شہباز اور حمزہ جیل کی سختیوں کے باوجود پُرعزم

December 24, 2020

وطن عزیز کی سیاسی صورتحال میں قدم قدم پر کئی اہم سوال سر اٹھائے دکھائی دے رہے ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ سیاست کی نئی کیمسٹری کے وجود نے آدابِ سیاست کے تقاضوں کو ہی بدل ڈالا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حد سے زیادہ بڑھنے والی بداعتمادی اور کشیدگی نے بے یقینی کی ایسی فضاء کو پیدا کر دیا ہے کہ حُب الوطنی کا احساس رکھنے والے درد مند حضرات اِضطراب اور تشویش کے حصار میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اِس سنگین ترین کیفیت میں بھی حکومتی ٹیم کے کپتان اور اُن کے بیشتر عہدیدار اپوزیشن سے مذاکرات کرنے سے قاصر رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ جیسے اہم ترین ادارے کو بھی ’’حزب اقتدار‘‘ نے ہی مفلوج کر رکھا ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے جس زاویے کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کی دعوت کا ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ بھی ’’پی ڈی ایم‘‘ کی نظر میں ایک سیاسی فریب کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کے عہدہ پر شیخ رشید کو لانے کے پس منظر اور پیش منظر کے حوالہ سے بھی کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے واوں کا کہنا ہے کہ وہ طاقتور قوتیں جن پر حکومت کو مکمل اعتماد ہے وہ بعض معاملات پر نہ صرف عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہیں بلکہ اپنے شدید تحفظات سے بھی حکومت کو آگاہ کر چکی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری کے علاوہ معاشی عدم استحکام جیسے معاملات میں حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی طرف سے ناراضگی کی علامات واشگاف طور پر محسوس کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ایک وفاقی وزیر آخری مرحلے پر وزیر داخلہ بنتے بنتے رہ گئے ہیں۔ مذکورہ وفاقی وزیر ایک طویل عرصہ سے اس کلیدی عہدہ کے خواہش مند تھے اور وہ نجی محفلوں میں اِس بات کا دعویٰ بھی کرتے نظر آتے تھے کہ اُن کو اُن ’’طاقتور ہاتھوں‘‘ کی حمایت بھی حاصل ہے جو طاقت کا مرکز خیال کئے جاتے ہیں۔ خارجہ امور کے محاذ پر پیدا ہونے والی دشواریوں کے سلسلہ میں حکومت کو خبردار کیا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کے خطوط کو از سر نو مرتب کر کے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ جس سے دوست ممالک کے ساتھ قربت کا احساس نکھر کر سامنے آ سکے چنانچہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی ممالک سے دوستانہ تعلقات میں پیش رفت کے حوالہ سے روڈ میپ پلان کا خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں گائیڈ لائن بھی فراہم کر دی گئی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے جلسوں اور پی ڈی ایم کی آئندہ کی حکمت عملی کے تناظر میں اپنی سیاسی منصوبہ بندی میں مصروف دکھائی دے رہی ہے جبکہ پی ڈی ایم کی قیادت حکومت کی بساط لپیٹنے کی جدوجہد میں اپنے مضبوط اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مریم نواز کے جارحانہ طرز سیاست اور بلاول بھٹو زرداری کے سندھ حکومت تک کو قربان کر دینے کے عندیہ نے پی ڈی ایم کے اتحاد کو مزید مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے سینیٹ کے انتخابات ایک ماہ قبل کرانے کا اعلان کر کے اپوزیشن کی قیادت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم سے جارحانہ انداز میں نپٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے علاوہ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے اعلان اور اسمبلیوں کے استعفوں کے فیصلہ سے کسی دبائو میں نہیں ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاری کا شعور رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تصادم کی اس فضاء میں جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے خدشات اور امکانات کا بھی اندیشہ دکھائی دے رہا ہے۔ صوبائی دارالحکومت بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے لانگ مارچ سے قبل کے عرصہ کے دوران جلسوں ریلیوں اور اجتماعات کا شیڈول جاری کر کے کارکنان کو متحرک کرنے کا لائحہ عمل مرتب کر لیا ہے۔

اس کے علاوہ تنظیمی معاملات کو مربوط بنانے کی حکمت عملی کو طے کر لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز صوبے کے بڑے شہروں میں جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کریں گی اور اس کے علاوہ وہ پی ڈی ایم کو مضبوط بنانے کے سلسلہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر لاڑگانہ بھی جائیں گی۔ یہ بات بھی سیاسی حلقوں میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شہباز شریف نے جس حوصلے، بہادری اور استقامت سے حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اُس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کی قیادت کو نہ صرف دل سے تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اُن کی خاطر بڑے سے بڑے امتحان سے بھی گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

اُنہوں نے اپنے عزم سے حکومت کو باور کرایا ہے کہ نیب کے مقدمات اور ایف آئی اے کی تحقیقات جیسے تمام حکومتی ہتھکنڈے اور کارروائیاں نہ تو اُن کو مرعوب کر سکتی ہیں اور نہ ہی اُن کے خاندان کے اندر کوئی تفریق ڈال سکتی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ جیل میں ہونے والی ملاقات کے دوران بھی میاں شہباز شریف نے اپنے جذبات سے پی ڈی ایم کے اتحاد کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے بلاول بھٹو کو لاہور میں ہونے والے جلسے میں اُن کے خطاب کے انداز کو بھی سراہا۔ صوبائی دارالحکومت میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈووی والہ کی نیب کی کارروائیوں کے حوالہ سے پریس کانفرنس بھی بحث کا موضوع بنی رہی۔ اُنہوں نے واشگاف انداز میں واضح کیا کہ وہ نیب کے چیئرمین کو سینیٹ کی کمیٹی میں بلا رہے ہیں۔

اگر وہ وہاں نہ آئے تو اُنہیں وارنٹ جاری کر کے بلایا جائے گا جو کہ ایک قانونی راستہ ہے اور اس معاملہ میں پی ڈی ایم کا مشترکہ ایجنڈا ہے کہ نیب کی غیر قانونی کارروائیوں کو روکنے کے سلسلہ میں آئینی اور قانونی لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب سے اپوزیشن نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اہم راہنمائوں کے خلاف ڈپٹی کمشنروں کی رپورٹوں کی روشنی میں اینٹی کرپشن کے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں اور بعض راہنمائوں اور ارکان اسمبلی کے خلاف نیب اور ایف آئی اے میں تحقیقات میں بھی تیزی سے اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی قیادت کا کہنا ہے کہ انتقامی کارروائیوں کے حکومتی ہتھکنڈوں سے خوفزدہ کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