وعدے نبھانے والی شہید بی بی

December 27, 2020

سینیٹر تاج حیدر

27 دسمبر 2007 کی شام میں پارٹی کے سندھ سیکریٹیریٹ میں واقع الیکشن سیل میں اپنے کام میں مصروف تھا ۔ نفیس صدیقی صاحب کے گھر پر کئی ملکوں سے تعلق رکھنے والےIRI کے مندوبین کی میٹنگ چل رہی تھی جس کا اہتمام ہمارے دوست محترم ذوالفقار ہالیپوٹو نے کیا تھا۔ وہاں سے بار بار بلاوے آرہے تھے کہ جلدیپہنچیں ۔

میرے لیپ ٹاپ پر بی بی صاحبہ کا ایک پیغام موصول ہوا۔ صرف ایک جملہ ۔ "Taj Help me and the Party" ۔ اس جملے کے ذیل میں ایک تفصیلی رپورٹ تھی جو کامریڈ جام ساقی نے بلوچستان کی صورت حال کے بارے میں انہیں ارسال کی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں واپس آن کر یہ رپورٹ دیکھوں گا ۔ میں نے اپنا موبائل فون اور لیپ ٹاپ لطیف مغل بھائی کے حوالے کیا اور میٹنگ میں شریک ہونے کو چل دیا ۔

میٹنگ میں الیکشن میں استعمال ہونے والے بیلٹ بکس کے ڈیزائن کے بارے میں تفصیلی بحث جاری تھی ۔ ڈیزائن میں کیا کیا تبدیلیاں کی جائیں کہ جعلی ووٹنگ رک جائے؟ چند ہی منٹ بعد میری طبیعت الجھنے لگی ۔ میں نے اپنی عادت کے برخلاف دوسروں کی گفتگو قطع کرکے مندوبین سے کہا کہ یہ وقت بیلٹ بکس کے ڈیزائن پر بحث کرنے کا نہیں تھا ۔ کیا ہم سب کو نظر نہیں آرہاتھا کہ ہم میدان جنگ میں کھڑے ہیں اور وہ محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل کر رہے ہیں ۔ مسئلہ بیلٹ بکس کا نہیں ہے آمریت اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں محترمہ بینظیر بھٹو کوقتل ہونے سے بچانے کا ہے ۔

میں بولتا چلا گیا ۔ غیر ارادی طور پر میرے منہ سے بار بار نکل رہا تھا کہ دیکھو وہ محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل کر رہے ہیں ۔ چند ہی منٹ بعد مجھے وقار مہدی بھائی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک پرچی ملی ـ’’ پنڈی کے جلسے میں بی بی پر حملہ ہوا ہے ۔ بی بی خیریت سے ہیں ـ‘‘۔ میں نے مندوبین کو پرچے پر لکھی ہوئی تحریر سنائی جس کے جواب میں برطانیہ کے مندوب نے اٹھ کر کہا کہ ان کو ابھی ابھی ایک SMS پیغام ملا ہے ۔ BBC نے خبر دی ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اب ہم میں نہیں ہیں ۔ مندوبین سناٹے کے عالم میں تھے ۔ میں ایک لمحے کو خاموش ہوا ۔ جس چیز کا ہر لمحے خطرہ تھا وہ آخر کار ہوچکی تھی ۔ میں نے مندوبین سے معذرت کی کہ مجھے جانا ہوگا ۔ محترم مندوبین بیلٹ بکس کے ڈیزائن پر گفتگو کرتے رہیں ۔

باہر نفیس صدیقی صاحب کے لان سے کارکنوں کے چلا چلا کر رونے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ یہ لوگ اس قدر بے حال تھے کہ جب میں باہرنکل رہا تھا تو کسی نے مجھے نوٹس تک نہیں کیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کہاں جانا چا ہئیے ؟ میں کس سے رابطہ کروں ؟ میرا موبائل فون لطیف مغل بھائی کے پاس تھا ۔ میں نے سوچا کہ گھر پہنچ کر LAN لائن سے ان سے رابطہ کروں ۔ تمام لائنیں بلاک تھیں ۔ ٹی وی چینلوں پر ہر طرف آگ لگنے اور ہنگاموں کی خبریں آرہی تھیں ۔

کوئی رات کے گیارہ بجے لطیف بھائی مجھ سے رابطہ کرپائے ۔ جنازے میں شرکت کے لئے ایک ہوائی جہاز کا نتظام کرلیا گیا تھا۔ میرا لیپ ٹاپ جس میں شہید بی بی صاحبہ کے تقریبا ڈیڑھ سال پر محیط سولہ سو کے قریب پیغامات تھے جن کی اہمیت تاریخی تھی محفوظ تھا۔ میں نے جو ہرگھنٹے دو گھنٹے بعد اپنی میل دیکھتا تھا کہ کہیں ان کی جانب سے کوئی حکم نہ موصول ہوا ہو کوئی بیس دن بعد اپنی میل کھول کر دیکھی ۔ وہ تو جاچکی تھیں ۔ ان کی میرے نام آخری میل میرے سامنے تھی ۔ "Taj help me and the Party''

