کچرے اور کورونا کی سیاست میں الجھے، بارش میں ڈوبے

December 30, 2020

دنیا بھر کی طرح کووِڈ۔اُنّیس پاکستان کے بھی ہر شعبہ زندگی کو 2020میں بُری طرح متاثر کرتارہا۔ چناں چہ یہ کیسے ممکن تھا کہ سیاست کا شعبہ اس سے بچا رہتا ۔ اور صوبہ سندھ کے سیاسی افق پر تو اس نے خوب دھمال ڈالا۔اس کے بعدصوبےمیں کچرےاورنالےکی سیاست کا نمبر تھا۔ ان دونوں عوامل نے تقریبا پورا سال اتنی دھول اڑائی کہ باقی معاملات اور مسائل زیادہ دیر تک سیاسی افق پر ٹھہرنہیں سکے۔

سال کا آغاز سندھ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اتحادیوں کی جانب سے بُری خبر آئی اور آئی جی سندھ کی تبدیلی کے مسئلے پر وفاق اور صوبائی حکومت میں ٹھن گئی تھی۔

وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کو منانے کی کوششیں جنوری میں جاری ہیں ۔ یادرہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے ہی حکومتی رہنماؤں کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔حکومت کی ایم کیو ایم کو منانے کی کوششیں جاری تھیں کہ ایک اور اتحادی جماعت گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس نے بھی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کردیاتھا۔

وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم مطالبات کو درست قرار دیتے ہوئے اپنی اتحادی جماعت کے تحفظات کو دور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔چناں چہ حکومتی اراکین نے ایم کیو ایم کےراہ نماؤں سے رابطے شروع کر دیے تھے۔خالد مقبول صدیقی کی پریس کانفرنس کے بعد گورنر عمران اسماعیل نے ایم کیو ایم کے راہ نماؤں فیصل سبزواری اور خواجہ اظہار الحسن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیاتو ان رراہ نماؤں نے گورنر سندھ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیاجنہیں گورنر سندھ نے دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔آگے چل کر ایم کیو ایم کو منالیا گیا تھا، لیکن اس کے کہنے پر امین الحق کو وفاقی کابینہ میں خالد مقبول صدیقی کی جگہ شامل کیا گیاتھا۔

ادہر صوبہ سندھ کی کابینہ نے آئی جی پولیس کلیم امام کو ہٹانے کی منظوری دی تو اس بارے میں صوبائی حکومت کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے ایک پریس کانفرنس میں آئی جی سندھ کے خلاف چارج شیٹ پیش کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ صوبے میں امن و امان قائم نہیں رکھ سکے ہیں، انہوں نے ارشاد رانجھانی قتل کیس اور دعا منگی اور بسمہ کے اغوا کا بھی حوالہ دیا جو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا ہوئی تھی۔

انھوں نے کلیم امام پر الزام عاید کیاتھا کہ انہوں نے مسلسل نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہ راہ راست سفارت کاروں سے ملاقاتیں کیں اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت سے کوئی اجازت نہیں لی گئی ۔دوسری جانب وفاق نےحکومت سندھ کی درخواست پر آئی جی کلیم امام کو فوری طور پر ہٹانے سے انکار کر دیا تھا ۔ پھر جنوری کی بیس تاریخ کو سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کا جواب آنے تک صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کلیم امام کو ہٹانے سے روک دیا تھا ۔ عدالت عالیہ میں آئی جی کی تبدیلی سے متعلق سماجی کارکن جبران ناصر کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے فروری کے اوائل کے دورہ کراچی سے متعلق بہ ظاہر میڈیا میں تاثر یہ پیش کیا گیا کہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان تمام تر متنازع فیہ معاملات بہ حسن و خوبی طے کرلیے گئے ہیں ۔لیکن واقفانِ حال کا اصرارتھا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کی باہمی ملاقات میں کچھ بھی طے نہیں ہوسکا، سوائے اس ایک مسئلے کے کہ آئی جی سندھ کی تبدیلی کے حوالے سے وفاق ،سندھ حکومت کے تحفظات کے مطابق جلد از جلد فیصلہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن پھر وفاقی کابینہ کے اجلاس اور جی ڈی اے کے راہ نماؤں سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نے آئی جی سندھ کلیم امام کی جگہ پیپلزپارٹی کی مرضی کا آئی جی سندھ تعینات کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیاتھا۔یوں یہ کہا جاسکتاہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ میں شروع ہونے والا ’’سیاسی رومانس ‘‘ چند گھنٹوں ہی میں اپنے فطری انجام کو پہنچ گیا تھا۔

