مہر کتنا ہونا چاہیے؟

December 04, 2020

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال :۔ مہر کتنا رکھنا چاہیے اور شرعی مہر کتنا ہوتا ہے؟

جواب :۔مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے، اور کم از کم مقدار دس درہم ہے، جو آج کل کے رائج حساب سےدو تولہ پونے آٹھ ماشہ چاندی کے برابر ہے۔(اس کی قیمت بازار سے دریافت کی جاسکتی ہے)مہرِ مثل عورت کا حق ہے، یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر تھا، اس کا بھی اتنا مہر ہے، لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں، بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اسے ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی۔ استطاعت سے بہت زیادہ یا دکھلاوے کے لیے بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

البتہ اگر شوہر کی استطاعت ہو تو مستحب یہ ہے کہ مہرِ فاطمی مقرر کرلے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ ’’مہرفاطمی‘‘ سے مراد مہر کی وہ مقدار ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اوردیگر صاحبزادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات ؓکے لیے مقرر فرمائی تھی، مہر فاطمی کی مقدار احادیث میں ساڑھے بارہ اوقیہ منقول ہے، اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، تو اس حساب سے مہر فاطمی کی مقدار پانچ سو درہم چاندی بنتی ہے، موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ہے، اور گرام کے حساب سے 1.5309 کلو گرام چاندی ہے۔ مہر کا معجل یا مؤجل مقرر کرنا زوجین کی آپس کی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے، چاہے سارا مہر معجل مقرر کیا جائے، چاہے سارا کا سارا مؤجل مقرر کیا جائے اور چاہے تو مہر کا کچھ حصہ معجل طے کیا جائے اور کچھ حصہ مؤجل طے کیا جائے، یہ تمام صورتیں درست ہیں۔ (فقط واللہ اعلم)