عالمی ادبی ماسک کانفرنس

December 05, 2020

کراچی میں ادبی میلہ سج چکا ہے۔ کووڈ کی وجہ سے تنہائی اور بے بسی کی اذیت سے گزرنے والے ادیب، شاعر، صحافی ہر فکر اور غم کو ہوا میں اڑا کر کراچی پہنچ چکے ہیں۔ جب کہیں کچھ نہیں ہورہا تو تمام ایس او پیز کے ساتھ آرٹس کونسل نے کانفرنس کا انعقاد کر کے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ خوف اور ڈپریشن کی جھگی سے نکلیں، ماسک، سینی ٹائزر اور سماجی فاصلے کو حصار بناکر خطرے کو ٹالیں اور وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی کا اجاڑ صحن آباد کریں۔ یہاں جو انتظامات تھے اور جس سختی سے ان کی پابندی کرائی گئی وہ اس سے بیشتر دیکھنے میں نہیں آئی۔ سب کو ایک سیٹ چھوڑ کر بٹھایا گیا۔ درمیانی سیٹ پر لکھ کر تنبیہ کی گئی تھی کہ بیٹھنا منع نہیں بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ شرکاء خود بھی ڈٹ کر احساس کر رہے تھے۔ ابتدائی سیشن میں ماسک نے عجب ہم آہنگی کا کردار ادا کیا۔ سب ایک جیسے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں تھیں۔ دلوں کی بات کرنے والوں کے لئے آنکھیں پڑھنا مشکل نہیں ہوتا۔ پھر بھی اکثر جان پہچان والے انجان بن کر پاس سے گزرتے رہے اور پہچان لینے والے حیرت سے دیکھتے رہے۔ جب چہرے ماسک تلے چھپ گئے تو آواز شناخت کا سبب بنتی رہی۔ موضوعات کی رنگا رنگی اور وسعت کے حوالے سے کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ کانفرنس دنیا کی سب سے بڑی ادبی کانفرنس ہے۔ یہ ایک میلہ ہے جس میں ادب و ثقافت اور زبان سے جڑت رکھنے والا ہر شعبہ شامل ہے۔ جدید لہجوں کو قبولنے اور پرکھنے کے ساتھ ساتھ پھیکے پڑ جانے والے رنگوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو قدرت کی طرف سے ایسی صلاحیتیں ودیعت ہوتی ہیں کہ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالیں، اسے سونا بنا دیتے ہیں۔ احمد شاہ بھی ایسا ہی کردار ہے۔ زندگی، جذبے اور تحرک سے بھرا ہوا۔ اندر کی توانائی کسی جگہ منجمد ہوکر بیٹھنے کی متحمل نہیں۔ سو اسے خدمت کیلئے قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کی مہارت محبت سے شروع ہو کر احترام پر ختم ہوتی ہے۔ وہ تلخی کے بغیر اپنی ٹیم سے مشکل کام کرواتا ہے۔

کراچی آرٹس کونسل اور احمد شاہ لازم ملزوم ہو چکے ہیں۔ شاید انھیں ایسی تحریکوں کا آغاز کرنے اور انہیں کامیاب بنا کر مثال قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ کر دنیا میں بھیجا گیا ہے جو ادب کی ترقی و ترویج میں نئے راستوں کے ضامن ہوں گے۔ 2008ء میں شروع ہونے والا سفر تیرہ برس کا ہو چکا۔ تواتر اور تسلسل کو کورونا بھی مات نہ دے سکا۔ یہی جذبہ لے کر جب ہم کراچی آرٹس کونسل میں داخل ہوئے تو صحن میں ایک میلے کا سماں تھا۔ احمد شاہ حسب معمول ہدایات اور استقبال کرتے پرجوش نظر آئے۔ صحن میں ایک اسکرین لگائی گئی ہے اور سامنے فاصلہ رکھ کر کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ اندر ہال میں بہت سے شناسا چہرے دیکھ کر دل کھل اٹھا۔ جو وہاں موجود نہیں تھے وہ اسٹیج پر دائیں بائیں لگی اسکرین پر جلوہ گر تھے۔ زہرہ نگاہ، ڈاکٹر قاسم پیر زادہ، سید سردار علی شاہ وزیر ثقافت سندھ، حسینہ معین، ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر سحر انصاری، احمد شاہ، ڈاکٹر شاہ محمد مری، نورالہدیٰ شاہ، زاہدہ حِنا افتتاحی سیشن کے لئے اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ افتخار عارف، شمیم حنفی، یاسمین حمید اور گوپی چند نارنگ کی اسکرین پر ہمہ وقت موجودگی ہال میں موجود ہونے کی طرح محسوس ہوئی۔ افتتاحی تقریر میں آنے والے سال کے کئی نئے منصوبوں کی جانکاری دی گئی۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ ادیبوں نے جان کے خوف کی وجہ سے ادب و ثقافت کو فراموش کرنا گوارا نہ کیا خصوصاً نفرت اور تقسیم کی فضا میں ادیب کی ذمہ داریاں کچھ اور بڑھ جاتی ہیں۔ ادیب لوگوں کے وجود کا در کھٹکھٹا کر سویا ہوا شعور بیدار کرتا ہے، زندگی کے جمالیاتی پہلو کو متحرک کر کے جمالیات سے حظ اٹھانے اور ایک ایسا نارمل انسان بننے میں رہنمائی کرتا ہے جو معاشرے کی فلاح اور بقا کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ پہلے سیشن کی طوالت کے باعث اگلے تین اجلاس بیادِ آصف فرخی، کتابوں کی رونمائی اور نوجوانوں کا مشاعرہ بھی آب و تاب سے منعقد ہوئے۔ پہلے سیشن کے شرکاء کے علاوہ افضال احمد سید، فاطمہ حسن، وجاہت مسعود، عذرا عباس، مبین مرزا، امینہ سید، نجیبہ عارف، حارث خلیق، ناصر عباس نیئر، ریحانہ روحی، اسد سعید، طاہرہ کاظمی، انور سن رائے، مسعود قمر اور عنبرین حسیب عنبر نے گفتگو کی، خوشبو سے ماحول کو نہال کیا اور اداس بھی کہ اچانک بچھڑ جانے والے آصف فرخی کے دکھ میں ہر دل نے نوحہ پڑھا اور آنکھ نے حسرت کی ہچکی روکی کہ رونا بھی آخر کب تک ساتھ چلتا ہے مگر صبر بھی آتے آتے آئے گا۔ آج ہر سمت نفرت کا دور دورہ ہے۔ ہر طبقے کا فرد اپنے علاوہ کسی کو ماننے کو تیار نہیں۔ نفرت زیادہ خطرناک وبا ہے مگر اس کی ویکسین ادیب کے لفظوں، لہجے اور رویے میں موجود ہے۔ یہ اس کا ہنر ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال میں لاتا ہے۔ ادب و ثقافت انسانی قدروں کے امین ہوتے ہیں۔ لکھ کر خود تک محدود رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ پھول کی خوشبو محصور رہے تو ماحول تعفن کا شکار ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)