حالاں کہ کوشش کرنے والوں نے اپنی طرف سے تو کوئی کسر نہ رکھ چھوڑی تھی، مگر شومئی قسمت کہ سندھ میں سیاسی گروہ بندی کچھ اِس قسم کی ہوئی ہے کہ تحریک انصاف میں در آنے والا اور پاکستان پیپلزپارٹی سے ’’سیاسی تعلق‘‘ رکھنے والا گروپ جتنی چاہے کوشش کرلے،تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو کم ازکم سندھ کی حد تک تو ایک ’’سیاسی لڑی ‘‘ میں پرونا بہت مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ سندھ کی سیاست کے تین بنیادی مراکز ہیں ۔پہلا مرکز دیہی سیاست کاہے جو پیپلز پارٹی کے گرد گھومتا ہے۔ دوسرا مرکز شہری سیاست کا ہے جسے یم کیوایم اپنے گرد گھماتی ہے۔ تیسرا سیاسی مرکز آج کل جی ڈے اے کے گرد گھوم رہا ہے، جسے جی ڈی اے نے پیپلزپارٹی کے انتخابی حلقہ میں نقب لگا کر حاصل کیا ہے۔ دل چسپ با ت یہ ہے کہ سندھ میں سیاست کے یہ تینوں مراکز ایک دوسرے سے سخت مخالفت رکھتے ہیں ۔ خاص طور پر ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کی ساری سیاست قائم ہی پیپلزپارٹی کی مخالفت پر ہے ۔

لہذا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ سندھ کی سیاست کے دو طاقت ور مراکز تحریکِ انصاف کی حکومت کے اتحادی بھی ہوں اور عمران خان کے پیپلزپارٹی کے ساتھ شروع ہونے والے ’’سیاسی رومانس ‘‘ کو خاموشی سے برداشت بھی کرلیں ۔اِس لیے شنید یہ تھی کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات میں دونوں راہ نماؤں کے درمیان سندھ سے متعلق جن سیاسی و انتظامی معاملات پر اتفاق ہواتھاان پرصرف چند گھنٹوں بعد ہی جی ڈے اے کے راہ نماؤں نے عمران خان سے اپنے شدید ترین سیاسی تحفظات کا کھل کراظہار کر کے واضح کردیاتھا کہ جی ڈے اے سندھ کی سیاست میں سندھ حکومت کی سیاسی من مانیوں پر وزیراعظم کے کہنے پر بھی خاموشی اختیار نہیں کرسکتی ۔تاہم بعد میںآئی جی تبدیل ہوگئے تھے۔

ابھی ان معاملات کی گرد پوری طرح بیٹھی نہیں تھی کہ کووِڈ۔اُنّیس کی وبا نے آن گھیرا۔ایسے وقت میںجب ملک میں ہم آہنگی اور پوری قوم کومل کراس وبا اور اس سے پیدا شدہ حالات سے نمٹنے کی ضرورت تھی بدقسمتی سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان بُعد کی کیفیت میں اضافہ ہوا۔ایک موقعے پر پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو وزیراعظم عمران خان سے ناکامی تسلیم کر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ تک کردیا تھا۔سندھ اور وفاقی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا تو کبھی نہیں رہی،لیکن اس معاملے پر دونوں حکومتوں کے عہدے دار ایک دوسرے کے خلاف جواب آں غزل کافی عرصے کرتے رہے۔ لاک ڈائون کے سوال پر سندھ حکومت نے جب وفاقی حکومت سے سبقت لے لی اور اس کی ذرایع ابلاغ پر اس حوالے سے پذیرائی ہوئی توباقاعدہ محاذ آرائی کی سی کیفیت پیدا ہوگئ اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتارہا۔

