اندھیرے کی چادر، خطرے کی دستک اور زرد رُو بچے

December 16, 2020

یہ تلخ حقیقت ہے کہ بچوں پر جو وار کرتے ہیں، مامتا کا ملال وہ کیا جانیں۔ وہ وحشی تو پیار کی بول چال ہی نہیں جانتے، اس کی ایک نہیں کئی جھلکیاں 2020کے آغاز سے دیکھنے کو ملتی رہیں۔ ہنستے ہوئے بچوں کی چلبلاہٹیں، چیخوں میں بلند ہوتی رہیں۔ لیکن کہیں سے کوئی روشنی، کوئی راگنی امڈ کے نہیں آئی۔ بچوں سے جنسی زیادتی کی پے درپے وارداتیں ہی نہیں ہوئیں، انہیں قتل کرکے کوڑے کے ڈھیر میں بھی پھینک دیا گیا، زندہ جلادیا گیا۔ نگر نگر دہشت و وحشت کے سائے منڈلاتے رہے اور میز پر مذاکرات ہوتے رہے۔

بچوں سے زیادتی کے خلاف قانون کی بازگشت سنائی دی لیکن بچوں کی حالت سدھری نہیں۔ گھر سے مکتب تک علاج معالجے سے رزق کے حصول تک ان کی حالت ابتر ہی نظر آئی۔ کیا ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے بچے ہیں جو ہمارا کل ہیں۔ کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ 2020بچوں پر کتنا بھاری تھا، اس کا اندازہ زیر نظر جائزہ رپورٹ پڑھ کر زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔

کیا آپ نے شکاری کے سامنے تھر تھر کانپتی چڑیا کو دیکھا ہے ۔ کیا آپ نے ایسی تتلی دیکھی ہے جس کے رنگین پروں کو نوچ کر مسل دیاگیا ہو… کبھی آپ نے ہرن کے چھوٹے سے بچے کو دیکھا ہے جسے بھیڑئیے نے بھنبھوڑ ڈالا ہو اور وہ زندہ ہو…کیا آپ نے ڈار سے بچھڑی زخمی کونج کو دیکھا ہے جس کے جسم میں تیر پیوست ہو، کیا آپ نے ان کی وحشت بھری آنکھیں ڈوبتی نبضوں کے ساتھ آہ سنی ہے کیا ان کی بے بسی کو محسوس کیا ہے… نہیں نا… کیوں کہ ا س کے لئے جنگل کی طرف جانا پڑتا ہے… مگر دیکھئے نا۔ غور سے دیکھئے اب تو میرے ملک کا ہر شہر، ہر گائوں ،ہر قصبہ جنگل بن گیا ہے۔ جب کرونا کی وبا کی وجہ سے پوری دنیا حیراں و پریشاں ہورہی تھی ۔

لوگ اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے کی وجہ سے یا بچھڑ جانے کے خوف سے اندر ہی اندر لرز رہے تھے… گھروں میں محصور ہوگئے تھے… اپنے اپنے مذاہب اور عقائد کے مطابق اللہ ، خدا اور بھگوان سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ اپنے گناہوں اور غلطیوں پر معافی کے طلب گار تھے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اموات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا، میرے پیارے ملک پاکستان میں بھی2020کے شروع ہوتے ہی کرونا کی وبا نے اپنے پنجے گاڑنا شروع کئے تو اس وقت جہاں لوگ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے معافی مانگ رہے تھے۔ اپنی اور اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کی سلامتی کی دعائیں کررہے تھے اورجب بازار اسکو ل حتیٰ کہ شہر تک بند تھے، لوگوں کے کاروبار بند تھے، وہ دو وقت کے کھانے کے انتظام کیلئے پریشاں تھے اور اجتماعی طور پر یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وبا کے دن ختم ہوجانے کے بعد سب انسان واقعی انساں بن جائیں گے۔

