موجودہ حالات میں کرسمس کی تقریبات احتیاط سے منائی جائیں

December 25, 2020

ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان کسی بھی مذہب، گروہ، فرقہ ،قوم سے ہو اسے خوشی چاہئے وہ خوش ہونا ، ہنسنا اور مسکرانا چاہتا ہے، وہ تہوار منانا چاہتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے یوم ولادت کے اعتبار سے منایا جانے والا کرسمس کا تہوار محبت، امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے اور اس موقع پر تمام افراد اپنی رنجشیں بھلا کر ایک دوسرے سے باہم شیروشکر ہوتے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرسمس کی تقریبات شروع ہو چکی ہیں ملک کے مختلف شہروں کے کلیسائوں میں گھنٹیاں بجتے ہی دعائیہ تقریبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

اس موقع پر وطن عزیز کی سلامتی کیلئے بھی دعائیں مانگی جاتی ہیں ملک کے دیگر شہروں میں مسیحی برادری کرسمس مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہے اس موقع پر گرجا گھروں کو برقی قمقموں سے خوبصورتی کے ساتھ سجایا جاتا ہے اور کرسمس ٹری بنا کر خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔کرسمس ٹری کو سجانے کی ذمہ داری خصوصی طور پر بچوں کے سپرد کی جاتی ہے اور بچے مل کر گھروں میں کرسمس ٹری کو سجاتے ہیں کرسمس ٹری کے اوپر برف پڑنے سے اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کرسمس کی تقریبات یکم دسمبر سے شروع ہو جاتی ہیں اور پچیس دسمبر تک روز نئی نئی تقریبات ہوتی ہیں بیرون ملک میں لوگوں کو خصوصی تعطیلات دی جاتی ہیں اور لوگ اپنے رشتہ داروں کو ملنے کےلئے ان کے گھر جاتے ہیں ۔

ڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک
(بشپ آف ایمریٹس)

کرسمس اور اس کی روایات کے بارے میں ہم نے مسیحی رہنمائوں سے بات چیت کی جن میں پروٹسٹنٹ فرقے کے ڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک (بشپ آف ایمرئٹس) بشپ عرفان جمیل (بشپ آف لاہور) ڈاکٹر رخسانہ ڈیوڈ(پرنسپل کنیئرڈ کالج)،ایرک میسی (چیئرمین کنیئرڈ کالج و ایف سی کالج ایجوکیشن بورڈ )، پادری شاہد معراج ڈین آف لاہور کیتھیڈرل اور منور انیس عالم (کنیئرڈ کالج کے برسر) سے بات چیت کی ۔

لیکن انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر حدود اللہ سے تجاوز کر جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آسمانی مذاہب نے ان تقریبات، عیدوں اور تہواروں کو پاکیزہ رکھنے کی ہمیشہ تاکید کی ہے ۔

ایرک میسی( چیئرمین ایجوکیشن
بورڈ کےسی)

ایرک میسی (چیئرمین کنیئرڈ کالج و ایف سی کالج بورڈ آف ایجوکیشن ) نے کہا کہ کرسمس (Christmas)دو الفاظ Christاور Massکا مرکب Christمسیح کو کہتے ہیں اور Massاجتماع اکٹھا ہونا مراد ہے ۔مسیح کے لئے اکٹھا ہونا، مسیحی اجتماع یا میلاد مسیح، یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت اتنی بڑھی کہ دو تین برسوں ہی میں یہ تہوار سرکاری سرپرستی میں منایا جانے لگا ۔روم میں کرسمس کی تقریبات کا آغاز سب سے پہلے ہوا۔ روم کے بعد جرمنی دوسرا علاقہ تھا جس میں کرسمس منائی جانے لگی، وہاں بھی اس تقریب کو سرکاری تقریب کا درجہ حاصل ہو گیا۔