ذوالفقار ہالیپوٹو جب ملے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے مہمان مندوبین بار بار ان سے پوچھتے رہے تھے کہ تاج حیدر کیوں بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھو وہ محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل کررہے ہیں ۔ مجھے کیا پتہ ہالیپوٹو بھائی کہ میں بار بار کیوں یہ الفاظ دہرا رہا تھا ۔ کون مجھ سے یہ الفاظ کہلوا رہا تھا۔ شاید رخصتی کے لمحات میں ایسے ہی ہوتا ہو ۔

چند ہی ماہ قبل میری اس التجا کے جواب میں کہ ان کی جان کو بہت خطرات تھے اور وہ وطن واپسی کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت دوبارہ سوچیں انہوں نے امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی ایک لائن کا حوالہ دیا تھا ۔ "I have promises to keep" ۔

ان کی شہادت سے شاید ہفتے بھر پہلے مجھے جنرل بابر صاحب نے خاصی ناراضگی سے فون کیا تھا ۔ ’’تاج صاحب ،آپ وہاں الیکشن سیل میں بیٹھے کیا کررہے ہیں ۔ بلاول ہاؤس جائیں اوربی بی سے کہیں کہ جلسوں جلوسوں میں شرکت نہ کریں ۔‘‘ جنرل بابر کے حکم پر جب میں بلاول ہاؤس پہنچا تو وہ نشست کے کمرے میں دو تین ساتھیوں سے محو گفتگو تھیں ۔ شاید یہ پہلی بار تھی جب میں اس طرح بغیر ملاقات کا وقت طے کئے ہوئے ان سے ملنے چلا آیا تھا ۔انہوں نے حیرانی سے مجھے دیکھا اور پوچھا،’’ خیریت تو ہے تاج ؟ ‘‘ میں نے کہا کہ وہ میٹنگ ختم کرلیں تو بات کروں گا۔ میں ملاقات کے کمرے میں بالکل آخر میں بیٹھ گیا ۔ دو تین منٹ بعد وہ وہاں آئیں اور میں نے ان کو جنرل بابر کی تشویش کے بارے میں بتا یا ۔ انہوں نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا ، ’ـ’تاج ، جنرل صاحب مجھے روز ٹیلیفون کرتے ہیں ۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ یہ ان کا معاملہ ہے جو سیکیورٹی کو دیکھ رہے ہیں ۔ یہ میرا معاملہ نہیں ہے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکراتی ہوئی واپس چلی گئیں ۔

انہوں نے حسینی راہ پپر چلتے ہوئے اپنی جان دی لیکن آخر ہمارے معاشرے اور ہماری سیاست کے وہ کون سے تضادات تھے جو ان کی شہادت کا باعث ہوئے ؟

1917 کے انقلاب روس نے برصغیر میں آزادی اور مساوات کی نئی روح پھونک دی تھی ۔ یہی ترقی پسند طاقتیں اور ان کے معاشی مساوات پر مبنی پروگرام تھے جو انگریز سامراج کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بر صغیر میں جب جب ترقی پسند طاقتوں نے پیش قدمی کی انگریزوں نے مذہبی نفرتوں کو ابھارا اور تحریک آزادی کو منقسم کیا ۔ میرے بڑے بھائی جناب جو ہر حسین کی ایک تحقیق کے مطابق آزادی سے قبل مذہبی فسادات اورہندوستان میں کسان تحریک کے مراکز میں ایک قریبی تعلق پایا جاتا ہے ۔ صوبہ پنجاب میں بھگت سنگھ کی تحریک چلی ۔ غدر پارٹی کا تعلق بھی پنجاب سے تھا ۔ انڈین نیشنل آرمی جس میں عقیدے اور مذہب کی کوئی تفریق نہیں تھی اس کی بھی بہت بڑی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب کے دیہی علاقوں ہی سے تھا ۔ ان میں سے ہر تحریک کو تقسیم کرنے کے لئے انگریزوں نے مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کا سہارا لیا تھا ۔

پاکستان کی تحریک آزادی ایک ترقی پسند تحریک تھی جو مذہب کے نام پر ایک قوم کی دوسری قوم پر برتری اور تسلط کے خلاف ایک صدائے احتجاج تھی ۔ شاید میرا تجزیہ غلط ہو لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ پنجاب ہی کے کھیت اور کھلیان تھے جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے خون سے رنگین ہوگئے تھے ۔

1970 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آواز پر پنجاب ایک بار پھر جاگا ۔ سندھ میں ان کی پارٹی کو نصف سے کچھ ہی زیادہ سیٹیں ملیں ۔ یہ سیٹیں بھی ان کو شہری سندھ کی بہت بڑی حمایت سے ملی تھیں ۔ دیہی سندھ کے بہت بڑے بڑے علاقے اس وقت تک جاگیرداروں کے زیر اثر تھے ۔ پنجاب میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں نے ہماری پاکستان پیپلز پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا ۔بڑی امیدیں باندھی گئی تھیں کہ پنجاب میں دائیں بازو کی اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیںابھرتی ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بند باندھ لیں گی لیکن بھٹو کا سیلاب ہر رجعت پسند طاقت کو بہا کر لے گیا تھا ۔

