دو بیٹیاں ایک کہانی

November 30, 2020

کسی کو اچھا لگے یا بُرا، ملتان میں ایک نئی تاریخ بننے جا رہی ہے۔ آج(30نومبر) پاکستان پیپلز پارٹی کا یومِ تاسیس ہے۔ اِس پارٹی کے 54ویں یومِ تاسیس کا جلسہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا جلسہ بن چکا ہے۔ حکومت نے کورونا وائرس کے نام پر اِس جلسے کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے 28؍نومبر کو سکھر میں تحریک انصاف کے ایک یوتھ کنونشن سے خطاب کیا۔ سندھ حکومت نے اُنہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

دوسری طرف ملتان میں پیپلز پارٹی کو اپنے یومِ تاسیس کے جلسے کے انعقاد سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ حکومتی وزراء الزام لگا رہے ہیں کہ اپوزیشن کے جلسوں سے کورونا پھیلے گا لیکن نہ خود جلسوں سے باز آ رہے ہیں، نہ جماعت اسلامی کو جلسوں سے روک رہے ہیں اور عام آدمی یہ سوچ رہا ہے کہ کیا کورونا وائرس صرف پی ڈی ایم کے جلسوں سے پھیلتا ہے؟ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری خود کورونا وائرس کا شکار ہیں۔

27نومبر کو وہ اپنی چھوٹی بہن بختاور کی منگنی کی تقریب میں شریک نہیں ہو سکے۔ اِس تقریب میں بختاور سے چھوٹی آصفہ ایک آئی پیڈ لئے مہمانوں میں گھوم رہی تھیں اور اسکائپ کے ذریعہ بلاول کی مہمانوں سے بات کروا رہی تھیں۔

حکومت کے وزراء نے منگنی کی اِس چھوٹی سی غیرسیاسی تقریب پر بھی سیاست کرنے کی کوشش کی اور یہ بیانات دیے کہ بلاول کی بہن کی منگنی میں تو کورونا وائرس سے بچائو کے لئے بہت احتیاطی تدابیر کی گئیں، سب مہمانوں سے کہا گیا کہ اپنے کورونا ٹیسٹ کروا کر آئیں لیکن بلاول کورونا وائرس کے دوبارہ پھیلائو کے باوجود ملتان کا جلسہ ملتوی کرنے کے لئے تیار نہیں۔

حکومت نے اِس معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ متانت کی بجائے رعونت آمیز لہجہ اختیار کیا اور اِسی لہجے کے ردِعمل میں بلاول بھٹو زرداری نے خود اعلان کیا کہ 30؍نومبر کو ملتان کے جلسے میں اُن کی نمائندگی آصفہ بھٹو زرداری کریں گی۔

آصفہ نے ہمیشہ اپنے آپ کو عملی سیاست سے علیحدہ رکھا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بختاور خاندان کی زمینوں کی دیکھ بھال اور کاروباری معاملات کی نگرانی کرتی ہیں۔ آصفہ کا زیادہ وقت اپنے والد کے ساتھ گزرتا ہے۔ وہ کبھی اپنے والد کو جوتے پہنا رہی ہوتی ہیں اور کبھی اُنہیں سگریٹ پینے سے روکتی نظر آتی ہیں۔

آصف زرداری جب کسی کی نہیں مانتے تو پھر آصفہ سے سفارش کرائی جاتی ہے۔ پچھلے سال آصف زرداری نے طبی وجوہات کی بناء پر درخواست ضمانت دائر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بلاول سمیت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے بہت منت سماجت کی لیکن آصف زرداری درخواست ضمانت پر دستخط کے لئے تیار نہ تھے۔

آخر کار بلاول نے آصفہ سے مدد حاصل کی اور آصفہ نے اپنے والد کو درخواست ضمانت پر دستخط کے لئے راضی کیا۔ وہ اپنے والد اور بھائی دونوں کی لاڈلی ہیں لیکن والد اور بھائی نے فیصلہ کیا کہ ملتان کے جلسے میں آصفہ ضرور شرکت کریں گی۔

آصفہ کی شرکت سے اپوزیشن جماعتوں کے حامیوں کو یہ پیغام ملے گا کہ کورونا وائرس کی شدید لہر میں صرف عام لوگ احتجاج کے لئے نہیں نکلیں گے بلکہ شہید محترمہ بےنظیر بھٹو کی وہ بیٹی بھی ملتان پہنچے گی جس نے اِس سے پہلے کبھی کسی بڑے جلسے میں تقریر نہیں کی۔

ملتان کے جلسے سے ایک نہیں بلکہ دو سابقہ وزرائے اعظم کی بیٹیاں خطاب کریں گی۔ چند سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نواز شریف اور بےنظیر بھٹو کی بیٹیاں ایک ساتھ ایک اسٹیج پر تقریریں کرتی نظر آئیں گی۔