اس زمانے میں جرمنی کسی خاص ملک یا سلطنت کا نام نہیں تھا یہ رومی سلطنت کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا جس میں چھوٹے چھوٹے سرداروں کی حکومتیں تھیں یہ سردار ابتدا میں کرسمس کا تہوار منانے روم جاتے تھے ۔واپس آکر جب اپنے درباریوں کو واقعات سناتے تو وہ حیرت کا اظہار کرتے ۔بعدازاں جرمنی نے مقامی سطح پر کرسمس کا اہتمام کیا اس دن کے بعد تمام جرمن قبائل اپنے اپنے قبیلے میں کرسمس منانے لگے ۔یوں روم کے بعد اس خطے میں بھی کرسمس منائی جانے لگی جسے آج کی دنیا جرمنی کا نام دیتی ہے ۔کرسمس کی مناسبت سے مسیحی برادری کے افراد اپنے عزیز واقارب کے گھروں میں کرسمس کیک، مٹھائیوں، تحائف ، ڈرائی فروٹس کا تبادلہ بھی کرتے ہیں مذہبی عبادات کے علاوہ مذہبی گیت گا تے اور بائبل کی پڑھائی کرکے دینی رسومات کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ دوسری جانب گرجا گھروں میں عبادات کے علاوہ بچوں کیلئے مذہبی علوم کے کوئز پروگرامز، مختلف گیمز شوز، کرسمس فن فیئر، دیگر رنگا رنگ تقریبات کا بھی انعقاد ہوتا ہے مگر اس سال کورونا کی صورت حال کے پیشے نظر کرسمس کے جشن کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔

بشپ عرفان جمیل(بشپ آف لاہور)

بشپ عرفان جمیل (بشپ آف لاہور ) نے کہا کہ کرسمس کے دوران’’کرسمس ٹری ‘‘ کا تصور بھی جرمنوں ہی کا پیدا کردہ ہے یہ لوگ کرسمس کے دن حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کا کردار مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے اور تمام واقعہ دہراتے ۔وہ اپنی ساری اداسی اور ساری تنہائی اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتیں۔ یہ درخت بھی اسٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامہ کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے طور پر اکھیڑ کر ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے جہاں ان کی نظریں ان پر پڑتی رہیں ۔یہ رسم آہستہ آہستہ کرسمس ٹری کی شکل اختیار کر گئی اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے اور سجانے شروع کر دیئے ۔اس ارتقائی عمل کے دوران کسی نے اس پر بچوں کے لئے تحائف بھی لٹکا دیئے۔مسیحی برادری پاکستان میں امن اور ترقی کے لئے مسلمان بھائیوں کےساتھ ہے اور اب جس موذی وبا کا پوری دنیا کو سامنا ہے اس میں مسیحی برادری کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کرتے ہوئے کرسمس منائے گی۔

ڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک (بشپ آف ایمرئٹس) نے کہا کہ کرسمس ٹری کی روایت یسوع مسیح کی پیدائش کے 732سال بعد شروع ہوئی۔ جرمنی میں ایک خاص قبیلہ تھروتھایہ دیوتا کی پوجا کرتے تھے اور اس دیوتا کا نام گرج دیوتا تھا آسمان پر جب گرج ہوتی تھی تو یہ اس کو دیوتا کہتے تھے۔ اس گرج اور آسمانی بجلی اور قدرتی آفات سے بچنے کے لئے وہ ہر سال ایک نر بچے کی قربانی دیا کرتے تھے۔ ایک مقدس گزرے ہیں جس کو ویل فٹ کہتے ہیں جب ویل فٹ کو علم ہوا کہ یہ ہر سال بچے کی قربانی چڑھاتے ہیں تو انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مشورہ کیا۔ اس سال سردار کے خوبصورت بیٹے کی قربانی تھی یہ 732ء کا واقعہ ہے۔ مقدس ویل فٹ کو بڑا دکھ ہوا یہ قربانی بلوط کے درخت کے سائے میں دی جاتی تھی۔

آس پاس کافی لوگ جمع تھے برف باری ہو رہی تھی عجیب و غریب سماں تھا۔ ایک طرف انسانی سسکیاں اور دوسری طرف شدید برف باری اور قبیلہ کا مذہبی رہنما چھری کو تیز کر رہا تھا۔ مقدس ویل فٹ برفانی پہاڑی کو چیر کر قربان گاہ تک پہنچے اور ان کے ساتھ چند ساتھی بھی تھے جونہی اس قبیلہ کے معزز مذہبی رہنما نے بچے پر چھری چلانے کے لئے چھری اٹھائی مقدس ویل فٹ اور ان کے ساتھیوں نے چھری چھین لی ۔ یہ واقعہ کرسمس سے ذرا پہلے کا ہے۔ مقدس ویل فٹ نے کلہاڑ ا لے کر اس بلوط کے درخت کو کاٹ دیا۔ روایت یہ ہے کہ جونہی درخت کا ٹا گیا تو آسمان سے بجلی گری اور اس سے وہ درخت غائب ہوگیا اس درخت کی شاخ سیدھی آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہے، کرسمس ٹری کی روایت یہ ہے کہ اس ایور گرین ٹری سے زندگی ملی ظلم ختم ہوا اور ایک نئی روایت نے جنم لیا۔

