ساؤتھ ایشین گیمز میں برانز میڈل کا ٹارگٹ لے کر گئی تھی

December 15, 2020

پاکستان نے ایتھلیکٹس کے شعبے میں کئی نامور کھلاڑیوں کو جنم دیا جنہوں نے عالمی اور ایشیائی مقابلوں میںپاکستان کے لئے اعزاز حاصل کئے مگر جو شہرت خاتون ایتھلیٹ نسیم حمید کو ملی وہ کسی کو نہ مل سکی،ڈھاکا میں 2010میں ہونے والے سائوتھ ایشین گیمز میں انہوں نے100میٹرز کی دوڑ میں پہلی پوزیشن کے ساتھ سائوتھ ایشیا کی تیز ترین خاتون کھلاڑی کااعزاز حاصل کیا تو ان کی قسمت ہی بدل گئی،مگر شہرت کی بلندی پر پہنچنے کے باوجود ان کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی، نہ کوئی غرور اور نہ کوئی تکبر آیا، وہ آج اس کھیل میں اپنی اکیڈمی سے نئے کھلاڑیوں کو تلاش اور انہیں گروم کرنے میں مصروف ہیں۔

نسیم حمید کا کہنا ہے کہ100میٹرز ریس میں شرکت سے قبل وہ برانز میڈل کا سوچ کر گئی تھیں مگر دعا گولڈ میڈل جیتنے کی کر رہی تھی۔ قدرت کی مہربانی سے انہیں گولڈ میڈل مل گیا، یہ میرے لئے حیران ضرور تھا، اللہ تعالی نے میری دعا قبول کی تھی، یہ میرے والدین کی دعائوں کا نتیجہ تھا، ہم نے بہت غربت میں زندگی گذاری،مگر غربت میرے حوصلے اور عزم کو شکست نہ دے سکی،میرے والدین نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی، نسیم حمید کا کہنا ہے کہ ڈھاکا سائوتھ ایشن گیمز سے قبل ہیمسٹرنگ انجری کی وجہ سے مایوس ہوکر انہوں نے کیمپ ادھوار چھوڑ دیا تھا مگر فیڈریشن اور دیگر دوستوں کے کہنے پر کیمپ میں گئی اور ٹیم کے لئے میرز انتخاب ہوگیا تھا،اس سال میں قومی ایونٹ میں بھی ہار گئی تھی، سائوتھ ایشین گیمز میں ہیٹ مقابلوں میں کامیابی سے میرے اندر نیا جذبہ پیدا ہوا اور میں نے فائنل مقابلے کے لئے کوالیفائی کر لیا۔

اس اعتماد نے مجھے فتح دلائی، انہوں نے کہا کہ اسکول کے زمانے میں ٹیبل ٹینس اور بیڈ منٹن بھی کھیلتی تھی ، ایتھلیکٹس ایونٹ میں بھی حصہ لیا، سابق انٹر نیشنل ایتھلیٹ محمد طالب نے مجھے آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ،ان کی ٹریننگ کی وجہ سے میں آج اس مقا پر ہوں،انہوں نےکہا کہ پاکستان میں کھیلوں کی تباہی علاقائی سوچ کا نتیجہ ہے، اچھے کھلاڑیوں کو آگے آنے نہیں دیا جاتا،جب تک ہم میرٹ کی جانب نہیں جائیں گے۔

کھیلوں میں نقصان ہمارا مقدر رہے گی،میں نے ملک کے لئے اعزاز حاصل کیا مگر مجھے فیڈریشن ، پاکستان اولمپکس کے حکام کسی بھی قومی کھیل، یا قومی چیمپئن شپ میں مدعو نہیں کرتے، جبکہ دیگر صوبوں کے سابق کھلاڑیوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے ، ایسا کیو ں ہے، کیا میں نے اپنے لئے اعزاز جیتا تھا، ملک کے لئے میری خدمات کو نظر اندا کردیا گیا،انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے مایوس ہوکر میں پشاور کے قومی گیمز میں گولد میڈل جیتنے کے بعد اس کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اب اپنی اکیڈمی سے نئے کھلاڑیوں کو گروم کررہی ہوں۔

جہاں مستحق کھلاڑیوں کو مفت ٹریننگ دی جاتی ہے، صرف 500روپے فیس ان کھلاڑیوں سے لی جاتی ہے جو اسے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے ہم اپنی اکیڈمی کے اخراجات پوا کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بچوں اور بچیوں سے فیس نہیں لی جائے تو وہ کیمپ سے چھٹی بہت کرتے ہیں،اکیڈمی میں تائی کوانڈو، فٹبال کے کھلاڑیوں کو بھی ٹریننگ دی جاتی ہے،جن کو قمر یار خان ،قرت العین تر بیت دیتے ہیں،انہوں نے کہاکہ مجھے پاکستان آرمی سے بہت زیادہ سپوٹ کیا۔

اس ادارے کی نمائندگی سے میرے کھیل میں نکھار پیدا ہوا،فٹنس اسکول،اور پاکستان ریلوے سے بھی قومی سطح پر کھیل چکی ہوں،انہوں نے سائوتھ ایشین گیمز جیتنے کے بعد مجھے جن انعامات کا اعلان کیا گیا تھا اس میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے مجھے اور کراٹے کاز سائرہ ناصر کو فلیٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا جو آج تک نہیں ملا جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا وہ بھی ابھی تک نہیں مل سکا۔

انہوں نے کہا کہ میرے لئے گولڈ میڈل کے بعد سب سے بڑا اعزاز پرائیڈ آف فار منس ایوارڈ ہے جو سابق صدر صدر آصف علی زرداری نے دیا تھا، انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ اپنی اکیڈمی سے ایک اور نسیم حمید پیدا کرسکوں جو ملک کا نام روشن کرے۔