رفیق القب ہوجائیں گے۔ خوف خدا کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ ایک دوسرے کے ہمدرد بن جائیں گے۔ ہم سب نئے انساں بن جائیں گے اور یہ دنیا بہت خوبصورت ہوجائے گی۔ مگر اس مملکت خداداد میں پتا ہے کیا ہوا… ان سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں جہاں چار پائوں والے جانور پھرتے تھے، دو پائوں والے درندوں اور جانوروں کا تناسب یکدم بڑھ گیا۔ یوں سمجھیں عورتوں اور معصوم بچوں اور بچیوں کے شکار کا موسم شروع ہوگیا… جب ہم اپنے ملک کے بچوں کا ذکر کرتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں کہ وہ ذہنی، جسمانی، روحانی اور سماجی طور پر کتنے آسودہ، کتنے خوش اور کتنے مطمئن ہیں۔ ’’زیادتی اور بدفعلی‘‘ یہ دو چھ حرفی الفاظ کتنے خطرناک ہیں۔ بچھو بن کر ڈسنے لگتے ہیں، سانپ بن کر رینگنے لگتے ہیں اور وحشی بن کر دل میں پنجے گاڑ دیتے ہیں اور وہ بچے جو زیادتی یا بدفعلی کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے ذہن ان کے جسم ان کی روح کو گھائل کردیا جائے ،انہیں زندہ چھوڑ دیاجائے یا قتل کردیا جائے دونوں صورتوں میں کیا واقعی وہ زندہ رہتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا 2020ء کے حوالے سے کہاں سے بات شروع کروں۔ آئینہ نہیں دیکھتے کہ آنسو بنا ہوا ہوں………

میری آواز میری چیخوں کا ساتھ دینے سے انکاری ہے

2020ء کے اواخر میں کیاکچھ ہوگیا۔بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان واقعات کا تسلسل، ایسا لگا کہ ہم جنگل میں رہ رہے ہیں۔ نہیں، مگر جنگلوں کا بھی قانون ہوتا ہے، جبکہ یہاں انسانوں پر کوئی قانوں لاگو نہیں ہوتا … کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں اخبارات اور میڈیا ان خبروں سے محروم ہو… کیسی روح فرسا خبریں تواتر سے پڑھنے کو ملیں……

جنوری 2020 میںKPKکے ضلع نو شہرہ میں آٹھ سالہ حوض نور جو سپارہ پڑھ کر واپس گھر آرہی تھی کہ غائب ہوگئی… اور پھر اس کی لاش پانی کی ٹنکی سے برآمد ہوئی وہ بھی ایسے کہ اس کا دوپٹہ اس کی موجودگی کی نشاندہی کررہا تھا۔ تحقیق پر محلے کا لڑکا پکڑا گیا جس نے اسے زیادتی کے بعد قتل کردیا … جنوری ہی میںمردان کی تحصیل تخت بائی میں سلمان خان 12سالہ بچہ جمعہ کی نماز پڑھنے گھر سے نکلا مگر واپس نہ آیا۔15-10دن بعد کھیتوں سے اس کی لاش ملی جسے جانور بھی کھا چکے تھے۔ ماں باپ نے جوتوں اور کپڑوں سے پہچانا۔ تحقیقات پر پتہ چلا کہ اسے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیاگیا۔ نوشہرہ میںچار سالہ صبا نور کے ساتھ زیادتی ہوئی جوبازار سے چیز خریدنے گئی تھی۔

فروری میں ہیگوس میں 7سالہ خدیجہ کی زیادتی اور تشدد زدہ لاش کھیتوں سے برآمد ہوئی وہ کوئی چیز خریدنے دکان پرگئی تھی… مجرم پکڑا گیا… جو قریبی رشتہ دار ہے۔