کرسمس ٹری ایک خوبصورت روایت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف برطانیہ میں 70لاکھ کرسمس ٹری سجائے جاتے ہیں۔کرسمس ٹری پر جلائی جانے والی لائٹس تقریباً پورا مہینہ جلائی جاتی ہیں۔ کرسمس کے حوالے سے تمام انسانوں کو ایک دوسرے سے محبت بڑھانی چاہئے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنی چاہیے مسیح عوام نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہمیشہ کام کیا۔

پادری شاہد معراج
(ڈین کتھیڈرل چرچ)

شاہد معراج(ڈین آف لاہور کیتھڈرل) نے کہا خُداوند یسوع مسیح کی پیدایش اِلہٰی منصوبہ کا وہ بنیادی حِصّہ ہے جو بنی نوع انسان کی نجات و مخلصی اور ذاتِ اِلہٰی کے ساتھ اِنسان کے دوبارہ مِلاپ کا ذریعہ بنا۔ پاک نوشوں میں انبیاء نے کئی سو سال پہلے اس بات کی نوید سُنائی تھی۔

جبرائیل فرشتہ کا مُقدسہ کنواری مریمؔ کو پیغام خُداوند یسوع مسیح کی ذاتِ اقدس کی مُکمل وضاحت ہے۔

خُداوند یسوع مسیح کی پیدایش خُدا کی اِنسان کے ساتھ ازلی و ابدی مُحبّت کی عملی مِثال ہے۔ انجیلِ مُقدس میں لکھا ہے کہ خُدا نے جہان سے ایسا پیار کیا کہ اُس نے خُداوند یسوع مسیح کو دُنیا کو بخش دیا (یوحنا ۳: ۱۶) ۔ کرسمس یاد دِلاتا ہے کہ یہ ٹُوٹے ہوئے رِشتوں کی بحالی کا تہوار ہے چاہے یہ رشتے اِنسانی سرشت کے سبب خُدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے ٹوٹے ہوں یا پھر اِسی تاریکی کی جبلّت کے سبب خاندانوں اور معاشروں میں بگاڑ کا سبب بنے ہوں۔ کرسمس ذاتِ اِلہٰی کی قُربت اور اِنسانوں کی باہمی رِفاقت کے نئے دَور کے آغاز کا دِن ہے۔

خُداوند یسوع مسیح کا ، ایک بچّہ کی صُورت میں چرنی یا جانوروں کے اصطبل میں جنم لینا دُنیا کے بے کس، ناتواں اور مصائب میں گھِرے ہوئے اِنسانوں کے لئے خُدا کی فِکر کا عکاس ہے۔ ۲۰۲۰ ء ہماری دُنیا کے لیے کرونا وائرس کی وجہ سے ڈر، خوف اور نا اُمیدی کا سال رہا ہے۔ اس سارے ماحول میں کر سمس ایک بار پھر اُمید اور زندگی کا پیغام لیکر آیا ہے اور خدا کے حضور دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں کورونا سے جلد نجات مل جائے۔ اِنسانی معاشروں میں ظُلم، زیادتی، نااِنصافی اور دہشت گردی کے شِکار بچّوں، خواتین اور دیگر استحصال شُدہ طبقوں کے لئے خُداوند یسوع مسیح کی وِلادت بہت بڑی خُوشخبری ہے۔ یہی پیغام فرشتہ نے چرواہوں کو دیا ـ ’’ڈرو مت، کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خُوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری اُمّت کے واسطے ہوگی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجّی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خُداوند۔ ــ‘‘ (لوقا ۲: ۱۰۔ ۱۱) ہم نا صرف خداوند مسیح کی پہلی آمد یعنی اس کی ولادت ہی کی خوشی منائیں بلکہ خداوندوں کے خدا کے اوربادشاہوں کے بادشاہ یسوع مسیح کی دوسری آمد کے لیے بھی بھر پُور تیاری کریں۔

خُداوند یسوع مسیح نے دشمنوں سے مُحبّت کرنے کا شاندار درس دیا تاکہ دُنیا میں امن و محبّت کا راج ہو۔دُنیا کے مسائل ومصائب اِس بات کے متقاضی ہیں کہ ایسا لاحہِ عمل اختیار کیا جائے جس سے امن و سلامتی قائم ہو جو اِنسانی ترقّی و فلاح کے لئے اِنتہائی ضروری ہے۔کرسمس یاد دہانی ہے کہ بدی کو بدی سے نہیں بلکہ نیکی سے مغلوب کرنا ہے۔بے دِلوں کو دِلاسا دینا ہے، کمزوروں کو سنبھالنا ہے، مُصیبت زدوں کی مدد کرنی ہے اور تمام اِنسانوں کی عزّت کو اپنا نصب العین بنانا ہے اور یہ اُسی وقت مُمکن ہوگا جب ہم رُوح القُدس سے معمور ہوکر خُدا سے مُحبّت کا عملی اِظہار اپنی زندگی میں کریں گے۔