پی پی پی کے چیئرمین اور وزیر اعلیٰ سندھ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت پر سندھ کی مدد نہ کرنے کے الزام کو دہریا اور وفاقی وزراء کی تنقید کا بھرپور جواب دینے کی دھمکی دی۔ بلاول بھٹو کا وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ اور کنٹینر کا طنز گویا اعلان جنگ تھا۔پھر وفاقی حکومت نےکئی بار سندھ میں گورنر راج کے نفاذکی دھمکی بھی دی۔ لیکن اس وقت کے سیاسی اور انتظامی حالات میںوفاقی حکومت اس قسم کے انتہائی اقدام کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔اس وقت نوّے کی دہائی کی سیاسی تاریخ دہرانے کا منظرنامہ بن رہا تھا۔ بدقسمتی سے بجائے اس کے کہ سندھ اور مرکزی حکومت وسائل، کورونا سے نمٹنے کے اسباب اور لاک ڈائون کے حوالے سے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے اور تحفظات دور کرنے کی سعی کرتیں کورونا سے پیدا شدہ حالات پر بھی سیاست کو حاوی کر دیا گیا تھا اور فریقین ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں تھے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ وزیراعظم کے بیانات کے برعکس دیگر صوبوں میں بھی لاک ڈائون میںتوسیع کاہی فیصلہ ہوتا تھا۔لیکن وزیراعظم اسے اشرافیہ کا فیصلہ قرار دے کر اس پر تنقید کرتے رہے۔تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ اشرافیہ سے وزیراعظم کی مراد کیاتھی۔البتہ وزیراطلاعات شبلی فراز نے اس کی تشریح سندھ حکومت کے طورپر کردی تھی۔

کووِڈ کےبحران کے آغاز سے ہی پاکستانی قیادت لاک ڈاؤن کی شدت اور اس کے پھیلاؤ کے معاملے پر تقسیم کا شکار رہی۔ تمام صوبائی حکومتوں نے وزیراعظم کی خواہشات کے برعکس مختلف درجوں کا لاک ڈاؤن نافذ کیا۔دوسری طرف وزیراعظم لاک ڈاؤن کے غریب اور دیہاڑی دار طبقے پر منفی اثرات کی وجہ سے اس کے مخالف رہے۔ آخر کارانتظامیہ بھی نو مئی سے ’’اسمارٹ‘‘ لاک ڈاؤن کے منصوبے، اور’’کم خطرات کی حامل‘‘ صنعتیں کھولنے، نیز ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگوں پر نگاہ رکھنے کے منصوبوں کے ذریعے ملک بھر میں جزوی لاک ڈاؤن کی جانب رخ موڑگئی۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے اگرچہ مرکز کی ہدایات پر عمل کرنے کا عندیہ دیا گیا ،لیکن انہوں نے اپنے صوبوں کے حالات کے تحت فیصلے کیےتھے۔

آصف علی زرداری،بلاول بھٹو ،سندھ کے وزیر اعلی اور پی پی پی کے بعض دیگر راہ نما سال کے مختلف حصوں میں نیب میں مختلف مقدمات کے ضمن میں پیش ہوتے رہے۔ستمبر میں میگا منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور پر فرد جرم عاید کی گئی۔ لیکن اکتوبر میں چیئرمین نیب نے جعلی اکاونٹس کیس میںسابق صدر آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے ۔

اپریل کے مہینے میں کراچی سے پی ٹی آئی کے بانی رکن نجیب ہارون نےقومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ حلقہ 256 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے محمد نجیب ہارون نےسماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا استعفیٰ شیئر کرتے ہوئے کہاتھا کہ میں نےبوجھل دل کے ساتھ قومی اسمبلی کی نشست سے اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو بھجوادیاہے۔