راولپنڈی میں انسانوں کے معاشرے میں حیوانیت کی مثال14سالہ بچی جو اپنے والد کے ساتھ رہتی تھی، باپ کے کام پر جانے کے بعد محلے کے لڑکے نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ باپ کو قتل کی دھمکی دے کر خاموش کروادیا، ساتھ ہی اپنے دوست کوبھی اس فعل میں شامل کرلیا۔ محلے کے ایک بزرگ نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو بجائے اس کے کہ ان بدمعاشوں کو روکتے وہ خود بھی اس جرم میں حصہ دار بن گئے۔جب بچی کی طبیعت خراب ہوئی، وہ حاملہ ہوگئی تو تینوں مجرم پکڑے گئے۔ کیا اس ذہنی اور جسمانی اذیت کیلئے کوئی سزا مقرر ہے ۔ پہلے سنتے تھے کہ جب کہیں ظلم ہوتا ہے یا ناحق قتل ہوتا ہے تو آسمان لال ہوجاتا ہے، سرخ آندھی آتی ہے۔ لیکن اب نہ تو آسمان لال ہوتا ہے نہ سرخ آندھی آتی ہے۔ کیوں کہ اب روز قتل ہوتے ہیں، روز ظلم ہوتا ہے۔ اب آسمان ہر وقت تو لال نہیں رہ سکتا نا………

چار سدہ کی دوسالہ زینب50-45سالہ شخص کے ہاتھوں بے آبرو کردی گئی۔ جس نے مرتے وقت اپنا بازو اپنی آنکھوں پررکھ لیا تھا ۔ اس کے سوا اس کے پاس تھا بھی کیا …… ملتان قادر پوراں میں بارہ سالہ بچی سے پڑوسی نے زیادتی کی۔ اوکاڑہ میں خالو نے سالی کی بیٹی کو زیاتی کا نشانہ بناڈالا۔ بچی علاج کے دوران فوت ہوگئی…… زندہ رہ کر کیا کرنا تھا۔چھا چھرو میں14سالہ بچی اجتماعی زیادتی کا شکار ہوگئی۔

شہداد کوٹ میں درندہ صفت شخص نے12سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

مانگا منڈی میں13سالہ بچی3اوباشوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہوگئی۔

ٹنڈو آدم میں6سالہ بچی زیادتی کا نشانہ بنی ، ملزم گرفتار…… امید کہ عدم ثبوت کی بنا پر جلد چھوٹ جائے گا……!!

رحیم یار خاں میں10سالہ بچہ زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔

میاں چنوں میں پانچ ملزمان کی14سالہ لڑکےکے ساتھ زیادتی منڈی منگلاں میں10سالہ لڑکا زیادتی کے بعد گلا دباکر ماردیاگیا۔

خیرپور ناتھن شاہ میں تیسری جماعت کی طالبہ کے ساتھ گھر میں گھس کر زیادتی……

سکھر میں سات سالہ بچی زیادتی کا شکار، قلعہ عبداللہ میں10سالہ طالب علم کی زیادتی کے بعد درخت سے لٹکی لاش ملی۔

ٹنڈو آدم میں مدرسے میں11سالہ طالب علم معلم کے ہاتھوں بدفعلی کے بعد قتل ۔ نوابشاہ میں13سالہ لڑکی کی زیادتی کے بعد سوختہ لاش کھیت سے برآمد، دینا پور میں10سالہ لڑکی سے دونوجوانوں کی اجتماعی زیادتی…

16سالہ مومل میگھواڑ کی زیادتی کے بعد انصاف نہ ملنے پر خودکشی…… اور کشمور کی چار سالہ علیشاہ، پولیس سے کہتی ہے دیکھیں میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس نے دراصل گھنائونے، بدصورت متعفن معاشرے کا چہرہ دکھایا ہے۔ یہ تو چند واقعات ہیں فہرست بہت طویل ہے۔ چند واقعات جو میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ گئے ورنہ نجانے کتنی آہیں، کتنے آنسو، کتنی خاموش صدائیں نظروں سے اوجھل ہیں ۔

یہ خبریں نہیں ہیں یہ ہمارے ہوس زدہ معاشرے کے منہ پر طمانچے ہیں۔ یہ بے حرمت ، بے لباس، اخلاق یافتہ قوم ہونے کا سرٹیفکیٹ ہیں۔ یہ زندہ اور تابندہ قوم کے مستقبل کا نوحہ ہے۔ اب ماں باپ اپنے بچوں کو یہ نہ بتائیں گے کہ یہ تمہارا چچا ہے۔یہ تمہارے ماموں ہیں۔ یہ تمہارے ٹیچر ہیں۔ یہ تمہارے مولوی صاحب ہیں۔ بلکہ یہ بتائیں گے کہ تمہیں ان سے کس طرح بچنا ہے۔

