وینز ویلا کا جرات مندانہ اقدام

December 09, 2020

وینزویلا کی حکومت نے ملک پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف عائد اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کے باوجود اپنی نجی کمپنیوں کو کہا ہے کہ وہ پابندیوں کی پروا کئے بغیر ترکی اور ایران کی نجی کمپنیوں سے دو طرفہ تجارت کے سودے کریں۔ صدر نکولس مدورا نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ماضی قریب میں ترکی اور ایران سے ہمارے بڑے سودے ہوتے رہے ہیں۔ فی الفور ہم کرنسی کے بجائے بدل میں سونا دیں گے۔ وینزویلا کے وزیر خزانہ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا امریکہ اور اس کے اتحادی اقتصادی پابندیوں اور ملک میں خفیہ سرگرمیوں کے ذریعے صدر نکولس مدورا کی حکومت ختم کرنا چاہتے ہیں۔

پابندیوں کی وجہ سے امریکی اور یورپی کمپنیاں ہم سے تجارت کرنے سے ڈرتی ہیں ، ترکی اور ایران کی کمپنیوں نے ہم سے تعاون کیا ہے اور وہ امریکی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ہم سے دوطرفہ تجارتی معاہدوں پر راضی ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر نکولس مدورا ماضی کی قومیانہ اور پابند معیشت کی پالیسیوں کو بتدریج کھلی منڈی کی لبرل معیشت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اشیاء صرف کی قیمتوں کو عام سطح پر لانے اور افراطِ زر کو کم کرنے پر کام کر رہےہیں۔

وینزویلا نے جاری حالات میں روس کےصدر ولادی میر پیوٹن سے بھی مدد طلب کی ہے۔ روس بھی اقتصادی پابندیوں سے گزر رہا ہے اور اس کو تشویش ہے کہ وینزویلا میں حزب اختلاف کی قدامت پسند جماعتیں برسراقتدار نہ آجائیں،کیونکہ جنوبی امریکہ میں کیوبا کے بعد وینزویلا کا آخری سہارا ہے جہاں سرد جنگ کے دوران سی آئی اے کا راج زیادہ رہا تھا۔

جنوبی امریکہ کا ملک وینزویلا تیل کی پیداوار، قدرتی معدنیات ، انواع اقسام کی نباتیات اور پرندوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے انقلابی رہنما اور صدر ہوگوشیواز کے انتقال کے بعد وینزویلا کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے شدید احتجاج اور جلائو گھیرائو کا سلسلہ شروع کر دیا،اس اثناء میں سابق صدر شیواز کی سوشلسٹ جمہوری پارٹی کے رہنما نکولس مدورا نے حکومت تشکیل دی مگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے نکولس مدورا کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور احتجاج میں مزید شدت آگئی۔ انقلابی رہنما ہوگوشیواز کے دور میں امریکی سرکاری اور نجی اداروں کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا تھا کیونکہ کیوبا کے بعد وینزویلا نے قدرتی ذرائع اور تجارتی اداروں کو قومیانے اور عوام سبسڈی پر کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے کی پالیسیوں پر عمل شروع کر دیا تھا۔

ایسے میں ’’امریکہ اور امریکی اداروں کی بے چینی فطری عمل تھا۔ تب سے امریکی حکومت نے اپنے خفیہ اداروں کی مدد سے وینزویلا میں سیاسی معاشی اور سماجی بحرانوں کو سرد جنگ کے دور کی طرح بڑھنے کا موقع دیا اور تمام پرانے حربے استعمال کئے گئے۔ اسمگلروں کو موقع دیا گیا کہ وہ اشیاء صرف باہر لے جائیں اور ملک میں قلت پیدا کردیں کیونکہ اگر عوام کو روٹی اور دوا میسر نہ آئے تو وہ سڑکوں پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ امریکہ نے وینزویلا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کھلی حمایت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ملک میں فوجی مداخلت کی دھمکی دیدی اور تب سے وینزویلا میں اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ وینزویلا کی سب سے بڑی آمدنی تیل کی فروخت سے ہوتی ہے، مگر اس پابندی کی وجہ سے ملک کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔

حکومت نے متعلقہ وزارت اور اداروں کو ہدایت کی ہے کہ جو نجی کمپنیاں ترکی اور ایران سے تجارتی معاہدے کر رہی ہیں ان کے کام خفیہ رکھے جائیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ وینزویلا کی معیشت، حکومت و سیاسی حالات کے بارے میں منفی خبریں شائع کر رہا ، اور عوام میں حکومت مخالف جذبات کو ہوا دے رہا ہے، جبکہ صدر نکولس مدورا مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ملک میں مصنوعی بحران پید ا کئے جا رہے ہیں۔ وینزویلا کی بڑی آمدنی تیل کی فروخت ہوتی ہے، مگر اس پر مغرب نے پابندی عائد کر رکھی ہے، اگر دیکھا جائے تو ملک میں کوئی بحران نہیں مگر امریکی پروپیگنڈا اور قدامت پسندجماعتوں کی سازشوں کی وجہ سے عوام پریشان ہیں، تاہم نکولس مدورا نے اپنی سیاسی بصیرت سے ملکی نازک صورت حال کو قابو میں رکھا ہوا ہے، کیونکہ چند برس قبل وینزویلا کے حوالے سے یہ پیش گوئی کی جاتی رہی ہے کہ وہاں عرب اسپرنگ طرز کی اجتماعی تحریک شروع ہو سکتی ہے۔