استعفے کی وجوہات میں انہوں نے بتایا کہ وہ 20 ماہ کی مدت کے دوران اپنے حلقے یا شہر کراچی کے لیے کچھ نہ کرسکے اس لیے وہ اس پوزیشن کے حق دار نہیں۔استعفے میں نجیب ہارون نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھاتھا کہ رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے کےبیس ماہ،اور پاکستان تحریک انصاف جو ہم نے مل کر بنائی تھی، اس کےچوبیس سال بعد مجھے احساس ہوا کہ میں آپ کا اعتماد،بھروسہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے میں اپنے حلقے یا اپنے آبائی شہر کی بہتری کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں حکومت کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد وہ آٹھ ماہ سے اس فیصلے پر غور کررہے تھے۔نجیب ہارون کا کہنا تھا کہ میں نے قومی خزانے سے ایک روپیہ نہیں لیا لیکن میرا ضمیر یہ کہتا ہے کہ میں اس پوزیشن پر رہنے کا حق دار نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کے بانی رکن اور قومی اسمبلی تک پہنچنے والے فاؤنڈنگ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے واحد رکن کی حیثیت سے میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ میں جب تک زندہ رہوں پارٹی رکنیت میرے پاس رہے۔

پھر پی ٹی آئی کےکراچی سےدوسرے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے جولائی کے مہینے میں استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے وزیراعظم سے ملاقات کا وقت مانگ لیاتھااور ملاقات میں اپنا استعفیٰ پیش کرنے کااعلان بھی کردیا تھا۔

انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اعترف کرتا ہوں میں کراچی کا ایک بے بس ایم این اے ہوں جو اپنے شہرکے لوگوں کو بجلی فراہم کرانے سے قاصر ہے۔ مجھ سے کراچی اور بالخصوص اپنے حلقے کے لوگوں کا تڑپنا سسکنا نہیں دیکھا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے وقت مانگاہے مل کرانہیں استعفیٰ پیش کردوں گا۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نےنجیب ہارون اور عامر لیاقت سے ملاقات کرکے ان کے تحفظات سنے تھے اور ان کا استعفی منظور نہیں کیا تھا۔

جولائی کے اواخر میں موسلا دھار بارش سے آدھا کراچی ڈوب گیاتھا۔ بجلی غائب اور بدترین ٹریفک جام ہو،اور نو افراد جاں بہ حق ہوگئے تھے۔ نظام زندگی درہم برہم اور گھروں میں پانی داخل ہوا، گاڑیاں ڈوب گئیں، بدترین ٹریفک جام میں لاکھوں لوگ گھنٹوں پھنسے رہے۔ طوفانی بارش کے سبب آدھا شہر بارش کے پانی میں ڈوب گیااور بجلی بند ہوگئی تھی۔ دو روز میں بارش کے سبب کرنٹ لگنے اور دیوار گرنے سے ہلاک ہونے والوں کی تعدادنو ہوگئی تھی۔ شہر قائد کے نصف حصے میں دھواں دار بارش ہوئی جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔

شہریوں کو بہ یک وقت کئی بڑے مسائل کا سامنا کرناپڑا۔ بارش ہوتے ہی شہر بھر کی بجلی بند ہوگئی، سڑکیں ڈوب ہوگئیں اور وہاں بدترین ٹریفک جام ہوگیا اور لاکھوں لوگ گھنٹوں پھنسے رہے۔بارش سے اورنگی ٹاؤن، سرجانی، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد سمیت ضلع وسطی کے متعدد علاقے ڈوب گئے اور گھروں میں پانی داخل ہوگیا جس سے لوگ گھروں میں محصور ہوگئے جنہیں امدادی عملے نے ریسکیو آپریشن کرکے گھروں سے نکالاتھا۔