میں نے اپنے آنسو پونچھ لئے ہیں۔ آپ بھی اپنے آنسو پونچھ لیں، کیونکہ یہ بے قیمت آنسو جب تک چنگاری بن کر قانون نافذ کرنے والوں کے دلوں میں آگ نہیں لگادیتے بے وقعت ہیں… ہم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے… اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ اونچے ایوانوں میں کوئی خاص پریشانی نہیں… ہر واقعے کے بعد چند دن ہلچل اور پھر خاموشی چھا گئی……!!!

بچے توزمینپر خدا کے یقین کا استعارہ ہوتے ہیں۔ انہیں تو ذہنی ، جسمانی ، روحانی اور سماجی طور پر صحت مند ہونا چاہیے۔ صحت مند جسم اور صحت مند دماغ ہی صحت مند قوم کی ضمانت ہوتا ہے۔ لیکن ملک میں حالات انتہائی تشویشناک ہیں۔

یونیسف کی رپورٹ کے مطابق2020ء میں نومولودوں کی اموات کاتناسب دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں رہا۔ 100میں سے61بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں مناسکے۔ 1000میں سے78بچے اپنی سالگرہ نہیں مناپائے ۔45فی صد بچے کمزور جسم اور کمزور ذہن کے ساتھ پل کر بڑے ہوئے۔ ہم اب تک پولیو کو شکست نہیں دے سکے ۔2020میں اب تک 80سے زائد پولیو کے کیسز سامنے آچکے ہیں۔

ٹائیفائیڈ کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی اور حیدرآباد میں مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔ پریشان کن بات یہ کہ ٹائیفائڈ کی یہ قسم؟؟؟ یعنی دوائوں کو مات دینے والی ہے یعنی اینٹی بائیوٹکس اس جراثیم پر بے اثر ہیں ٹائیفائڈ کی بڑی وجہ ناصاف غذا اور ناصاف پانی ہے…… صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ڈائیریا بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس وقت بچوں کی اموات کی بڑی وجہ بھی دستوں کی بیماری ہے۔

فضائی آلودگی اور کیڑے مار ادویات کی وجہ سے بچوں میں سانس کی تکالیف بڑھ رہی ہیں ۔ لاکھوںبچے سالانہ اس وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں ،بچوں میں اموات کی بڑی وجہ نمونیہ بھی ہے حالانکہ کرونا کی وبا کی وجہ سے فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوئی، جبکہ دسمبر کے اوائل میں لاہور اور کراچی اسموگ کی وجہ سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو ئے۔ آلودگی کی وجہ سے بچے پیدا ہوتے ہی سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں، الرجی اور اعصابی نشو ونما میں خرابی کا شکار اور قریباً40لاکھ بچے دمے کے مرض میں مبتلا ہیں۔

ماہرین کے مطابق بچوں میں خطرناک حد تک فولاد، وٹامن Aاور وٹامن Dکی کمی پائی جا رہی ہے ،جس کی وجہ متوازن غذا کی کمی اور ملاوٹ شدہ غذا ہے۔ ملک میں سالانہ 5سے9ہزار بچے تھیلسیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں ،کرونا کی وجہ سے تھیلسیمیا سینٹرز میں بچوں کے علاج میں بڑی دشواری پیدا ہو گئی ہے ان سینٹرز کو خون کے عطیات کی کمی کا سب سے بڑا مسئلہ لاحق ہے۔ جیکب آباد میں تھیلسیمیا سینٹر 6ماہ سے بند ہے اور قریباً 400 بجے علاج سے محروم ہیں۔

