دیگر مہلک امراض پر بھی توجہ ضروری ہے

November 30, 2020

اب تک تو یہ ہی دیکھتے آئے ہیں کہ جب بھی کوئی حکومتی پروجیکٹ شروع کیا جاتا ہے اور اس سے عوام الناس کے لئے کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے حل کے لئے کچھ متبادل اقداما ت کیے جاتے ہیں۔ جیسے اگر سڑک کی توسیع کی جاتی ہے یا پل کی تعمیر ہونے کی وجہ سے وہ سڑک بند کی جاتی ہے۔ تو متبادل راستے کی تعمیر پہلے کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو مشکل نہ ہو۔ بالکل اسی عوام کی فلاح اور آرام کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر آنے والے افراد کے لیے حکومت نے قیام کے لیے سرائے بنائے جسے آشیانہ کا نام دیا گیا۔ لاک ڈاون کے دوران بیروزگاری کا شکار ہونے افراد افراد کے لیے فی کس تیرہ ہزار روپے کی تقسیم کی گئی ۔ تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو ۔ جب ایک طرف حکومت عوام الناس کے لئے اس قدر فکر مند رہتی ہے۔ تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آخر کس طرح بہت سارے فیصلے حکومت بغیر سوچے سمجھے لے لیتی ہے۔ اور یہ بھی اندازہ نہیں لگاتی کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ہمارے ملک میں اب تک صرف پولیو اور کورونا، دو ایسے مرض ہیں جن سے محفوظ رہنا بہت ضروری ہے۔ جبکہ اسی طرح کے اور بھی بہت سے امراض ہیں۔ جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں ۔ اگر جان لیوا نا بھی ثابت ہوں تو انسان اتنا بیمار رہتا ہے کہ اس کی کارکردگی متاثر ہوکر بہت کم رہ جاتی ہے۔ ایسے میں بہت سے لوگ معاشی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لے پاتے۔ ایسے میں یہ الٹا معیشت پر بوجھ بنتے ہیں اور سماجی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود حکومت ان بیماریوں کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ ملیریا، جسکا شکار پچاس فیصد سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ مچھروں کی موجودگی ہے ۔ مچھر آتے ہی گندگی پر ہیں ۔لیکن افسوس کسی بھی جماعت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ کسی بھی حکومت کے انتخابی منشور میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ بلدیاتی ادارے کو با اختیار کرکے اس بات پر زور دیں گی تاکہ گلی کوچوں میں صفائی کا خاص رکھا جاسکے۔ تاکہ پاکستان میں وہ بیماریاں جو گندگی کی وجہ سے ہوتی ہیں ان پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن افسوس ماسک، سینیٹائزر ، بیس سیکنڈ ہاتھ دھونے، سماجی فاصلہ برقرار رکھنے پر اصرار، ہر تین مہینے کے بعد بڑی باقاعدگی سے پولیو کے قطرے پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو پچھلے پچیس سال سے پلائے جا رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک پولیو ختم نہ ہوپارہا۔ ان تمام امور کی تشہیر کے حکومت اچھے خاصے اخراجات کررہی ہے۔ لیکن نجانے کیوں ملیریا بگڑ کر ڈینگی، چیکن گونیا، ہوگیا لیکن گلی محلوں کی صفائی کے لئے بلدیاتی ادارے فعال نا کروائے جاسکے۔ اسی طرح کھانے پکانے کے سارے کاروبار حکومت کے زیر نگرانی ہوتے ہیں اور کوالٹی کنٹرول کے ادارے معیشت پر بڑا بوجھ ہیں ۔لیکن یہ ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے یوں یہ ہوٹلوں اور ریستوراں کا کاروبار چلانے والے عوام الناس کی فلاح کا خیال نہ کرتے ہوئے صفائی ستھرائی سے بہت دور ہیں۔ اور عام لوگ اس مسئلہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے باہر کے کھانے خوب کھاتے ہیں اور مختلف پیٹ اور جگر کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس میں آج کل طپ دق یعنی ٹائفائڈ، پیچش، اور پیلیہ سب سے زیادہ ہیں ۔ ان پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ اگر صاف پانی، خالص خوراک، اور خالص ماحول میسر ہو۔ لیکن اس کے صفائی کا انتظام پہلی شرط ہے۔ کیا حکومتیں کبھی اس کو بھی اہمیت دیں گی؟

minhajur.rabjanggroup.com.pk