انگریز کب کے جا چکے تھے اور ان کی جگہ اب دنیا بھر میں جمہوریت اور سوشلزم کو روکنے کی ذمہ داری امریکی سامراجی طاقت نے سنبھال لی تھی ۔ پاکستان اور بالخصوص پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ترقی پسندی کا زور توڑنا اب امریکی سامراج کی ذمہ داری تھی ۔ انتخابی اور آئینی ذرائع سے ایسا کرنا ناممکن تھا ۔ امریکی سامراج نے افواج میں موجود اپنے گماشتوں کا سہارا لیا اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو فوجی طاقت کے ذریعے گرا کر اور ملک میں فوجی آمریت قائم کرکے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی اور ان کی بنائی ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی کو بدترین سفاکی کانشانہ بنایا ۔

ضیا کی فوجی آمریت کو ملک کی تقریبا تمام مذہبی جماعتوں کی سیاسی حمایت حاصل تھی ۔ افغانستان کے بدقسمت حالات نے ضیا کو یہ موقع بھی فراہم کردیا کہ وہ ان جماعتوں کی افرادی قوت کو مسلح کرے اور ان کے سیاسی اثر و نفوذ کے سہارے جہاد افغانستان کے لئے نئے لشکر تیار کرے اور ان کی بھرپور مالی امداد کرے ۔ اندرون ملک ان عساکر کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ بزور طاقت ترقی پسنداور امن و جمہوریت کی بات کرنے والی طاقتوں کا راستہ روکیں ۔

یہ سیاسی ماحول تھا جس میں چوبیس سال کی عمر میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی ۔ اپنے جن پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا کب کے فوجی آمریت کے آلہ کار بن چکے تھے ۔ کارکن بکھر چکے تھے ۔ ان کارکنوں کی بکھری طاقتوں کو جمع کر نا اور ملک کے دوسرے جمہوری عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کو ایک موثر جمہوری طاقت کی شکل دینا جو ایک سفاک آمریت کا مقابلہ کرسکے یہ تھا وہ چیلنج جواس وقت محترمہ بینظیر بھٹو کے سامنے تھا ۔

اس چیلنج کا انہوں نے بڑی بہادری اور دانشمندی سے مقابلہ کیا ۔ ان کی دونوں حکومتوں کو اسی پرانے جمہوریت دشمن اور مسلح گٹھ جوڑ نے برطرف کیا ۔ ان کے بھائیوں کو شہید کیا گیا ۔ ان کے شوہر محترم آصف علی زرداری کو طویل عرصے تک پابند سلاسل کیا گیا ۔اپنی تمام تر ملکی اور بین الاقوامی سیاسی جد و جہد کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی پرورش انہوں نے ماں اور باپ دونوں بن کر کی ۔ ان کی جگہ کوئی بھی دوسرا ہوتا تو وہ کب کا آمریت کے ساتھ سمجھوتہ کرکے گھر بیٹھ جاتا لیکن وہ شہید بھٹو کی صاحبزادی تھیں۔ ان کا نام بینظیر بھٹو تھا ۔

ابھی چند ہی روز قبل سینیٹر اعتزاز احسن سینیٹ میں شہادت کے فلسفے کا ذکرکر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ شہادت کی دو شرائط ہیں ۔ پہلی یہ کہ شہید کو معلوم ہو کہ جس راہ پر وہ گامزن ہے اس کا نتیجہ یقینی موت ہے ۔ دوسری یہ کہ شہید کے پاس سمجھوتے کرکے جان بچانے کے راستے موجود ہوں اس کے باوجود وہ اسی راستے پر گامزن رہے ۔ شہید بی بی کے ملک میں مسلح انتہا پسندی عوام کے لئے اور ان کے ملک کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی تھی ۔ پڑوسی ملک انہی انتہا پسندوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو چکا تھا ۔ ان کی وطن واپسی کا نتیجہ یقینی شہادت تھا۔ لیکن کیا وطن والوں کو مصیبت کی اس گھڑی میں تنہا چھوڑ دیا جائے ؟ کیا وہ وعدے جو پارٹی کی قیادت سنبھالتے وقت وطن والوں اور وطن سے کئے گئے تھے ان کو فراموش کردیا جائے ؟ شہید بی بی صاحبہ کا ایک ہی جواب تھا کہ جو ہو سو ہو، وعدے پورے کئے جائیں گے ۔ I have promises to keep

خدا اپنے بے پایاں رحم و کرم سے اپنا وعدہ پورا کرنے والی اس شہید بی بی پر اپنی رحمتوں کا نزول کرے ۔