ملک میں سگ گزیدگی کے واقعات خصوصاً سندھ میں بڑھ رہے ہیں۔ تعداد کراچی اور حیدر ابٓاد میں زیادہ ہے۔ آوارہ کتوں کی بہتات سے لوگوں کا گھروں سے نکلنا دوبھر کر دیا ہے۔ شاید کتا مار مہم شروع ہو جائے اور جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں مخالفت نہ کریں اور کتے کے کاٹے کی ویکسین بھی میسر آجائے اور بچےRabies ریبیز جیسے مرض سے بچ جائیں مگر میرے ملک کے بچوں کو دو پائوں والے کتوں کے کاٹے سے کون بچائے گا؟۔ کرونا جیسی جان لیوا بیماری نے بھی بچوں کا لحاظ کیا ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آبادNational institute of Islamabadکے مطابق کرونا سے7.1بچے متاثر ہوئے،جبکہ اموات کا تناسب0.6فی صدتھا۔ یعنی دو پائوں والے جانوروں نے بچوں کو موت کی نیند سلانے کے مقابلے میں کرونا کو مات دے دی۔

بچوں کی تعلیم پر نظر ڈالیں

2020میں کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند رہے اور تعلیم بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ترقی یافتہ ممالک میں آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رہا یا پھر بچوں نے آن لائن آرٹ کے شارٹ کورسز یا لینگویج کے کورسز کئے۔جبکہ پاکستان میں تعلیم سے محرومی کا منظر نہایت اذیت ناک ہے۔یہاں پہلے ہی دو کروڑ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ اچھے معیاری انگریزی اسکول صرف اشرافیہ کے بچوں کیلئے ہیں جہاں کچھ سفید پوش لوگ اپنے مستقبل کے خوابوں میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی ذاتی زندگی کو بے رنگ کر کے اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں داخلہ دلواتے ہیں۔جبکہ سرکاری اور اردو میڈیم اسکول صرف غریبوں کیلئے ہیں جہاں تعلیم تو مفت ہے مگر معیاری نہیں ہے ۔آئین کے آرٹیکل25-Aکے تحت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ 5سے16سال تک کے بچوں کیلئے تعلیم کا مفت انتظام کرے۔۔کاش…یہ کاش اتنا لمبا ہے کہ سانس اکھڑنے لگتی ہے۔کرونا کی وجہ سے پاکستان میں بھی اسکول بند رہے۔

کچھ پرائیویٹ اسکولوں میں آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رہا،مگر اس کے لئے گھر میں کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ، یا اسمارٹ فون کی موجودگی اور ساتھ ہی تعلیم یافتہ والدین یا کوئی ایسا فرد جسے آن لائن تعلیم کا تھوڑا بہت تجربہ ہو، ضروری تھا۔ساتھ ہی دور دراز علاقوں میں اور شہروں میں بھی بجلی نہ ہونا بھی ایک مسئلہ تھا، مگر زیادہ تر بچے تعلیم سے محرومی کے باوجود اگلی کلاسز میں بھیج دیئے، جہاں پہلے ہی تعلیم کا معیار درست نہیں۔ وہاں اگلی کلاسوں کے کورس بچے کیسے پڑھیں گے؟۔یہ کسی نے نہیں سوچا۔کرونا کے دنوں میں بچوں میں کمپیوٹر گیمز کا تناسب بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مستقل موبائل پر رہنے کی وجہ سے بچوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں لاہور میں ایک بچے نے’’ PUBG‘‘کی وجہ سے خودکشی کر لی …خدا خدا کر کے اسکولز کھلے، SOPsکی پابندی کے ساتھ تو کرونا کی دوسری لہر نے سر اٹھا لیا، کئی اسکول بند کر دیئے گئے۔ اور اب سردیوں کی طویل چھٹیاں ہیں۔ وبا کے دنوں میں والدین نے اپنے طور پر کوشش کر کے بچوں کی ٹیوشنز کا سلسلہ جاری رکھا، تاکہ جو پڑھا ہےوہ بھول نہ جائیں۔پھر ایک دلخراش واقعہ پیش آ گیا ۔ضلع خیرپور کی تحصیل ٹھری میر واہ میں ایک ریٹائرڈ ٹیچر سارنگ شہر کے ستر بچے محفوظ نہ رہ سکے۔ سارنگ شہر نے اپنے گھر میں ٹیوشن سینٹر کھول رکھا تھا۔ جہاں وہ ٹیوشن پڑھنے کیلئے آنے والوں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتا اور ان کی ویڈیوز بنا لیتا۔

