قارئین کیا سوچتے ہیں

December 06, 2020

حامدمیر ( 30نومبر2020) دو بیٹیاں ایک کہانی

مزاحمت کے لیے نظریے کا ہونا ضروری ہے، اللہ کرے کہ یہ تصویر حقیقی مزاحمت کی ہو اور پاکستان کا مقدر بھی بدل دے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ مزاحمت کی نہیں بلکہ غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو ۔ (حسیب اللہ خان۔ رحیم یار خان)

حسن نثار (30نومبر 2020) کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا

ملازمین نے اس وقار بخش تنظیم کو نہیں بلکہ پالیسی سازوں نے ختم کیا ہے۔چند لوگ ساری تنظیموں کو تباہی کی طرف دکھیل دیتے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی صحیح سمت پر گامزن ہوتا ہے تو وہی مل منافع میں جا سکتی ہے۔ (ابو اویس۔ سعودی عرب)

انصار عباسی(30نومبر2020) عرب ممالک کو ناراض کرنے کی مہم!

آپ نے بہت درست بات کہی۔ افسوس ہے اس بات کا کہ ہمارے ملک کے سیاستدان کیا کررہے ہیں؟ یہ ہمارے پاکستان کو بالکل اندھی گلی میں دکھیلنے والی بات ہے۔ (سید راشد۔یو اے ای)

ارشاد بھٹی (03دسمبر2020 )ڈار ہارڈ ٹاک!

اصل بے بسی تو ہماری ہے کہ ہم اپنے ملک کے محسنوں اور دشمنوں کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اپنے قیمتی ملک کی عزت کرانے میں ناکام ہیں ہم لوگ۔ (محمد انور خان)

یاسر پیرزادہ (02 دسمبر 2020) جوا کھیلنے کا ’اصول‘

بہترین تجزیہ اور تحریر۔ بہت سے واقعات ایسے ہیں جو اتفاقیہ رونما ہوتے ہیں‘ اس کے باوجود زندگی میں ہم کبھی ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی مسئلے میں ہمیں اپنی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیلنا پڑتا ہے۔ (عائشہ عظیم)

بلال الرشید (02دسمبر 2020) طوفانِ بد تمیزی

آپ نے سوشل میڈیا اور پاکستانی نوجوانوں کے عقلی و نقلی میڈیا کےطوفان بدتہذیبی و بدتمیزی کے سمندر کو کوزے میں بندکرنے کی بارآور کوشش کی۔ کیمرا اور میڈیا کا غلط استعمال بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔(سیدعلی قاضی۔ کراچی)

محمود شام (02دسمبر2020) پی ڈی ایم کیسا پاکستان چاہتی ہے؟

کالم میں آپ نے پی ڈی ایم کے مقتدر راہنماؤں کی قومی ذمہ داری کے حوالے سے جو توجہ دلائی ہے، وہ بہت صائب ہے۔ آپ کی بات سو فیصد درست لیکن جیل میں بیٹھ کر کابینہ نہیں بن سکتی۔ (شیخ عثمان فاروق ۔ملتان)

ڈاکٹرمجاہد منصوری (01دسمبر2020) آذری فتح: عسکری طاقت کی حقیقت کا سبق

آزادی رائے ہونی چاہیے مگر آزادی جھوٹ نہیں۔ اللہ کرے پاکستانی عوام و حکمران بھی اس حقیقت سے روشناس ہو جائیں اور کشمیر کی آزادی ممکن ہو سکے۔ (محمد شہباز، مقبوضہ کشمیر)

عطا الحق قاسمی (03دسمبر2020) مرشد ، ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی!