پھر اگست کے اواخر میں کراچی میں جوسلا دھار بارش ہوئی اور مختلف حادثات میں اکیس افراد جا بہ حق ہوگئے تھے۔ستائیس تاریخ کو کراچی میں صبح سے موسلادھار بارش کا سلسلہ دن بھر جاری رہا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق شہر میںدو سو ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی جس کے بعد شہر کی اہم سڑکیں اور شاہراہیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔بارش کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حادثات کے نتیجے میں خاتون اور بچوں سمیت اکیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اگلے روز صورت حال اتنی خراب تھی کہ وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ نے صوبے میں چھٹی کا اعلان کردیا تھا۔صوبائی حکومت نے دو روز قبل فلڈ ایمرجنسی نافذ کردی تھی، تاہم یہ صرف بیان کی حد تک محدود رہی اور کوئی عملی اقدامات نہیں ہوئے، نتیجتاً بارش سے صورت حال مزید خراب ہو گئی۔

اس سے دوروز قبل بھی جب شہر کے کئی علاقے بارش میں ڈوبے تھے تو دن کے اختتام پر وزیر اعلیٰ سندھ نے شہر کے کچھ مقامات کا دورہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے چیف سیکریٹری سندھ کو صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات دیے تھے۔پھر ریکارڈ بارش میں شہرمیں سیلابی صورت حال پیدا ہوئی تو ترجمان چیف سیکریٹری سندھ سے اس حوالے سے استفسار کیا گیا کہ جو ایمرجنسی نافذ ہوئی تھی اس کا کیا ہوا؟تو فرحت امتیاز کا کہنا تھا کہ کراچی میں رین ایمرجنسی نہیں بلکہ اس بھی بڑھ کر فلڈ ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، جس کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کیا گیا تھا جس کے بعد تمام اداروں کے سٹاف کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہوں ڈیوٹی پر بلا لیا گیا تھا۔

اس بارش نے کراچی کو درحقیقت ڈبو دیا تھا۔ شہر کے پوش علاقوں میں بھی کئی روز تک بارش کا پانی کھڑارہا تھا ۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ شدید برسات کے سبب کراچی میں ڈیزاسٹر کی صورت حال ہوگئی ہے ۔ وزیراعلی سندھ نے لوگوں کی مدد کے لیے ڈی ایم سیز، ڈی سیز، پی ڈی ایم اے کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی تھا۔اس کے برعکس کراچی میں ریلیف آپریشن فلاحی اداروں اور فوج کی جانب سے کیا جا رہا تھا۔ آرمی کے جوان کئی یوم تک سرجانی کے علاقے میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرتے اور انہیں خوراک اور ضروری اشیا بھی فراہم کر تے رہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق پاک فوج کے دستوں نے کراچی حیدرآباد موٹروے کو پانی کے ریلے سے بچانے کے لیے اس کے گرد کئی کلومیٹر طویل بند باندھا تھا۔ دوسری جانب ملیر ندی میں طغیانی اور بند ٹوٹنے کی صورت میں پاک بحریہ کے دستوں نے ریلیف آپریشن میں حصہ لیا اور ندی کے کنارے بند پختہ کرنے کے علاوہ ندی میں پھنسے لوگوں کو ڈوبنے سے بھی بچایاتھا۔

بارش سے کراچی کے تمام انڈر پاسزپانی سے بھر گئے تھے۔دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما اور سابق وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے وزیرِ اعظم عمران خان سے مطالبہ کیاتھاوہ کراچی میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے این ڈی ایم اے اور پاک فوج کو فوری ذمہ داری تفویض کریں۔ان کا کہنا تھا کہ شہر کو آفت زدہ قرار دیں تاکہ شہریوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ طوفانی بارش کو شہر کا بوسیدہ انفراسٹرکچر بالکل بھی نہیں سنبھال پائے گا۔