دس سالہ ساحل سموں جب اس کا شکار ہوا تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اور آخر کار سارنگ شہر گرفتار ہوا۔ اسے سزا کب اور کیسے ہو گی کسی کو معلوم نہیں۔ پر بچوں کا ٹیچر پر سے جواعتماد اٹھ گیا ہے …کیا وہ واپس حاصل ہو سکے گا …؟

’’اسٹریٹ چلڈرن‘‘..... کسی کو ان کی فکر ہے؟

کرونا کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری اور غربت کا تناسب بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ ملک میں گلی گلی، شہر شہر بچے سڑکوں ،گلیوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔اس وقت ملک میں قریباً40لاکھ سے زائد بچے جن کی عمریں16-10سال ہے۔چائلڈ لیبر کی چکی میں پس رہے ہیں، جن میں70فیصد لڑکے اور 30فیصد لڑکیاں ہیں۔یہ کمسن ’’بالغ‘‘ بچے ورکشاپوں، چائے خانوں، بس کے اڈوں پر کام والے چھوٹے اور بڑے اونچے گھروں میں کام کرنے والی چھوٹیاں طرح طرح کے تشدد برداشت کرتے ہیں، جبکہ اکثر جنسی تشدد کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔

غربت کی وجہ سے اس وقت اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ قریباً 20 لاکھ بچے جن کا کوئی گھر نہیں ہے،کوئی وارث نہیں ہے ،سڑکوں اور دکانوں کے تھلوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔دن کی روشنی میں نظر آنے والے شرفاء رات کے اندھیرے میں ان کا بدترین جسمانی اور جنسی استحصال کرتے ہیں۔

ریاست مدینہ کے دعوے داروں کی آنکھ ہی نہیں کھلتی۔ سندھ میں بچوں کے حقوق اور تحفظ کیلئے چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی دس سال سے موجود ہے، مگر اس کی کارکردگی صفر ہے ۔سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمدعلی نے سیکرٹری سوشل ویلفیئر کو کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے،شاید تعمیل ہو۔ادھر ملک میں کم عمر بچیوں کی شادیوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے، جبکہ سندھ میں18سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی پر پابندی ہے۔ مگر غربت کے مارے والدین شاید پیسوں کے حصول کیلئے یا پھر ’’لڑکی ذات ‘‘ کی حفاظت کے خیال سے جلد از جلد بچیوں کی شادی کر دینا چاہتے ہیں۔

مگر آرذو راجہ کا معاملہ بالکل مختلف ہے اس میں مسیحی برادری کی13-14سالہ بچی کو بالغ ظاہر کر کے مسلمان کرکے 44سالہ شخص سے شادی کروا دی گئی۔کیس عدالت میں ہے۔ لڑکی برآمد ہو چکی ہے۔ اس کی عمر کی بھی تصدیق ہو گئی ہے۔ اور وہ شخص بھی پکڑا گیا ہے اسی طرح لاڑکانہ کی 14سالہ فوزیہ نے اپنی پسند سے اپنے ٹیچر سے شادی کر لی۔ اب وہ بھی عمر کی تصدیق کے بعد لاڑکانہ کے دارالامان میں ہے، اللہ پاک ہدایت دے۔

سال2020 کا حیرت انگیز واقعہ

سرگودھا کے نواحی گائوں میں غیرت کے نام پر 9 سالہ بچے نجم کے ہاتھوں حاتون کا قتل ہے، جس نے دس برس پہلے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔اس شادی کے وقت نجم پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔سوچیں 9سالہ بچہ جسے غیرت کا مفہوم نہیں معلوم غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے۔یہ بھی سوچیں ہم دشمنی اور نفرت میں کس حد تک جاسکتے ہیں اب 9سالہ بچہ اور اسے پستول چلانے کی تربیت دینے والا،دونوں کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے۔