افکار علوی کی نظم پڑھ کے اشک بار ہو گئے ہم تو۔ واہ !کیا اعلی درجے کی نظم ہے۔ آخر کب تک ہم بازاری سوچ کا شکار رہیں گے۔ پروردگار! ہمارا خیال کرے۔ (شازیہ۔سرگودھا)

رضا علی عابدی (04دسمبر2020) مجھے مولانا نہ کہا جائے

ڈاکٹر کلب صادق مرحوم کے بارے میں معلوماتی تحریر کا شکریہ۔ لیکن ادھر کچھ اور المیہ ہے کہ ہمیں تعلیم کی نہیں بلکہ صرف ووٹرز کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک سب پر رحم فرمائے۔ (صابر احمد۔ کراچی)

فوری توجہ درکار ہے

خیبر پختونخواکو اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کے بلند و بالا پہاڑ جن میں قدرت نے بیش بہا خزانے دفن کر رکھے ہیں۔ بلند پہاڑوں میں گھرا یہ علاقہ قدرت کا عظیم شاہکارہے۔ ایک طرف برف سے ڈھکے پہاڑتو دوسری طرف ڈھلانیں، جنگل، لہلہاتے کھیت، کسی دیوار پہ لگی دیو قامت تصویر کا عکس محسوس ہوتے ہیں۔یہاں لگتا ہے کہ سب اچھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سب اچھا نہیں ہے بلکہ لوگ بنیادی سہولتوں سے تاحال محروم ہیں اورہر نئی حکومت کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں، ساری سہولتیں صرف اور صرف شہروں تک محدود ہیں۔ گائوں کے لوگ آج بھی بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ صحت کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں۔ خیبر بختونخوا کا ایک ضلع مانسہرہ خوبصورتی کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتا،ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہےمگر سڑکیں اس قدر ٹوٹی پھوٹی ہیں کہ کئی دفعہ سیاحوں کی گاڑیوں کو حادثے پیش آچکے ہیں ،صحت کارڈ کی سہولت بھی شہروںتک ہی محدود ہے جب کہ دیہاتی علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں،جہاں پینے کا صاف پانی اور معیاری اسکول بھی نہیں ہیں۔گمبھیر مسائل میں گھرے عوام نے ہر آنے والے امید وار سے ترقیاتی کاموں کی امید لگائی، سر دھڑ کی بازی لگائی، ا میدوارکو کامیاب کروایا، مگر علاقےکے مسائل حل نہیں ہوئے ، منتخب نمائندوں کی عدم توجہی کی وجہ سے تحصیل بالاکوٹ کے بہت سے گاوں دورِ جدید میں بھی دورِ قدیم کا منظر پیش کررہے ہیں ۔ قدرتی طور پر تو یہ علاقے انتہائی خوبصورت ہیں مگر حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث ان کا شمار پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے ۔یوں توان علاقوں کے لوگ جفاکش ہیں ، معاشی اعتبار سے ان کا زیادہ تر دارومدار کھیتی باڑی ، مویشی پالنے اور محنت مزدوری پر ہی ہے ۔عوام کے منتخب نمائندے انتخابی مہم کے دوران خوب سبز باغ دکھاتے ہیں۔ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حلقوں کے عوام کیلئے ان کے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہوتا۔ 2018کے انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بالا کوٹ کے عوام نے معرؤف سیاسی جماعت کو کامیاب کر وایا لیکن وقت گزرتا گیا‘ عوام کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے‘ وہ غلط ثابت ہوئے۔ عوام کو درپیش مشکلات اور مسائل پانی ،بجلی، تعلیم ، صحت، شاہراہیں اور دیگر مسائل کے حل کیلئے منتخب نمائندوں، ضلعی انتظامیہ اور دیگر ذمہ دار حکام کو آگاہ کرنے کے باوجود بھی کوئی سننے والا نہیں۔اب تک علاقے کے عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے جس کے باعث عوام کی مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں ۔آج پاکستان سمیت کئی ممالک میں کورونا وائرس کی وجہ سےمعمولات زندگی بری طرح متاثر ہوچکے ہیں ۔ عوام پوچھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کب حل ہوں گے اور کون عوام کی مشکلات کو آسانی میں بدلے گا؟ عوام پر ظلم ہو رہا ہے مگر پوچھنے والا کوئی نہیں جبکہ عوام کو فوری توجہ درکار ہے۔

(سید ثقلین علی نقوی)