کیا پیپلز پارٹی اپنی اساس پر قائم ہے؟

November 30, 2020

پاکستان پیپلز پارٹی کو قائم ہوئے 53سال ہو چکے ہیں۔آج ہی کے روز 1967کو لاہور میں ممتاز ترقی پسند رہنما خورشید حسن میر کے گھر پر قائم ہونے والی اِس سیاسی جماعت کا 54واں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے۔ یومِ تاسیس منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس اساس یعنی بنیاد پر پارٹی قائم کی گئی تھی، نئی نسل کو اُس سے آگاہ کیا جائے اور اُسی اساس پر قائم رہنے کا عزم کرتے ہوئے پارٹی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ حکمت عملی کے تحت چلایا جائے تاکہ پارٹی کا عوام اور کارکنوں سے جو رشتہ ہے، وہ نہ صرف برقرار رہے بلکہ مزید مضبوط ہو۔ آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اپنی اساس خصوصاً نظریاتی اساس پر قائم ہے یا نہیں؟ اس سوال کے درست جواب سے ہی یہ اندازہ لگایا جا سکےگا کہ ماضی اور آج کی پیپلز پارٹی میں کیا فرق ہے؟

یہ دیکھا گیا ہےکہ جو سیاسی جماعتیں اپنی اساس پر قائم رہیں، وہ تبدیلیوں کے طوفانوں میں مضبوطی سے کھڑی رہیں اور جو سیاسی جماعتیں اپنی نظریاتی اساس سے ہٹ گئیں، وہ یا تو ختم ہو گئیں یا لڑ کھڑا رہی ہیں۔ دائیں بازو کے نظریات کی حامل یا رجعت پسند سیاسی جماعتوں پر تبدیلی کے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ وہ سیاسی عمل خصوصا ترقی پسند سیاسی تحریکوں کے کمزور ہونے سے از خود مضبوط ہوتی ہیں۔ ان کی آبیاری ایک سسٹم کرتا ہے، جس کے خلاف لوگ لڑتے ہیں۔ لوگوں کی لڑائی کمزور ہونے سے یہ جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ تاریخ میں آزمائش صرف ترقی پسند سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے۔

ہم واپس اپنے سوال پر آتے ہیں کہ کیا پیپلز پارٹی اپنی نظریاتی اساس پر قائم رہی اور اب اس کا مستقبل کیا ہے؟ میں ان معروضی حالات کا گواہ ہوں، جن میں پیپلز پارٹی قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی جنوبی ایشیاء کی ان سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے، جنہوں نے نہ صرف اپنے ملکوں بلکہ خطے کی سیاست پر بہت اہم اثرات مرتب کئے، بعض سیاسی جماعتیں زیادہ تر ان سیاست دانوںکے شاہی خانوادوں (Dynasties) میں تبدیل ہو گئیں، جنہوں نے ان کی بنیاد رکھی تھی۔ فلپائن کے بے نگنو اکینو کی پارٹی ان کی ڈائے نیسٹی بن گئی۔ یہ پارٹی اگرچہ آج بھی موجود ہے لیکن زیادہ موثر نہیں رہی۔ بنگلہ دیش کی عوامی لیگ شیخ مجیب کی ڈائے نیسٹی میں تبدیل ہو گئی لیکن آج بھی یہ ایک موثر سیاسی جماعت ہے، جو اکیلے حکومت بناتی ہے۔ بھارت کی کانگریس اگرچہ بہت پرانی سیاسی جماعت ہے اور اس نے بھارت میں آزادی کی تحریک کی قیادت کی لیکن وہ بعد ازاں نہرو یا گاندھی ’’ڈائے نیسٹی‘‘ بن گئی۔ سری لنکا میں بندرا نائیکے ڈائے نیسٹی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ فلپائن، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا کی پولٹیکل ڈائے نیسٹیز (سیاسی خانوادوں) کا مطالعہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے غورو فکر کا سبب ہو گا۔

بھارت میں کانگریس کی گرتی ہوئی سیاسی مقبولیت کے باعث نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں سیاسی مباحثے کا آغاز ہو گیا ہے اور لوگ اس صورتحال کے بنیادی اسباب کا پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ کانگریس کو پہلے نہرو اور اندرا گاندھی جیسی مضبوط لیڈر شپ میسر تھی۔ اندرا گاندھی کے بعد کوئی مضبوط لیڈر پارٹی کو اس طرح آگے نہ بڑھا سکا اور یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ پارٹی کو داخلی جمہوریت کے ذریعہ مضبوط کیا جائے لیکن اس ضرورت کا احساس ہونے کے باوجود اس پر کام نہ کیا گیا اور آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایودھیا، کشمیر اور ایسے دیگر ایشوز پر کانگریس نہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے موقف کی حمایت کرتی ہے بلکہ اس کی معاشی، سیاسی اور داخلی پالیسیاں بھی بی جے پی سے مختلف نہیں ہیں۔ کانگریس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے، جو لوگوں کو اس کی طرف راغب کرے۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش کی عوامی لیگ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بھی قوم پرستانہ، لبرل اور جمہوری نظریات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ بنگلہ دیش کے معروضی تضادات میں ایک فریق نظر آتی ہے۔ان سارے حالات سے پیپلز پارٹی بھی گزری ہے، جن سے جنوبی ایشیاء کے دیگر سیاسی خانوادے (پولٹیکل ڈائے نیسٹیز) گزری ہیں۔ کانگریس جیسے حالات کا پیپلز پارٹی کو زیادہ سامنا ہے۔ 2014میں بھارت میں کانگریس کو عام انتخابات میںواضح شکست ہوئی اور بی جے پی ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ 30نومبر 2014کو جب پیپلز پارٹی اپنا 48واں یومِ تاسیس منا رہی تھی تو عمران خان اسلام آباد میں سیاسی جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ تحریک انصاف بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھر رہی تھی۔ کیا پیپلز پارٹی کا پروگرام دوسری جماعتوں سے مختلف ہے؟ کیا صرف ڈائے نیسٹی سے کام چلانا ممکن ہے؟ کیا پیپلز پارٹی میں خورشید حسن میر، ڈاکٹر جے اے رحیم، شیخ محمد رشید، مخدوم محمد زمان طالب المولی، میر رسول بخش تالپور، راجہ انور، حنیف رامے، معراج محمد خان، طاہر خان، شوکت محمود، ملک حاکمین خان، بیگم ریحانہ سرور، بیگم اشرف عباسی اور ان جیسے لوگوں کا کوئی متبادل آج ہے؟ بلاول بھٹو زرداری میں اس ڈائے نیسٹی کا وارث ہونے کی پوری صلاحیتیں موجود ہیں لیکن انہیں بڑے سیاسی پس منظر اور بلند پایہ دانشور ایسے سیاسی کامریڈ ز کی ضرورت ہے، جس طرح کے کامریڈز بھٹو شہید نے خورشید حسن میر کے گھر پر جمع کئے تھے ۔