کفالتِ عامہ اور ضرورت مندوں کی مالی امداد

December 04, 2020

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشاد رب العزت ہے:اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ\۔بےشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تم (اپنی تنگ دستی کے باعث) ان (مستحقین) سے گریز کرنا چاہتے ہو اپنے رب کی جانب سے رحمت (خوش حالی) کے انتظار میں جس کی تم توقع رکھتے ہو تو ان سے نرمی کی بات کہہ دیا کرو اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔ بےشک آپ کا رب جس کے لئے چاہتاہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بےشک وہ اپنے بندوں (کے اعمال و احوال) کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے۔(سورۂ بنی اسرائیل ، آیات:۲۶ تا ۳۰)

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرابت داروں، محتاجوں اور مسافروں کے حق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی ہے، اور ان کی مالی اعانت سے حوالے سے لوگوں کو متوجہ فرمایاہےاور ارشاد فرمایا کہ اپنا مال فضول خرچی اورشاہ خرچی کے کاموں میں نہ اڑاؤ، بلکہ اپنے قریبی عزیز و اقارب، والدین، بیوی بچوں، بہنوں بھائیوںکی حقیقی ضروریات پر خرچ کرو۔ اسی طرح ان کے علاوہ دیگر ضرو ت مندوں ، محتاجوں اور مسافروںکی مالی طور پر امداد کرو۔ ایسے لوگوں کو حدیث میں قابل رشک قرار دیا گیا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’صرف دوہی لوگ قابل رشک ہیں، ایک تو وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کیا اور اسے خیروبھلائی اورنیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق دی۔ دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل ودانائی اور معاملہ فہمی دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق درست فیصلے کرتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے‘‘خصوصاً اہل و عیال کی ضرویات پر خرچ کرنے کو حدیث میں صدقہ شمار فرمایا گیا ہے۔

صحیح بخاری میںہے، سیدنا ابومسعود انصاری ؓنبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان اپنے اہل و عیال پر اللہ کا حکم ادا کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اسے اس میں صدقہ کا ثواب ملے گا‘‘۔

اسی طرح ضرو ر ت مندوں پر خرچ کرنے والوںکی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے،صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے ساتھ (اچھا) سلوک کرنے والا ایسا ہے، جیسا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا یا جیسے رات کو عبادت کرنے والا اور دن کو روزہ رکھنے والا‘‘

اس کے علاوہ ان آیات میں لوگوں کو متنبہ کیا گیا کہ اگر تنگ دستی کی وجہ سے تم کسی کی مالی اعانت نہیں کر سکو تو ان سے سختی سے بات نہ کرواوران کی دل آزاری نہ کرو، بلکہ انہیں کسی مناسب وقت تک کے انتظار کا کہہ کر نرم بات کرو۔ آگے خرچ کرنے کاانداز بتایا کہ جب مالی وسعت ہو اور لوگوں کی ضروریات کے حوالے سے مدد کے طور پر خرچ کرنے کا جذبہ ہو تو اپنا ہاتھ اتنا کھلا نہ کرو کہ سب کچھ دے بیٹھو اور پھر ایمان کی کمزوری کی وجہ سے تنگ دستی کارونا رؤو۔ اور نہ اپنا ہاتھ اتنا پیچھے کھینچو کہ بالکل گلے ہی سے لگا لو ، بلکہ درمیانی روش اختیا ر کرو۔

آگے آیت میں فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ،وہ جس کے لئے چاہتاہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ کر دیتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوںکے اعمال و احوال کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے کہ کون مال کے حقوق ادا کرتے ہوئے اسے اللہ کے راستے میں ، خیر کے کاموں میں اورصدقات و خیرات کے مصارف میں استعمال کر رہا ہے اور کون اس کو گناہ و معصیت کے کاموں میں ، ذاتی شاہ خرچیوں میں لُٹا رہا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، سو ان میں سے اللہ کو سب سے پیارا شخص وہ ہے جو اُس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:’’جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دُور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی سترپوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی سترپوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء)

