لاک ڈائون کے بعد

November 30, 2020

رابطہ … مریم فیصل
جب کوئی اپنا قریبی کورونا وائرس کا شکار ہو کر اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے تب یہ یقین بڑھ جاتا ہے کہ واقعی دنیا اس وقت کسی وبا کی لپیٹ میں ہے ۔اس وقت ہم سوچتے ہیں کہ کون ہیں وہ لوگ جو کورونا کو سازشی تھیوریز مان رہے ہیں جبکہ کتنے گھر اپنے عزیزوں کو کھو چکے ہیں ۔ برطانیہ میں دو دسمبر کو لاک ڈاون کے اختتام کے ساتھ ہی ٹیئر سسٹم بحال کردیا جائے گا جو بقول وزیراعظم بورس جانسن بہت لوگوں کے لئے ہاٹ بریک اور مزید ڈپریشن کا سبب بنے گا ۔ یہ درست بھی ہے کیونکہ مزید پابندیاں جھیلنے کو کوئی تیار نہیں اور کرسمس کا تہوار بھی آرہا ہے ایسے میں شاپنگ اور ملنے جلنے کا مزا ہی الگ ہوتا ہے لیکن اس سال شاپنگ صرف آن لائن کی جا سکے گی اور تہوار کے لئے رشتے داروں سے ملنے کے لئے صرف پانچ دن ہی دئیے گئے ہیں۔ کتنی سختیاں اور پابندیاں ہیں جو برطانیہ میں رہنے والے کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے ہیں لیکن اس عالمی وبا نے میل جول میں فاصلوں کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے ۔ لوگ اپنے پیاروں سے مل نہیں سکتے اور تہوار کی خوشیوں کو اپنے طور طریقوں سے منانے سے بھی قاصر کر دئیے گئے ہیں ۔لیکن اسی میں سب کی بہتری ہے کیونکہ آج کی پابندیاں کل کا سکون ہے اور یہ وہ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو اس وبا میں اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لئے کھو چکے ہیں ۔اس لئے ابھی بھی احتیاط کرنا ضروری ہے اور خاص کر ان پانچ دنوں میں جو برطانوی حکومت نے لوگوں کو تہوار منانے کے لئے دئیے ہیں ۔ کیونکہ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ پانچ دنوں میں وائرس چھٹی لے کر گھر میں نہیں بیٹھے گا بلکہ وہ دن وائرس کے لئے بھی شکارکا اچھا موقع ہوگا ۔ جتنا ملنے جلنے میں بے احتیاطی برتی جائے گی اتنا ہی وبا کا زور بڑھے گا۔جتنا لوگ گھروں سے باہر جائیں گے اتنے ہی کورونا کے مریض بنیںگے۔ ایسے میں صبر کے لئے یہ خیال اچھا ہے کہ اب جبکہ ویکسنز کے کامیاب ٹرائیلز بھی ہو چکے ہیں تو یہ پابندیاں زیادہ عرصے تک برقرار رہنے کے حالات بھی تبدیل ہوجائے گی۔ایک بار ویکسنز لگنے کا عمل شروع ہوا تو کم از کم اتنا ضرور ہو گا کہ وائرس کی منتقلی کا عمل سست ہوجائے گا ۔اور پھر بورس جانسن جو خود دو بار سیلف آئسولیشن کے دور سے گزرے ہیں، ایک بار خود وائرس کا شکار ہوکر اور دوسری بار وائرس کا شکار ہونے والے ایم پی کے قریب کانٹیک میں ہونے کی وجہ سے آئسولیٹ ہوئے ۔وہ ان پابندیوں کو تین فروری تک ختم کرنے کا عزم کھتے ہیں اور خود تنقید کا شکار بھی ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی کابینہ کے وہ ایم پی جن کا حلقہ ٹئیر تھری میں شامل کیا گیا ہے وہ اس ہفتے ہونے والی ووٹنگ میں ان پابندیوں کو نہ ماننے کا ارادہ ظاہر کر کے وزیر اعظم کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں کیونکہ وہ ایم پی اس نظام کو تفریق مان رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پابندیوں میں مزید نرمی کی جائے تاکہ لوگوں کی نقل و حرکت آسان ہو لیکن چونکہ لیبر پارٹی حکومت سے مشورے کے بعد ہی کسی فیصلے پر پہنچنے کا عندیا دے رہی ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ٹئیر سسٹم بنا کسی رکاوٹ کے بحال ہوجائے ۔ بہر حال نظام کوئی بھی ہو احتیاط پھر بھی بہتر ہے۔