایک معاہدہ کیا جسے ’’لوزان معاہدہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے ترکی کی معیشت اور دیگر امور پر پابندیاں عائد کردی گئیں، ترکی میں خلافت ختم کرکے اسے سیکولر ملک قرار دے دیا گیا، تیل نکالنے کی اجازت سلب کرلی گئی، آبنائے باسفورس (بحیرہ مردار) کو بین الاقوامی راستہ بنادیا گیا جس کی رو سے ترکی اپنے سمندری راستے سے گزرنے والے غیر ملکی بحری جہازوں سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گا۔ اِن شرائط پر عمل کرتے ہوئے مصطفی کمال اتاترک نے سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی اور ترکی کو نئے سرے سے منظم کرکے انقرہ کو جدید ترکی کا دارالحکومت بنایا۔

ترکی نے لوزان کے معاہدے تحت عائدپابندیوں کے باوجود ترقی کا سفر جاری رکھا ہوا ہے اور آج ترک صدر طیب اردوان کی حکومت نے آئی ایم ایف کا تمام قرضہ ختم کرکے ترکی کو آئی ایم ایف کے چنگل سے باہر نکال لیا ہے۔ ترکی یورپی یونین کسٹم کا ممبر ملک ہے جس کی وجہ سے ترکی کو یورپی یونین ممالک میں ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی سہولت حاصل ہے۔ ترکی میں آبنائے باسفورس پر قائم باسفورس پل ایشیاء کو یورپ سے ملاتا ہے۔ ترکی G-20ممالک کا رکن اور دنیا کی 17ویں ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ ترک فوج نیٹو کی دوسری بڑی آرمی ہے جبکہ ترکی دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے جہاں سالانہ 7کروڑ سے زائد غیرملکی سیاح آتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کے وژن کے مطابق ترکی 2023ء تک دنیا کی 10بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائیگا۔ وژن 2023ءمیں ترکی کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) 2.6کھرب ڈالر، فی کس آمدنی 25000 ڈالر ، ایکسپورٹ 500 ارب ڈالر اور سیاحت میں دنیا کے 5بڑے ممالک میں شامل ہونے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ترکی کے قونصل جنرل تولگا اوکاک کی کاوشوں سے پاکستان اور ترکی میں سیاحت کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔

جولائی 2023ءمیں 100سالہ معاہدہ لوزان ختم ہورہا ہے جس کے بعد ترکی اپنا تیل نکالنے اور فروخت کرنے میں آزاد ہوگا جس سے ترکی کی معیشت مضبوط ہوگی، وہ ایک امیر ترین ملک بن جائے گا اور پوری دنیا میں ایک بار پھر مسلم ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرکے ایک مضبوط اسلامی بلاک بناسکتا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ناقابلِ برداشت ہے۔ مغرب کو اِس بات کا بھی خوف ہے کہ ترکی معاہدے کے خاتمے کے بعد ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کی بحالی کی کوششیں کر سکتا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک اس معاہدے کے ختم ہونے سے پریشان ہیں۔ اس اہم مسئلے پر مغرب کاموقف ہے کہ سلطنت عثمانیہ اور مغربی اتحادی طاقتوں کے مابین 10اگست 1920ءکو ہونیوالا اصل معاہدہ ’’معاہدہ سیورے‘‘ کہلاتا ہے جبکہ 24جولائی 1923ءکا ’’معاہدہ لوزان‘‘ کمال اتاترک کے جمہوریہ ترکی اور مغربی طاقتوں کے مابین ہوا تھا جس کا سلطنت عثمانیہ سے کوئی تعلق نہیں اور معاہدہ لوزان کی میعاد 100سال نہیں بلکہ یہ غیرمیعادی معاہدہ ہے جس کی کوئی مدت مقرر نہیں۔معاہدہ سیورے کی رو سے سلطنت عثمانیہ کے مختلف جزائر یونان کے حوالے کردیئے گئے تھے، ترکی عسکری طور پر فرانس، اٹلی اور برطانیہ کے زیر قبضہ آگیا تھا، عراق اور مصر برطانیہ جبکہ، شام، تیونس، الجزائر اور لیبیا اٹلی کے قبضے میں چلے گئے تھے جبکہ سعودی عرب شریف مکہ کے زیر تسلط سلطنت حجاز قرار پائی۔ اس طرح ترکی کے مالی وسائل 3مغربی ملکوں برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے حوالے کردیئے گئے تھے۔ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردوان ایک اسلام پسند لیڈر ہیں جنہوں نے یورپی ماحول میں ڈھلے ترکوں کو آہستہ آہستہ دین کی طرف راغب کیا۔ ڈرامہ ’’ارتغرل غازی‘‘ ایک تحریک کی شکل میں انقلاب برپا کرسکتا ہے اور ان حقائق کے پیش نظر 2023کے بعد کا ترکی مسلم امہ کیلئے ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