خُداوند یسوع مسیح کی وِلادت اِس بات کی نوید ہے کہ ذاتِ اِلہٰی پر کِسی کی اجارہ دری نہیں کیونکہ خُدا کا پیار جس کے سبب سے کلمتہ اللہ مُجسم ہوا، وہ تمام جہان کو دعوت دیتا ہے کہ ’’اے محنّت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ میں تمہیں آرام دُوں گا۔ــ‘‘ (متی ۱۱: ۲۸)

آیئے ! کرسمس کی حقیقی رُوح کے مطابق محبت کے اِنقلاب کو عام کریں ۔ محبتوں کو وسعت دیں اور نفرتوں کو ختم کریں۔ دوسروں کو دُکھ نہ دیں بلکہ تحمّل و برداشت کو پروان چڑھائیں۔ اور معاشرہ میں اِنصاف و مساوات کو عام کریں کیونکہ یہی ہمیں تاریکی ، ظلم اور بے بسی سے آزاد کرسکتی ہے۔

آپ سب کو اُمید ، محبت اور زندگی سے بھر پور عید ولادتِ یسوع المسیح اور نیا سال مبارک ہو۔

پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ ڈیوڈ
(پرنسپل کےسی)

ڈاکٹر رخسانہ ڈیوڈ (پرنسپل کنیئر ڈ کالج لاہور) نے کہا کہ کرسمس کے تہواروں کے موقع پر مسیحی برادری ایک دوسرے کو تحفے دیتے اور جشن مناتے ہیں اور یہی رواج آج بھی کرسمس کےوقت عام ہے سچے مسیحی دوسروں سے محبت رکھتے ہیں اس لئے انہیں تحفے دینے اور سخاوت کرنے کے لئے کسی تہوار کا بہانہ نہیں چاہیے۔ اس کے علاوہ وہ اس امید سے تحفے نہیں دیتے کہ انہیںبدلے میں کچھ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج جب کہ نفرت کی قوتیں اس ملک اور پور ی دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک دوسر ے سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہیں ہمیں ایک ایسی متحدہ طاقت کی اشد ضرورت ہے جو بین العقائد غلط فہمیوں اور بداعتمادی کی بڑھتی ہوئی خلیج پر پل تعمیر کرسکے۔ یہ طاقت محبت، امن اور درگزر کا وہ پیغام بھی ہے جو مسیح نے سکھایا تھا اور جسے دونوں عقائد کے پیرو کار مانتے ہیں۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں امن کے دشمن تشدد کے واقعات اور نفرت انگیز بیانات مذہبی جارحیت کو فروغ دینے کی بھرپور سازشیں کر رہے ہیں لیکن ہم نے انسانیت کی معراج پر قائم رہنا ہے۔

مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرسمس کا ذکر آتے ہی ذہن میں سانتا کلاز کا تصور آ جاتا ہے آج لوگ جسے سانتا کلاز کہتے ہیں اس کا اصل نام سینٹ نکولس تھا۔ وہ 271ء میں ترکی کے ساحلی قصبے پیٹرا کے انتہائی امیر شخص کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ بہت مہربان تھے انہیں معلوم ہوا کہ ان کا ہمسایہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہے اور اس کی تین جوان بیٹیاں ہیں جن کی شادی میں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رکاوٹ آ رہی تھی۔ لہٰذا انہوں نے اس کی مدد کرنے کے لئے اس کی کھڑکی سے کچھ سکے گرا دیئے جو کہ سوکھنے کے لئے ڈالی گئی جرابوں میں جا گرے۔

یہ رقم بڑی بیٹی کی شادی کے لئے کافی تھی۔ اسی طرح انہوں نے ہر دفعہ اس انسان کی مدد کی اور آخری بیٹی کی شادی کے وقت کھڑکی بند ہونے کی وجہ سے انہوں نے وہ پیسے چمنی سے گھر کے اندر پھینک دیئے جس سے انہیں پتا چل گیا کہ ان کی مدد کون کرتا ہے۔ سینٹ نکولس رومن کیتھولک چرچ کے سب سے کم عمر بشپ تھے۔ اس وقت بلجیم میں 300 روپ میں 60 اور انگلستان میں 400 گرجا گھر ان کے نام سے منسوب ہیں۔ لوگ آج بھی اپنے سانتا کلاز کا انتظار کرتے ہیں کیونکہ سانتا کلاز بچوں میں تحائف تقسیم کرتے ہیں۔ کرسمس کی تیاریاں 24 دسمبر کی رات کو اپنے عروج پر پہنچتی ہیں اور رات کو مڈ نائٹ سروس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں ایک دوسرے کو تحائف دینا کرسمس ٹری اور کیک کاٹنا کرسمس کی روایات میں شامل ہیں۔