نواز شریف کو مختلف مقدمات میں اُلجھا کر نااہل قرار نہ دیا جاتا تو شاید مریم نواز سیاست میں نہ آتیں۔ اِسی طرح آصفہ بھٹو زرداری نے 2018کے انتخابات میں اپنے والد اور بھائی کی انتخابی مہم میں تھوڑا بہت حصہ لیا لیکن وہ عملی سیاست سے دور رہیں۔

اُنہیں ضمنی الیکشن کے ذریعہ سندھ اسمبلی کا رکن بننے کا مشورہ بھی دیا گیا لیکن اُن کی پہلی ترجیح اپنے بیمار والد کی تیمار داری تھی۔ پچھلے چند دنوں میں حکومت نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ آصفہ کو اُن کے اپنے ہی خاندان نے سیاست میں دھکا دے دیا ہے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ بلاول کی شخصیت اپنی والدہ اور والد دونوں کے اوصاف کا امتزاج ہے۔

بلاول کبھی سخت بات کرتے ہیں اور کبھی اپنے والد کی طرح مفاہمانہ رویہ بھی اختیار کر لیتے ہیں لیکن آصفہ اپنی والدہ کی طرح خطرناک ترین دشمن کی گولیوں اور بموں کے سامنے ڈٹ جانے والی طبیعت کی مالک ہیں۔

اُنہوں نے بچپن سے اپنی والدہ اور والد کو سازشوں کے حصار میں دیکھا ہے جس کی وجہ سے اہم سیاسی معاملات پر اُن کا موقف قدرے جارحانہ ہے اور اِسی لئے وہ ابھی تک سیاست سے پرہیز کرتی رہیں۔ اب وہ اپنے والد اور بھائی کی مرضی سے سیاست میں آ رہی ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ والد اور بھائی مفاہمت کو خیر باد کہہ رہے ہیں اور مزاحمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

آصف زرداری پیپلز پارٹی کو بلاول کے حوالے کر چکے ہیں اور بلاول نے پچھلے کچھ عرصے میں مفاہمت کا تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے۔ آصفہ کو اپنی معاونت کے لئے سیاست میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جارحانہ سیاست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابھی تک عمران خان بڑے خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں۔ جتنی تیزی سے اُن کی حکومت غیرمقبول ہوئی ہے، اُس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

گلگت بلتستان کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ وہ پورے پاکستان میں بدستور پاپولر ہیں۔ گلگت بلتستان کے کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد قومی اسمبلی کے صرف ایک حلقے کے رجسٹرڈ ووٹروں کے برابر ہے۔

کورونا وائرس عام لوگوں کیلئے زحمت لیکن عمران خان کیلئے ابھی تک رحمت ہے کیونکہ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں خاصی دشواریوں کا سامنا ہے۔ پھر ویسی ہی دشواریاں ہیں جیسی دشواریوں کا سامنا 30؍نومبر 1967ءکو ذوالفقار علی بھٹو کو پیپلز پارٹی قائم کرنے کے بعد جنرل ایوب خان کے ہاتھوں کرنا پڑاتھا۔

سب جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان میں اختلافات کی وجہ معاہدہ تاشقند تھا۔ ایوب خان نے مسئلہ کشمیر کے حل کی یقین دہانی حاصل کئے بغیر بھارت کے ساتھ امن معاہدہ کیا جس پر اُن کے وزیر خارجہ بھٹو نے استعفیٰ دے دیا اور مزاحمت شروع کر دی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام دراصل مسئلہ کشمیر پر ایک فوجی ڈکٹیٹر کی سودے بازی کا ردِعمل تھا۔ 1968میں بھٹو صاحب کو ملتان میں جلسے سے اُسی طرح روکا گیا جیسے آج پی ڈی ایم کو روکا گیا۔

بھٹو صاحب کو گرفتار کرکے ساہیوال جیل میں قید کیا گیا اور اِسی گرفتاری کے بعد جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔

آج کی اپوزیشن کو بھی گرفتاریوں کا سامنا ہے اور وہ حکومت کے خلاف تحریک کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ملتان کے جلسے میں دو تقریروں پر سب کی نظر ہو گی۔ مریم نواز اور آصفہ کی تقریر۔ ہو سکتا ہے کہ آصفہ ایک لکھی ہوئی چھوٹی سی تقریر پڑھیں لیکن اُن کا پیغام وہی ہوگا جو مریم نواز کا ہوگا۔

نواز شریف اور محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کی بیٹیوں کا پیغام ایک ہی ہوگا۔ دو بیٹیاں مزاحمت کی نئی تاریخ بنانے جا رہی ہیں۔