برطانیہ، عصمت دری کے واقعات کی تفتیش اور پراسیکیوشن کا نظام بری طرح ناکام

November 30, 2020

لندن (پی اے) عصمت دری کے واقعات کی تفتیش اور پراسیکیوشن کا جائزہ لینے والے خواتین کے گروپس نے عصمت دری کے واقعات کی تفتیش اور پراسیکیوشن کے نظام کو بری طرح ناکام قرار دیا ہے، گروپس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرمنل جسٹس کی اس ناکامی کی وجہ سے عصمت دری کرنے کے عادی ملزمان اور زن بیزار لوگوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور ان کا نشانہ بننے والی خواتین کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سینٹر فار ویمنز جسٹس CWJ، اینڈ وائلنس اگینسٹ ویمن EVAW کولیشن اور BAME اینٹی وائلنس کمپین گروپ امکان نے اپنی رپورٹ میں عدالتی پراسیس کے ہر مرحلے میں نمایاں تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گروپ نے عصمت دری اور سنگین جنسی حملے کا نشانہ بننے والی خواتین کے خیالات معلوم کئے، جس میں متاثرہ خواتین نے انصاف کے حصول میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کے حوالے سے اپنے تجربات سنائے۔ گروپ نے اعدادوشمار کے حوالے سے موجودہ شواہد کا بھی جائزہ لیا جس سے عصمت دری کے ملزمان کو سزا ہونے کی شرح میں ہونے والی کمی کا اظہار ہوتا ہے۔ ان گروپوں کی یہ رپورٹ حکومت کی جانب سے عصمت دری سے متعلق واقعات پر ممکنہ جائزے کے حوالے سے شیڈو رپورٹ کی حیثیت رکھتی ہے اور اب اسے ارکان پارلیمنٹ کو پیش کیا جائے گا۔ CWJ کی ڈائریکٹر ہیریٹ وسٹرچ کا کہنا ہے کہ اگرچہ قانون کے تحت پولیس اور پراسیکیوشن پر عصمت دری کے واقعات کی موثر تفتیش کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اس قانون کی کھلی خلاف ورزیوں کے واضح شواہد موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری رپورٹ سے عصمت دری کے واقعات کی تفتیش اور پراسیکیوشن کے نظام کی بری طرح ناکامی کا اظہار ہوتا ہے۔ کرمنل جسٹس سسٹم کی اس ناکامی سے عصمت دری کرنے کے عادی ملزمان اور زن بیزار لوگوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور ان کا نشانہ بننے والی خوفزدہ خواتین کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کرمنل جسٹس کے اداروں میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں کے سربراہوں کو پوری طرح جوابدہ قرار دیا جاسکے اور اس کے تحت کام کرنے والے تمام افراد کو عصمت دری کے کلچر کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کا ذمہ دار بنایا جاسکے۔ کرائون پراسیکیوشن سروس کے موسم گرما میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2019 اور 2020 کے دوران عصمت دری کے صرف 1,439 مبینہ ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں جبکہ ایک سال قبل اس الزام میں سزا پانے والوں کی 1,925 تھی، اسی طرح پراسیکیوشن کے مکمل کردہ مقدمات کی تعداد میں بھی نمایاں ریکارڈ کی گئی، یہ تعداد 2019 اور 2020 کے دوران 2,102 تھی جبکہ 2018/19 کے دوران یہ تعداد 3,034 تھی۔ رپورٹ میں انصاف کی راہ میں حائل مختلف دشواریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں یہ خیال بھی شامل ہے کہ عصمت دری کا نشانہ بننے والی خود اس کی دعوت دیتی ہیں یا ایسا بھڑکیلا لباس زیب تن کرتی ہیں، جس کی وجہ سے عصمت دری کی ترغیب ملتی ہے۔ دوسری طرف موبائل فون کے میسیجز کی اسکروٹنی کی وجہ سے بھی عصمت دری کے واقعات میں کمی ہوئی ہے کیونکہ ان میسیجز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم کو یقین ہوتا ہے کہ اس کی شکار جنسی تعلق کیلئے تیار ہے جبکہ میڈیکل شواہد اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان سابقہ رپورٹوں میں سب سے اہم بات سفارشات کے بنیادی نکات میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے کہ وہ عصمت دری سے متعلق واقعات کی تفتیش اور پراسیکیوشن کی موجودہ پالیسی کی بڑی حد تک توثیق کرتے ہیں اور صرف اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس پالیسی پر پوری طرح عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی ناکامیاں بہت پرانی ہیں جس کا اندازہ اس کا جائزہ لینے کیلئے کمیشنز کے قیام اور حکومت اور دیگر اتھارٹیز کی جانب سے اس پر تشویش کے اظہار سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اس حوالے سے تبدیلیوں کیلئے اقدامات کرنے اور اس کیلئے ضروری وسائل کی فراہمی کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں کچھ سفارشات بھی شامل ہیں جن میں عصمت دری کے مقدمات میں متاثرہ خاتون جنسی پس منظر کی طویل جانچ پڑتال نہ کرنے، پولیس اور سی پی سی میں جنسی جرائم کی تفتیش کیلئے مضبوط افسران کی تعیناتی، غریب اور بے سہارا خواتین کیلئے خصوصی سپورٹ سروس سنگین جنسی جرائم کی تفتیش اور پراسیکیوشن پر نظر رکھنے کیلئے علیحدہ وزارت کے قیام کی سفارش شامل ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ عصمت دری کا نشانہ بننے والی خواتین جسٹس سسٹم سے کیا توقع رکھتی ہیں اور اس کی روک تھام اور مداخلت کے کیا طریقہ کار زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم بورس جانسن کی منگیتر کیری سائمنڈز نے، جو ایک جنسی حملہ آور جوان وار بوائے کا نشانہ بنی تھیں، پہلے کہا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ، پراسیکیوٹرز اور پولیس عصمت دری کے ملزمان کو کٹہرے میں لانے کیلئے مناسب اقدام نہیں کرتے، انھوں نے عصمت دری کے ملزمان کے خلاف استغاثہ کے قائم کردہ مقدمات کی کامیابی کو نامناسب قرار دیا تھا اور عصمت دری کے واقعات کے نام نہاد سرسری دفاع کا سلسلہ ختم کرنے پر زور دیا تھا۔