شانِ رسالتﷺ کا تحفظ اور اُس کے ایمانی تقاضے

December 04, 2020

عمران احمد سلفی

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کی شان قرآن پاک میں مختلف مقامات پر بیان فرما کر قیامت تک کے لیے آقائے نامدارﷺ کے مقام و مرتبے کا تعین فرما دیا۔ کہیں والضحیٰ کہہ کر تو کہیں واللیل کی زلفوں کا تذکرہ فرما کر آقاﷺ کی تعریف بیان فرمائی۔ اگر کسی بدبخت نے آپﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی جرأت کی تو ربّ کائنات نے آپﷺ کے نبی ہونے اور جادہ مستقیم پر گامزن ہونے کی بشارت عطا فرمائی اور اعلان عام فرما دیا کہ میرے حبیبﷺ مجھے اس قرآن کی قسم جو حکمتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ کافر بکواس کرتے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے نبی ہی نہیں، میں ربّ کائنات علیٰ الاعلان کہتا ہوں کہ آپﷺ تمام رسولوں کے امام ہیں۔ آپﷺ کی طہارت و پاکیزگی اور بلند کرداری کی گواہی خود خالق کائنات دیتا ہے کہ آپﷺ صراط مستقیم پر گامزن ہیں اور پوری انسانیت کے لیے اُسوئہ حسنہ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔‎

ربّ کائنات نے اپنے حبیبﷺ کا ذکر خیر اس قدر بلند و بالا فرمادیا کہ جب تک اذانوں میں مؤذّن اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرتے رہیں گے، تب تک آقاﷺ کی مصطفائی بھی بلند کرتے رہیں گے، لہٰذا کسی کافر ملحد اور دشمن اسلام کو آپﷺ کی شان اقدس میں ہرزہ سرائی کرنے سے نہ تو محبوب ربّ العالمینﷺ کی فضیلت و بزرگی میں کوئی کمی آئی نہ قیامت تک آسکتی ہے، بلکہ ایسے بدبختوں کے لیے ہمیشہ کی ذلت اور آخرت کا بدترین عذاب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل فرمایا اور قیامت تک کے لیے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا ہے۔ اسی طرح اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی عصمت و عفت کی حرمت و بقا بھی وہی فرمانے والا ہے جس کے لیے وہ ہر دور میں اپنی توحید و رسالت کی حفاظت و پاسبانی کے لیے اُمت محمدیہ میں حب رسولﷺ سے سرشار توحید و شمع رسالت کے پروانوں اور پاسبانوں کو پیدا کرتا رہا ہے اور قیامت تک پیدا کرتا رہے گا۔ صحابۂ کرامؓ نے شاتمین رسول کو بیت اللہ کے پردوں کے پیچھے چھپ جانے کے باوجود جہنم رسید کرکے حرمت رسولﷺ کا حق ادا کیا۔ تاریخ کے ہر دور میں رسول اللہﷺ کے جاں نثاروں نے شانِ رسالت کاعلم بلند کیا ۔

جب متحدہ ہندوستان میں انگریزی سامراج کی زیر سرپرستی ایک شاتم رسول دھرم پال نے آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تو ایک عام محب رسول جو نہ عالم تھا اور نہ ہی فاضل، بلکہ ایک لوہار خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بھری عدالت میں اس دشمن رسول کو جہنم رسید کردیا۔ وکیلوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اسےسزا سے بچنے کی ترغیب دلائی تو اس نے آقاﷺ سے اظہار عقیدت و محبت کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ زندگی میں ایک ہی تو نیکی کی ہے، اسے ضائع نہیں کرسکتا اور انگریز عدالت سے پھانسی کی سزا پا کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوگیا۔ جس پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ ہم تو محض مذاکرے کرتے رہ گئے اور ترخانوں کا بیٹا بازی لے گیا۔ حرمت رسولؐ کی پاسبانی اہل ایمان پر اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر واجب و لازم ہے۔ جیسا کہ خالق کائنات فرماتا ہے:نبیؐ اہل ایمان پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔ (سورۂ احزاب : 6)‎

یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث کے احکام کی روشنی میں اہل ایمان نے شروع سے آج تک نہ کبھی کسی شاتم رسول کو برداشت کیا ہے اور نہ کبھی کریں گے۔ ان شاء اللہ ۔‎

کچھ عرصہ قبل ڈنمارک کے ایک اخبار نے ایک متعصب مصنف اور ایڈیٹر کے ایما پر بعض خاکے بنائے تھے،خاکے شائع کرکے اپنی اسلام دشمنی اور آقاﷺ سے یہود و نصاریٰ کے دیرینہ حسد و بغض اور عناد کا کھل کر اظہار کیا ، اب فرانس نے اپنے تعصب، نفرت ،کا اظہار کرکے دنیا کا امن تباہ کرنے کابیڑا اپنے سرلیا ہے ، جس میں گستاخانہ خاکے شائع کیے یہ ایک ناپاک جسارت اور دنیا بھر کے غیور مسلمانوں کی دینی غیرت کو چیلنج تھا۔‎مسلم عوام نے ان ممالک کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے رحمت عالمﷺ سے اپنی سچی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ ‎

عوامی سطح پر تو تمام مسلمان ان مذموم خاکوں کی اشاعت پررنج و غم کی تصویر بنے سراپا احتجاج ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا اس طرح کی ناپاک جسارت کے سدباب کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے ۔یہ ہماری دینی غیرت کا بھی تقاضا ہے،اور ہمارے ایمان اور رسول اللہ ﷺ سے عقیدت و محبت کی بنیاد بھی۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے:۔

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا ،لوح و قلم تیرے ہیں‎

نوباتوں کا حکم…!

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے میرے پروردگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے:

(۱) ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرنا، (۲) انصاف کی بات کہنا غصے اور رضا مندی میں(ہر حال میں)، (۳) افلاس اور دولت مندی دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا، (۴) جو مجھ سے قطع تعلق کرے، میں اس سے قرابت کو قائم رکھوں، (۵) جو مجھے محروم رکھے، میں اسے دوں، (۶) جو شخص مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دوں، (۷) میری خاموشی غور و فکر پر مبنی ہو، میرا بولنا ذکر الٰہی ہو، (۸) میرا دیکھنا عبرت کے لیے ہو، (۹) اور میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘( مشکوٰۃ ،باب البکاء والخوف)