شہ مات دینے اور کھانے والے

January 01, 2021

2020ء کی عالمی شخصیات ، جن کے نام سربام آئے۔ طاقت ، سیاست، اہلیت، خدمت کی علامت بن کر ابھریں۔ معروف جریدہ ’’ٹائم میگزین‘‘ سمیت دیگر رسائل کے مطابق سال 2020ء کی نمایاں ترین شخصیات میں امریکا کے نو منتخب صدر، جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس ہیں۔ ٹائم میگزین نے انہیں سرورق پر جگہ دی ہے۔ ذیل میں دنیا کی چند طاقت ور شخصیات کے بارے میں مختصراً درج ہے۔

شی جن پنگ

شی جن ینگ،چین کے صدر، مسلح افواج کے سربراہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے دُنیا کے طاقتور ترین رہنما ہیں۔ نوے کی دہائی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ وہ چین کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اپنی صلاحیتوں، کام کرنے کی لگن، نظریات کی پختگی کی وجہ سے وہ بلند ی پر پہنچے۔ ان کا وژن بہت وسیع ہے انہوں نے اور چینی کمیونسٹ پارٹی نے گزشتہ دو دہائیوں میں چین کو دنیا کی بہت بڑی اقتصادی اور ملٹری طاقت بنا دیا ۔ چینی صدر کا عزم ہے کہ چند برسوں میں چین سے غربت کا خاتمہ کرکے ترقی کی نئی منزلوں کی جانب گامزن کیا جائے گا۔

ون بیلٹ ون روڈ کے مطابق عمل کرتے ہوئے چین نے جنوبی مشرقی ایشیا سمیت افریقہ، وسطی ایشیا اور جنوبی امریکہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے نئے تجارتی اور اقتصادی معاہدے کئے۔ چین کی پیداوار کا سالانہ ہدف دس فیصد سے زائد ہے۔ صدر شی جن نے خارجہ معاملات میں بھی چین کو برتری دلائی ہے۔

اقوام متحدہ سمیت یورپی یونین، اسلامی ممالک کی تنظیم اور افریقی یونین میں صدر شی جن کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی مثالی ہے اور اس میں صدر شی جن سمیت کمیونسٹ پارٹی کا بھی نمایاں حصہ ہے۔ چین بھارت سرحدی تنازعہ میں بھارت کو سخت وقت دیا ہے،اس نے لداخ کے علاقے میں اپنی دفاعی پالیسی پر عمل کیا اور بھارت کے ہر احتجاج اور دھمکی کو نظر انداز کیا۔ صدر شی جن، کم گو اور اور نرم مزاج شخصیت مانے جاتے ہیں۔ عالمی رہنمائوں میں صف اوّل میں شمار ہوتے ہیں۔

طیب اردوان

ترکی کے صدر طیب اردوان اسلامی دنیا کے اہم رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ نوجوانی ہی میں اسلامی طلبا جماعت کے رہنما بن کر ابھر ے ، انہوں نے تب ہی سے سیاست میں اپنا کردار ادا کیا۔ طالب علمی کے دور کے بعد وہ تحریک اسلامی جماعت میں شامل ہو گئے اور باقاعدہ ملکی سیاست میں فعال کردارادا کرنا شروع کیا۔ ایسے میں انہیں جماعت نے استنبول کے شہر کے لئے مقامی انتخابات میں شریک ہونے کو کہا۔ طیب اردگان یہ انتخاب جیت کر استنبول کے میئر منتخب ہو گئے۔ یہاں سے ان کی قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع ملا۔ وہاں بیشتر اسلامی قوانین نافذ کئے جس پر شہر کے لبرل حلقے ان کے مخالف ہو گئے۔

طیب اردگان 1924ء میں استنبول میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد وہ APK جماعت میں شامل ہو گئے۔ 2003ء میں پارٹی کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمان کے رکن بن گئے پھر وزیراعظم کا منصب سنبھالا اور اپنی عمدہ کارکردگی کی بدولت عوامی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ انہوں نے مغرب کے ذہن میں موجود مفروضات کو دور کیا جو ترکی کو خالص اسلامی مملکت تصور کر رہے تھے۔ طیب اردوان بعض لبرل اور جمہوری اصولوں کو اسلامی رویات سے یاہم ایک کر کے مغربی کی غلط فہمی دور کردی۔ ترکی کا لڑکا اعزازی رکن ہے، تاہم یورپی یونین میں شامل ہونے کی بھی خواہش رکھتا ہے۔

طیب اردوان 2015ء کے عام انتخابات میں جیت کر ملک کے صدر منتخب ہو گئے، بعد ازاںانہوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ قانون سازی اور اصلاحات پر زور دیا۔ وہ 2023 میں یورپ سے ترکی کا سو سالہ معاہدہ ختم ہونے پر وہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کا احیاء چاہتے ہیں۔ ترکی اسلامی دنیا کا طاقتور ملک ہے۔