بارش تو گزرگئی ،مگراس سے پہلے اور بعد میں کراچی کے کچرے،گندے نالوں اور بارش سے ہونے والی تباہی پر خوب خوب سیاست ہوئی اور گورنر راج تک کا مطالبہ ہوا۔پھر وزیر اعظم کراچی آئے۔ گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان ہوا۔پی پی پی ،پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پر مشتمل کمیٹی بنی،مل کر کام کرنے کا اعلان ہوا،مگر جلد ہی یہ سب کچھ ہوا ہوگیا اور ان اقدامات پر بھی خوب سیاست چمکائی گئی،الزامات کے تیر چلائے گئے اور پیکیج اس دھول میں کہیں غائب ہوگیا۔

اکتوبر کے مہینے میں سندھ میں میدانِ سیاست چار تاریخ کو کافی گرم ہوا۔اس روز کراچی اور حیدرآباد میں پاور شوکیے گئے۔ پیپلز پارٹی نےشہر قائد میں ریلی نکالی اور ایم کیو ایم نےحیدرآباد میں طاقت کا مظاہرہ کیا۔اسی ماہ ڈنگی اور بھنڈار جزائر کا تنازع کھڑا ہوا۔تاہم سال کی سب سے بڑی خبر کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعدمیاں نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے مبینہ’ ’اغوا‘‘نے بنائی جس کے بعد سندھ پولیس اور سندھ کی حکومت نےسخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔

بائیس تاریخ کو سندھ کے محکمہ داخلہ نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمے اور پولیس کی اعلیٰ قیادت سے ’’بدسلوکی اور توہین‘‘ کی تحقیقات کے لیے وزارتی کمیٹی کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیاتھا۔اس صوبائی وزارتی کمیٹی کے کنوینر صوبائی وزیر سعید غنی تھے۔ ارکان میں ناصر حسین شاہ، سید سردار علی شاہ،اویس قادر شاہ اور معاون خصوصی مرتضیٰ وہاب شامل تھے۔کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرینس کے مطابق کمیٹی 18 اور 19 اکتوبر کو کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس پر ڈالے گئے مبینہ دباؤ، آواری ہوٹل میں چھاپہ مار کر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی پرائیویسی اور وقار کو مجروح کرنے کے الزامات کی تحقیقات کرناتھی۔

یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹن (ر) صفدر کو 19 اکتوبر کی صبح کراچی کے ایک مقامی ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیاتھا اور پیر کو ہی کراچی کی ایک مقامی عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے الزام عاید کیا تھا کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو کراچی میں 'سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا جہاں اُن سے زبردستی کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر دست خط کروائے گئےتھے۔

اس سے دو روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس میں صوبائی وزارتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کے بعد آرمی چیف کی جانب سے کراچی کے کور کمانڈر کو تحقیقات کر کے فوری رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔اس سے قبل سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہ نما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں ان کو حکومت کے خاتمے کی دھمکی دی گئی، لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ’’عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے‘‘۔تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیاتھا کہ انہیں یہ’ ’دھمکی‘‘ کس کی جانب سے دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ اس واقعے کے بعدبیس اکتوبر کو صوبہ سندھ کے انسپیکٹر جنرل آف پولیس سمیت پولیس افسران نے احتجاجاً چھٹی پر جانے کی درخواستیں دی تھی جنہیں بعدازاں دس دن کے لیے موخر کیا گیا۔ پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ پولیس کے آئی جی اور دیگر سینیئر پولیس افسران کے ساتھ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں ایک اجلاس منعقد کیاتھا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق یہ اجلاس پولیس کے حوصلے بلند کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔

اس کے بعد دس نومبر کو فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب ایک بیان جاری ہواتھا جس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ ماہ پاکستان مسلم لیگ کے راہ نما کیپٹن (ر) صفدر کی کراچی میں حراست اور اس سے قبل سندھ کے انسپکٹر جنرل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان میں ملوث پاکستان رینجرز اور فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے متعلقہ افسران کو انہیں تفویض کی گئی ذمے داریوں سےسبک دوش کر دیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیاتھا کہ یہ فیصلہ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کے تحفظات پر فوج کے سربراہ کے احکامات پر کی جانے والی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق بانی پاکستان کے مزار کی 'بےحرمتی کے واقعے پر آئی ایس آئی اور رینجرز پر فوری اقدامات اٹھانے کے لیے شدید عوامی دباؤ تھا۔کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی اور رینجرز کے حکام نے اُس واقعے پر 'پولیس کی سست روی کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ فوجی افسران زیادہ مناسب طریقے سے اقدامات اٹھاسکتے تھے اور اگر وہ تحمل اور سمجھ داری سے کام لیتے تو کوئی نامناسب واقعہ پیش نہ آتا اور ریاست کے دو اداروں کے درمیان غلط فہمی نہ ہوتی۔

واضح رہے کہ آئی جی سندھ کو زبردستی ان کے گھر سے لے جائے جانے کے واقعے کی وفاقی حکومت اور وزرا نے مکمل تردید کی تھی۔تاہم بلاول بھٹو زرداری کے مطالبے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نےاس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی کے کور کمانڈر کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس معاملے سے منسلک حقائق کا تعین کریں۔

اس سے قبل سندھ پولیس نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پرپر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں درج ایف آئی آر کوجھوٹا قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔پولیس کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں مؤقف اختیار کیا گیاتھا کہ جب پولیس کی جانب سے مدعی کے موبائل فون ریکارڈ کے ذریعے واقعے کے روز کی لوکیشن معلوم کی گئی تو وہ وقوعے کے مقام کی نہیں تھی۔ تفتیشی رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ اس ضمن میں پولیس کی جانب سے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج ریکارڈنگ کا بھی معائنہ کیا گیا تاہم اس کے بہ غور جائزے کے بعد اس میں بھی مدعی کی موجودگی ظاہر نہیں ہو سکی، جس کے بعد مدعی کی جانب سے واحد قابلِ دست اندازی دفعہ جھوٹی ثابت ہوتی ہے اور اس طرح اس ایف آئی آر کو خارج کر دیا گیا۔

دسمبر کے مہینے میں سندھ میں ایک بار پھر آئی جی کی تبدیلی کا تنازع اٹھا۔اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وفاق کی درخواست پر آئی جی سندھ کےلیے پانچ نام بھجوا دیئے ہیں امید ہے کہ تجویز کیے گئے ناموں میں سے ہی آئی جی سندھ مقرر ہو جائے گا۔

سندھ کی تقسیم نا گزیر ہے ،تقسیم نہیں ہونے دیں گے،کے نعرے 2020میں بھی لگائےگئے۔ سال کی دوسری بڑی خبر شہباز شریف کی آصف زرداری سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات سے پی پی پی اور نون لیگ کے درمیان برف پگھلی۔مریم بے نظیر کی برسی پر سندھ پر آرہی ہیں ۔ان عوامل سےسندھ میں نون لیگ کو کچھ سیاسی اسپیس مل سکتی ہے۔سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوئی تو ایڈمنسٹریٹر کی تقرری پر سیاست ہوئی۔بلدیاتی انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں پر مراد علی شاہ نے اصرار کیا۔

پی ڈیم کا کراچی میں جلسہ ہوا تو اس پر بھی سیاست کا بازار خوب گرم ہوا۔جعلی ڈومیسائل اورکیماڑی کو ضلع بنانے پر احتجاج ہوا۔ایاز لطیف پلیجو نے سندھ محبت مارچ کیا۔تاہم سندھ میں قوم پرست سیاست دانوں کی پہلے جیسی سرگرمی دکھائی نہیں دی۔ ڈنگی اور بھنڈار کے جزائر اور سویا ڈسٹ کے معاملے پر بھی بازارِ سیاست خوب گرم ہوا۔ مہاجر کلچرل ڈے منانے کی روایت کو باقاعدہ بنانے کی کوششیں ہوئیں ، لیکن ایم کیو ایم پاکستان نےاس کی مجوزہ تاریخ چوبیس دسمبر سے اختلاف کرکے اسے فروری میں منانے کا اعلان کیا۔