سڑکوں،گلیوں ،بازاروں ،اسکولوں، مدرسوں اور گھروں میں معصوم بچوں کا بچپن اور لڑکپن غیر محفوظ ہے۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق 20ملین سے زائد نا بالغ بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 5 سے 15سال کے بارہ سو سے زائد بچے روزانہ سگریٹ پیتے ہیں۔

اسکا مطلب یہ ہوا کہ سگریٹ کی ڈبیہ پر لکھ دینا کہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے۔ ،ناکافی ہدایت ہے، ہدایت کی تو ملک کے ان بچوں کو بھی ضرورت ہے جو مین پوری، گٹکا اور صمد بانڈ جیسی چیزوں کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں جبکہ اشرافیہ کے بچے ہیروئن، شیشہ اور آئس جیسی منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ بچوں میں ذہنی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ان بچوں میں اشرافیہ کے بچے بھی شامل ہیں۔

جن میں ذود حسی، مایوسی اور خود کشی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ اگر ان بچوں کو بچانا ہے تو والدین کو انہیں وقت دینا ہو گا ۔ توجہ ،محبت اور تحفظ دینا ہو گا ۔ایک مسکراہٹ ،ایک بوسہ، ایک گدگدی اور سینے سے لگا لینے سے بچے کتنا خوش ،کتنا مسرور ،پراعتماد ہو جاتا ہے ۔سوچیں بات کرنا اور گلے لگانا کتنا آسان حل ہے۔

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کےلئے سوچیں کیا، ہم صرف دل میں برا کہہ کر دل میں درد محسوس کر کے،یا معمولی سا احتجاج کر کے یا اخباروں میں میڈیا یا قراردادوں کے اعلان کے بعد مطمئن ہو کر اپنے معمولات میں مصروف ہو جائیں گے۔ نہیں ہمیں چند قدم آگے بڑھ کر اپنے بچوں کو بتانا، سمجھانا، اور پڑھانا ہو گا ،بچوں کے مسائل کا حل ڈھونڈناہوگا۔کیا بچوں کی درسی کتب میں جنسی تعلیم شامل کر کے ؟لیکن وہ بچے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اسکول نہیں جانتے انہیں گڈ اور بیڈ ٹچ کی کیا خبر۔ وہ تو صرف ماں کا لمس پہچانتے ہیں۔

افراد اور قوموں کی زندگی بدلنے کا کوئی پیمانہ ہے تو وہ بچے ہیں۔ ہمارا مستقبل جسے ہم خود بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے لئے جستجو کرنا اور بہترین خواب دیکھنا لازم ہے۔ اندھیرے کی آہٹ اور خطرے کی دستک سنائی دے رہی ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے ایک روشن دن کا اہتمام کرنا ہو گا۔

صحت مند، خوشحال ،پرسکون اور با معنی زندگی گزارنا ہر بچے کا پیدائشی حق ہے اپنے بچوں کی بھرپور حفاظت اور تربیت کریں تاکہ ان کیلئے انکا گھر ،ارد گرد کا ماحول،درسگا اور تفریح گاہیں خوبصورت اور محفوظ ہوں۔ بچوں کو اندھیروں سے بچا کر روشن راستوں کی طرف بڑھانے کا موسم شروع ہوا چاہتا ہے ۔

آئو کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے

ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل

تاعمر بھر کوئی حسین خواب بن سکیں

ایسا مکتب بھی کوئی شہر میں کھولے......آدمی کو جہاں انسان بنایا جائے

وبا کے بعد اسکول کھلے تو جیکب آباد کے نجی اسکول میں پانچویں جماعت کے بچے کو سبق یاد نہ کرنے پر استاد نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس پر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹس لیتے ہوئے محکمہ تعلیم کے آفیسر سے رپورٹ طلب کر لی ہے، آگے کیا ہو گا شاید کچھ نہیں۔

