پیپلز پارٹی اور غریب کا چولہا

November 30, 2020

تحریر: ابرار میر۔ لندن
پاکستان نے 1965کی جنگ جیتی مگر جنرل ایوب نے تاشقند معاہدہ عوامی توقعات اور خواہشات کے برخلاف کیا تو 38 سالہ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو نے 1966 میں وزارت چھوڑی اور عوام میں آکھڑے ہوئے۔ ایک سال بعد پیپلزپارٹی بنائی اور بانی چیئرمین بنے جب کہ جنرل سیکرٹری ایک بنگالی مفکر جے اےرحیم بنے جنہوں نے منشور اور پیپلزپارٹی کے چار ستون اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، مساوات ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہے لکھا جو نو دسمبر 1967 کو جاری ہوا۔ قارئین اس بنیادی اور اہم ترین نقطے کو سمجھیں کہ قائدعوام شہید ذوالفقار بھٹو اگر بنگالیوں سے محبت نہ کرتے تو جے اے رحیم کو پارٹی کی انتہائی نمایاں پوزیشن نہ دیتے اور اس بات سے سقوط ڈھاکہ کے زمہ داروں کا بھی پتہ چلتا ہے جنکے نام حمودالرحمن کمیشن میں آچُکے ہیں۔ پھر قائدعوام نے عوام کے حقوق کیلئے نہ صرف وزارت چھوڑی بلکہ ایک لازوال بنیادوں پر پیپلزپارٹی بنائی۔ 1971میں ہم نے جنگ ہاری مگر وہی عوامی رہنما بھٹو نے ٹوٹے پھوٹے اور شکست خوردہ ملک و قوم کو نہ صرف متحد کیا بلکہ مذاکرات کرکے دشمنوں سے بہت کچھ واپس لے لیا جب کہ ایوب جیت کر بھی مزاکرات میں ہارا تھا یوں تو پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ پاکستانی قوم کے لئے دیا مگر حقیقت میں یہ نعرہ آج تک تیسری دنیا کی بنیادی ضرورت ہے، ذوالفقار علی بھٹو پسے ہوئے طبقے کی جاندار آواز اور امید بنے اور استحصالی نظام کیخلاف لڑ گئے۔ مسئلہ کشمیر پر پارٹی بنائی، پنجاب کے دل لاہور میں بنیاد رکھی اور جمہوریت کو پیشے کی حیثیت دے دی، نائی، موچی، کسان، مزدور جیسے طبقے کو نہ صرف حقوق کی سوچ دی بلکہ انہیں عوامی نمائندگی بھی دلوائی، اب ذوالفقار علی بھٹو ہر جھونپڑی اور دل دماغ کا مکین بن گیا، میلے کچیلے کپڑوں والا بھی بڑے بڑے نوابوں اور وزرا کو اونچی آواز میں سوال کرنے لگا اور پاکستان بدل گیا یعنی مثبت بہتری آگئی۔ صہیونی طاقتوں کو ذوالفقار علی بھٹو ایک آنکھ نہ بھائے اور ان کی جان لے کر یہ سمجھا کہ پیپلزپارٹی ختم ہوگئی مگر پھر بیگم نصرت بھٹو اور بعد میں اپنے پاپا کی پیاری بیٹی پنکی اور بھٹو کے نام اور نظرئیے کو جلا بخشنے والی بینظیر بھٹو نے جمہوریت کا عَلم تھامہ اور عوام ایک بار پھر زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگانے لگی۔ اسلامی دنیا کی پہلے خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا اور میدان جنگ میں عوام کےلئے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا،پھر مرد حر آصف علی زرداری نے نہ صرف پارٹی کو ٹوٹنے سے بچایا بلکہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان کو بڑے سانحہ سے بھی محفوظ کرلیا، ان کے دور میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور حزب اختلاف نے خوب حملے کیے مگر وہ اپنی زہانت اور دور اندیشی سے تاریخی کارنامے سرانجام دے گئے، اب بات پہنچ چکی ہے ایک اور نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو تک کہ جو اپنے نانا اور والدہ محترمہ کی شہادت، کارکنوں کی قربانیوں اور ہر قسم کی ازیتوں کو دیکھتے ہوئے بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر صرف اور صرف ملک و قوم میں جمہوریت کی سربلندی کیلئے میدان میں ہے۔ اس نوجوان چیئرمین نے 2018 کی انتخابی مہم، اسمبلی میں مثبت کردار اور گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں عوام کو پھر بھٹو یاد دلا دیا۔ بلاول بھٹو نے بتایا کہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کو اس دن سب سے زیادہ خوش دیکھا کہ جب بلاول بھٹو کو یونیورسٹی میں داخلہ ملا تھا تو یہ پیغام ہے پاکستانیوں کو کہ تعلیم ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے، ان سے ایک اور سوال کیا گیا کہ آپ وزیراعظم بن گئے تو پہلا کام کون سا کرینگے تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ بینظیر اِنکم سپورٹ میں اضافہ کرینگے اور اسے مزید بہتر بنائینگے، یہ جواب اور جذبہ سن کر پاکستانیوں اور تیسری دنیا کی عوام کو پتہ چل جانا چاہیے کہ پیپلزپارٹی اور غریب کے چولہے کا رشتہ لازم و ملزوم ہے، اس گھرانے میں خوشی دھائیوں بعد آتی ہے اور اب بی بی بختاور بھٹو کی منگنی ہے مگر والد محترم ناسازی صحت کی وجہ سے ہسپتال اور اکلوتا بھائی عوامی حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے کورونا میں مبتلا ہوگیا مگر جیالے خوشی کے نعرے لگا رہے ہیں، آفرین ہے اس جمہوریت پر کہ جو ذوالفقار علی بھٹو،53 سالہ پیپلزپارٹی اور چولہے کا رشتہ ٹوٹنے نہیں دیتی۔