جس کے بعدیہ تحریک شاید لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کیونکہ لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک میں مہنگائی، بے روزگاری، افراطِ زر اور بدامنی عام ہے۔تاہم چین نے اس براعظم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ چین نے سویابین کی خریداری کے بڑے سودے کر لئے ہیں اور وہ چاول، کافی، کوکو، گنا اور اورنج کے بڑے سودے کر رہا ہے اس کے علاوہ چین کا منصوبہ ہے کہ براعظم میں پیرو، چلی سے وینزویلا تک کا علاقہ ریلوے لائن سے ملا دیا جائے۔ اس حوالے سے بھی امریکہ اور اس کے نجی اداروں کو تشویش ہے۔

واضح رہے کہ سابق سوویت یونین کے دور میں جب سرد جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے لاطینی امریکہ کے زیادہ تر ممالک برازیل، چلی، پیرو، ارجنٹائن، وینزویلا، لوسیویا، ایکوڈور پر ملک میں فوجی آمروں کو حکومت میں مل کر جمہوری قوتوں کا قلع قمع کر دیا تھا۔ سی آئی اے نے ایمزون کے گھنے جنگلات میں کوکین، افیون اور ہیروئن کی اسمگلنگ کو فروغ دینے اور اسمگلروں کے بڑے بڑے گروہوں کی پشت پناہی کرنے کا سلسلہ دراز کیا۔ ان ممالک میں اسلحہ عام کیا اور بے راہ روی، مایوسی اور ظلم وستم میں اضافہ کیا۔ سی آئی اے منظم انداز میں منشیات اور اسلحہ کی فروخت سے حاصل کردہ سرمائے کو براعظم کے ممالک میں جمہوریت اور جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کرتی اور قدامت پسند جماعتوں کی مدد کرتی تھی ،تاکہ خطے میں کوئی جمہوری، انقلابی اور لبرل تحریک کامیاب نہ ہو سکے۔

کیوبا واحد ملک تھا جو امریکی حکومتوں اور سی آئی اے کے لیے ہمیشہ بڑا درد سر بنا رہا۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے امریکہ کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کیوبا کے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں وینزویلا کی جمہوری سوشلسٹ پارٹی کے رہنما ہوگوشیواز سے گہرے دوستانہ تعلقات رہے جو امریکہ کے لیے شروع ہی سے تشویش کا باعث تھے اور کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کے انتقال کے بعد ہوگوشیواز کو بھی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر شیواز نے بھی امریکہ کو پریشان رکھا اور اپنی سوشلسٹ پالیسیوں پر کاربند رہے، جس کو صدر شیواز کے انتقال کے بعد سبوتاژ کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

امریکہ وینزویلا پر اقتصادی پابندیوں کے ذریعے مسائل پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے مگر صدر نکولس مدورا پوری خندہ پیشانی سے ان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور اب تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود انہیں نظر انداز کرتے ہوئے ترکی اور ایران کی نجی کمپنیوں سے سودے کر رہے ہیں۔

لاطینی امریکہ کا پورا خطہ بڑی طاقتوں امریکہ، روس، چین کی سیاست کا محور بنتا جا رہا ہے۔ آگے چل کر امریکہ کو چین کی خطے میں بڑھتی ہوئی تجارتی، اقتصادی اور سیاسی پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور امریکہ کو علم ہے کہ ان حالات میں اس کے مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں جبکہ روس کیوبا میں صدر کاسترو کے انتقال کے بعد صرف وینزویلا کی طرف دیکھ رہا ہے۔

اس کو بھی بخوبی اندازہ ہےکہ اگر وینزویلا میں حزب اختلاف کی قدامت پسند جماعتیں امریکہ کی مدد سے اقتدار میں آجاتی ہیں تو پھر اس کو یہاں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مختصر یہ کہ دنیا کے موجودہ پیجیدہ مسائل میں دنیا کے سامنے بڑے بڑے معرکے ہیں۔ مگر بڑی طاقتیں ماضی کی طرح صرف اپنے مفادات کے حصول کے حصار میں گھری رہیں ،یہ بڑی خطرناک غلطی ہو گی۔ مفادات کے مسئلے سے بات آگے بڑھ چکی ہے۔ اس لئے اب پوری انسانیت کی بقا اور مفاد کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ وینزویلا کے عوام کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے، اس کا جواب دینا ہو گا۔