دوسری جانب جوہی میں سرکاری گرلز اسکولوں میں غریب طالبات کو ملنے والا وظیفہ بند کر دیا گیا ہے۔ شاید یہ بھی حکومت کی طرف سے بچت کا کوئی انداز ہو۔

بارشوں کے بعد گورنمنٹ بوائز اسکول گولارچی میں اب تک گندہ بدبو دار پانی جمع ہے۔ جالے،تعفن اور حشرات الارض کی افزائش تیزی سے جاری ہے، مگر جہاں بچوں کی اوقات کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ نہ ہو وہاں یہ معمولی بات ہے۔ کاش حشرات الارض کے ساتھ کان پر رینگنے والی جوں کی بھی افزائش ہو جائے تاکہ وہ حکام کے کانوں پر رینگ سکے۔

گائوں کے اسکول ویسے بھی وڈیروں ،جاگیرداروں یا سرداروں کے قبضے میں ہیں جہاں بچوں کے بجائے بھینس ،بکری یا اونٹ بندھے ہوتے ہیں اور بچے درخت کے نیچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اندرون سندھ میں ایسا بھی اسکول موجود ہے جس کے راستے میں ندی ہے اور بچے روزانہ ندی تیر کر پار کرتے ہیں،کیونکہ اس جگہ کوئی پل نہیں ہے۔

سرکاری اسکولوں اور مدرسوں میں بچوں کو سبق یاد نہ کرنے پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ استاد تو بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرتا ہے مگر یہ استادوں کی کون سی قسم ہے جو بچوں کو تعلیم سے متنفر کرتی ہے۔ بچوں کو ذہنی دبائو کا شکار کرتی ہے۔

والدین بچوں کو کہاں چھپائیں

گیارہ ماہ سےلے کر ہر عمر کی بچی اور بچہ اس مملکت خداداد میں غیر محفوظ ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو ریاست مدینہ بننے جارہی ہے جہاں سال کے پہلے چھ ماہ یعنی جنوری 2020 سے جون2020تک1489بچے جنسی زیادتی اور بدفعلی کا شکار ہوئے…

تقریباً چھ سے آٹھ بچے روزانہ زیادتی کا شکار ہوئے،جس میں785لڑکیاں اور704لڑکے شامل ہیں، خاص بات یہ کہ زیادتی کرنے والوں میں زیادہ تر رشتے دار اور جان پہچان والے لوگ شامل ہیں۔

کیسزکی زیادہ تعداد پنجاب میں ہیں، جو57فی صد ہے،سندھ میں32فی صدKPKمیں6فی صد، اسلام آباد میں35سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 22بلوچستان میں10آزاد جموں اور کشمیر میں اور ایک گلگت بلتستان میں ہے۔تمام کیسز میں 62فی صد دیہی علاقوں جبکہ38فی صد شہروں میں رپورٹ ہوئے ۔

ہم اخلاق باختہ قوم ہیں

کیا زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ سے کوئی سدھار آیا …؟کیا پیڈو فیلیا کے مریض صحیح ہو گئے …؟ یہ صرف پیڈو فلیا نہیں ہے ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ذہنی ،اخلاقی اور سماجی طور پر ایک اخلاق باختہ قوم ہیں۔ جنسی زیادتی کے مجرمان کو میرے ملک میں سرعام پھانسی نہیں دی جا سکی انہیں نامرد نہیں بنایا جا سکا۔

میرے خیال میں تو ان کی سزا کیلئے ملک کے مختلف شہروں کے چڑیا گھروں میں خصوصی پنجرے بنائے جائیں ،جہاں بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو رکھا جائے، تاکہ لوگ جانوروں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی دیکھ سکیں ……؟اس کے ساتھ زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کیلئے خصوصی بحالی کے مراکز یا Rehabilitation Center بنائے جائیں جہاں ان کا جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی علاج کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ نارمل انسان کی زندگی گزار سکیں۔