پاکستان میں سالانہ40ہزارخواتین بریسٹ کینسرسے مرجاتی ہیں،ماہرین

November 30, 2020

اسلام آباد،راولپنڈی،( وقائع نگار،اپنے نامہ نگار سے ) عالمی سطح پرخواتین میں بریسٹ کینسرکیخلاف شعور بیداری اور تدارک کی کوششوں کے حوالے سےکامسیٹس کےزیراہتمام ویب نار میں شریک ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 90ہزار نئے تشخیص شدہ کیسز میں سے40ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، ان میں سرطان کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہےاور یہاں ہر10میں سے ایک خاتون کواس مرض کا خطرہ لاحق ہوتا ہے،محققین کے مطابق پہلی سٹیج پرمریضہ کے تندرست ہونے کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں لیکن جب بیماری کی شدت چوتھے یعنی آخری مرحلے میں داخل ہو جائے تو پھر جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے، ویب نار کا موضوع “چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی ،امید دیجئے ،زندگیاں بچائیے” تھا، ویب نار میں ماہرین اوردیگر شرکاء نے آن لائن شرکت کی ،کامسیٹس کی مشیر (ریٹائرڈ سفیر) فوزیہ نسرین نے کہا کہ ابتدائی تشخیص ،مناسب طبی سہولیات تک رسائی اور بروقت نگہداشت کینسر کے کنٹرول کے اہم اور بنیادی اصول ہوتے ہیں، ڈبلیو ایچ او پاکستان کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ثمینہ نعیم نے موذی مرض سے متعلق معاشرے میں پائے جانیوالے دقیانوسی تصورات اور توجیہات سے جان چھڑانے کی اہمیت کو اجاگر کیا، پمز ہسپتال اسلام آباد کے شعبہ ریڈیالوجی کی ڈاکٹر فرحین رضا نے کلیدی خطاب میں کہاکہ معاشرتی امراض اور خواتین کی بیماریوں سے منسلک بدنامی کے عنصر پر قابو پانے کیلئے مرکوز اور چھوٹے گروپس میں مباحثوں سمیت، کمیونٹی پر مبنی صحت کے بارے میں تعلیم کی اشد ضرورت ہے، فیڈرل بریسٹ کینسر اسکریننگ سنٹر پمز کا پہلا عوامی مرکز ہے جو معاش سے وابستہ سماجی طبقے کی خواتین کیلئےسکریننگ (میموگرافی )کی مفت سہولت پیش کرتا ہے، انہوں نے مرض کی مکمل اور جامع تشخیص پر مبنی ایک بریسٹ کینسر کلینک کی تجویز پیش کی جہاں پر مریض خواتین کی مالی ، ثقافتی ، ذہنی اور جسمانی ضروریات کو ایک ہی چھت کے نیچے علاج معالجے کی تمام سہولیات کیساتھ دیگر مسائل کے فوری حل کا بھی اہتمام ہونا چاہئے، پرنسپل میڈیکل آفیسر کامسیٹس ہیڈ کوارٹر اور سیشن کی کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر عظمیٰ فرید نے کہا کہ صرف خواتین میں نہیں بلکہ مردوں میں بھی اس مرض کیخلاف بیداری مہم کی ضرورت ہے ، مرض کے خاتمے اور بحالی کے سفر میں اُنکا کردار یکساں ہونا چاہئے، ملک کےدور دراز علاقوں میں میڈیکل پریکٹیشنرز کیلئے ٹیلی میڈیسن ٹریننگ شروع کی جائیگی تاکہ اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکے، ویب نار کے اختتام پر تمام شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چھاتی کے سرطان کی بہت سی وجوہات میں خواتین کا بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا، غیر متوازن خوراک، ورزش سے گریز، تاخیر سے شادیاں اور غیر صحتمندانہ طرز زندگی بھی شامل ہے، خواتین کو ہر سال ڈاکٹر کے پاس جا کر کلینکل بریسٹ معائنہ کرانا چاہیے،خصوصاً جن خواتین کی عمریں 40سال سے زیادہ ہوچکی ہیں۔