منور انیس عالم(کنیئرڈ کالج برسر)

منور انیس عالم( کنیئر ڈ کالج کے برسر) نے کہا کہ کرسمس جسے بڑا دن بھی کہا جاتا ہے مسیحی برادری کے لئے یہ عالمی مذہبی تہوار ہوتا ہے جیسے ہر سال 25 دسمبر کو بڑے عقیدت و احترام اور جوش و جذبے سے منایا جاتاہے اس دن مسیحی برادری کی ایک بڑی تعداد صبح گرجا گھروں میں عبادت کے لئے جاتے ہیں کرسمس کیک کاٹے جاتے ہیں کرسمس ٹری سجائے جاتے ہیں نئے نئے لباس پہنے جاتے ہیں۔

مسیحی برادری میں کرسمس پر سانتا کلاز بچوں کے لیے دلچسپ کردار ہے جس کے بارے میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ اس دن سانتا کلاز ہر گھر میں آتے اور بچوں کے لیے تحفے تحائف اور کھلونے دے کر جاتے ہیں۔ سانتا کلاز کے بارے میں ذکر حضرت عیسیٰ کے ؑدور سے قبل رومن ایمپائرز کے دور میں یا پھر شاید اس سے بھی قبل کی روایت ہے کہ جب موسم بدلتا اور برف باری ہوتی ہے تو آسمان سے کوئی فرشتہ اترتا ہے جس کے بال اور ڈاڑھی سفید برف کی مانند ہوتی ہے اور وہ بچوں کے لیے تحائف لے کر آتا ہے۔

مسیحی کمیونٹی نے جب حضرت عیسیٰ ؑ کی سالگرہ کا دن منانا شروع کیا تو انھوں نے بچوں کے دلوں میں اس کردار کے لیے ایک مذہبی احترام پیدا کر دیا اور بچوں کو اس کے مختلف واقعات سنائے جاتے ہیں۔ ہر گھر میں رات کو ایک کرسمس ٹری بھی سجایا جاتا ہے۔ والدین بچوں کے لیے کھلونے لا کر اس میں چھپا دیتے ہیں۔ صبح جب بچہ اٹھتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ رات کو سانتا کلاز آپ کے لیے تحائف چھوڑ کر گئے تھے۔ جب وہ کرسمس ٹری میں اپنے لیے تحفہ دیکھتا ہے تو حیرت انگیز خوشی کے جذبات اس کے دل میں سانتا کلاز سے محبت پیدا کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ کرسمس کے موقع پر بڑی بڑی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے کرسمس دراصل یسوع مسیح کی معجزانہ پیدائش کا دن ہے اس دن حضرت عیسیٰ مسیح کی قربانیوں کا ذکر ہوتا ہےاور ان کے دنیا میں آنے کی خوشیاں منائی جاتی ہیں مگر سال 2020 پہلا ایسا موقع ہوگا جس میں کورونا کی وباء کی وجہ سے اس تہوارکو اس طریقے سے نہیں منایا جائے گا جس طرح پہلے منایا جاتا تھا اس سال اس تہوار کو منانے کے لئے مکمل گائیڈ کائنز جاری کی گئی ہیں جس کے مطابق کرسمس کی چھٹیوں کے دروان غیر ضروری سفر سے گریز کیا جائے اور کرسمس کے موقع پر روایتی مبارک باد ہاتھ اور گلے ملنے سے اجتناب کیا جائے گرجا گھروں میں عبادات کے دروان ہرشخص کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ رکھا جائے لوگوں کی تھرمل اسکریننگ کی جائے ماسک کی پابندی لازم ہے اور خاص طور پر کرسمس کے خطبات میں کورونا کے حوالے سے آگاہی پیغامات دیے جائیں اور کورونا وباء سے نجات کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں اور چرچ میں 15 سال سے کم عمر بیمار اور بوڑھے افراد نہ جائیں کورونا وائرس کی دوسری لہر کی شدت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تمام احتیاطی تدا بیر پر مکمل عمل درآمد کی اشدت ضرورت ہے تا کہ اس وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