ارشادِ ربانی ہے:’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسائے سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور اُن خدمت گاروں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔ (سورۃالنساء :۳۶)

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کے مطالبے کے فوراً بعد جس فریضے کا ذکر کیا جارہا ہے، وہ والدین کے ساتھ احترام، خدمت اور بھلائی کا رویہ ہے۔ پھر اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اجتماعیت کی روح پیدا کرنے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اقربا جو رشتہ دار بھی ہوں اور پڑوس میں بھی ہوں، اور پھر وہ جو رشتہ دار تو نہ ہوں، لیکن صرف پڑوسی ہوں، پھر جو مستقل پڑوسی نہ ہوں، بلکہ وقتی طور پر پڑوسی بن گئے ہوں ، ان سب کے حقوق ہیں۔

نہ صرف یہ بلکہ گھر کے خدمت گار ہوں، یا جن پر ایک شخص کو حاکم بنادیا گیا ہو، اس کے تمام ماتحت، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اور ان کی خدمت اختیار کی جائے تاکہ صحیح اجتماعیت معاشرتی فلاح کی ضامن ہو۔معاشرے کے بے بس، ضرورت مند افراد کی امداد اور مصیبت زدہ افراد کو وسائل فراہم کرنا اللہ کی مخلوق کے حقوق میں شامل ہے۔ یہ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے، بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرنے کی ایک شکل ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورۃ البقرہ آیت177)

سورۃ البقرہ ہی میں ارشاد ہے’’ (لوگ) آپﷺ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک، اللہ تعالیٰ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ 215)

نبی کریم ﷺ نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا، بلکہ عملی طور پر آپﷺ خود بھی ہمیشہ غریبوں ،یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے۔ایک مرتبہ آپﷺ مسجد نبوی میں صحابۂ کرام ؓکے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپﷺ کے پاس آئی ، آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنیں اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر مطمئن کر کے بھیجا۔

حدیث نبویﷺ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ،وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔

ارشاد نبویﷺ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا) رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: تمہارے خادم (محتاج )تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے۔پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو ،توجو کھانا خودکھائے، اس میں سے اسے کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے ،ویسا ہی اسے پہنائے اور اس سے ایسی مشقت نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اوراگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اس کے سپر د کر ے تو خود بھی اس کی مدد کر ے۔ (بخاری ومسلم)

’’کورونا وائرس‘‘ کی عالمی وبا سے پوری دنیا پریشان ہے۔ وطنِ عزیز میں لائحہ عمل کےطور پر لاک ڈاؤن چل رہاہے، ضرورت مندوں کے لئے کسی منظم منصوبہ کے نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں ضرورت مند متعدد قسم کی ضروریات کے لئے محتاج بنے ہوئے ہیں، ایسی نازک صورتِ حال میںریلیف کا کام کرنا اور غریبوں کی مدد کرنا یقیناً بہت اہم اور نیک عمل ہے۔دین ِ اسلام کودنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز اور انفرادیت حاصل ہے کہ اسلام میں جہاں عبادات کو بنیادی اہمیت دی گئی،وہیں معاملات اور اخلاقیات بھی دین میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔اسلامی فلسفۂ حیات کے مطابق حقوق العباد کو حقوق اللہ پر دہری اہمیت حاصل ہے۔

سورۃ المائدہ میں ارشاد ربانی ہے’:’اے ایمان والو! نیکی اورپرہیزگاری(کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو‘‘۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ِگرامی ہے: لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے“۔(جامع ترمذی) مخلوق خدا کے مالی حقوق ادا کرنا، ان کے کام آنا، ان کے مصائب و آلام کو دور کرنا، ان کے دکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم خواری اور شفقت کرنے پر شریعت نے زور دیا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:رحمت کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔(صحیح مسلم) دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیںاپنے مالی حقوق کو کامل طریقے سے ادا کرنے اوراللہ کے راستے میں اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق نصیب فرمائے( آمین یا رب العالمین)