ولادی میر پیوٹن

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کو طاقت ور ترین رہنمائوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پیوٹن نے سوویت یونین کے دور میں روسی خفیہ ایجنسی کے بی جی سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ وہ کمیونسٹ نظریات کے کبھی ماضی نہیں رہے۔ سوویت یونین کے شیرازہ بکھر جانے کے بعد سیاست میں سرگرم ہو گئے۔

سال 2000میں انہوں نے صدر کے عہدے کا انتخاب لڑا اور کامیاب ہو گئے، بعدازاں ولادی میرپیوٹن نے سیاست میں قدم جما کر وزیراعظم اور پھر صدر منتخب ہو گئے۔ اب وہ تاحیات صدر اور مسلح افواج کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ مغربی رہنمائوں کو ان کی پالیسیوں کی وجہ سے اپنی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ صدر پیوٹن کا وژن وسیع ہے۔ روس کو ایک بار پھر عالمی طاقتوں میں نمایاں ترین مقام دلانا چاہتے ہیں، مگر روس پر اقوام متحدہ کی بیشتر اقتصادی پابندیوں کے سبب روس کو خاصی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔

فی الفور، روس کا سارا زور جدید ہتھیاروں کی فروخت سے سرمایہ حاصل کرنا ہے۔ صدر پیوٹن مصنوعی ذہانت کے فروغ کو مستقبل قریب میں بیروزگاری کی علامت تصور کرتے ہیں۔روس کے پاس تیل اور گیس کے عظیم ذخائر موجود ہیں مگر تیل کی گرتی ہوئی قیمت اور مقابلے کے رجحان میں اضافہ سے روس کو نقصان ہوا ہے مگر صدر پیوٹن کی کوششیں جاری ہیں۔

سال کی دو شخصیات

جوبائیڈن

امریکہ کے صدر جوبائیڈن 20؍نومبر 1942ء کو پینسلوانیا میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے۔ بائیڈن نے 1961ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور 1965ء میں ڈیلاونر یونیورسٹی سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ ان کے بنیادی مضامین سیاسیات اور تاریخ تھے، جبکہ اختیاری مضمون انگریزی تھا۔ وہ اوسط درجے کے طالب علم رہے مگر اسکول اور یونیورسٹی میں فٹ بال کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ وہ بیس سال کی عمر تک ہکلا کر بولتے تھے۔ بائیڈن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اونچی آواز میں شاعری پڑھ کر اپنی اس کمزوری کو دور کیا۔ ان کی پہلی شادی 1966ء میں ہوئی۔ تین بچے پیدا ہوئے دو بیٹے اور ایک بیٹی۔

اس دوران انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کرکے پریکٹس شروع کردی۔ 1997ء میں ان کی اہلیہ اور چھوٹی بچی دونوں کا انتقال ہوگیا۔چند برس بعد جل ٹریسی سے شادی کرلی۔ ستر کے عشرے میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ سیاست میں ان کا فوکس ویت نام کی جنگ، شہری جمہوری حقوق اور ماحولیات پر رہا۔

چھ بار وہ سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ سینٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے عرصے تک سربراہ رہے۔ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں بائیڈن ان کے نائب صدر اور بااعتماد سیاسی ساتھی رہے۔ ان کے طویل سیاسی تجربے اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بائیڈن کو ان کی پارٹی نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا اور انہوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔

کملا ہیرس

امریکہ کی پہلی رنگدار نائب صدر کملا ہیرس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی والدہ کا تعلق بھارت ایشیا سے، والد کا جمیکا سے افریقین نژاد جبکہ کملا امریکہ میں پیدا ہوئیں اس طرح یہ تین براعظموں کی ثقافتی نمائندہ ہیں۔ ان کے والد امریکہ میں معاشیات کے پروفیسر تھے۔ والدہ گوپالن ماہر نباتیات اور یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں۔

کملا ہیرس نے 1982ء میں ہائی اسکول پاس کیا۔ 1982ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات اور معاشیات کی سند حاصل کی، بعدازاں انہوں نے 1988ء میں کیلی فورنیا یونیورسٹی سے قانون کی سند حاصل کی۔ چار سال المیڈا ڈسٹرکٹ میں ڈسٹرکٹ اٹارنی کے طور پر کام کرتی رہیں۔ 2011ء میں وہ اٹارنی جنرل کے انتخاب میں کامیاب ہوئیں۔ انہوںنے بہترین مقرر اور باصلاحیت قانون داں کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ سات برس تک اٹارنی جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔

وہ پہلی رنگدار نسل اٹارنی جنرل تھیں۔ ان کا حلقہ احباب کا بڑا حصہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ جن میں نینسی پلوسی بھی شامل تھیں، اس حوالے سے کملا ہیرس نے 2017ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر سینٹ کے انتخاب میں حصہ لیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ وہ سینٹ میں عدلیہ کمیٹی کے سربراہ رہیں۔

سابق امریکی صدر باراک اوباما اور نائب صدر بائیڈن کی حمایت حاصل رہی وہ دیگر کمیٹیوں کی بھی سربراہ رہیں پھر بائیڈن نے ان کو نائب صدر کے طور پر نامزد کیا اور اب وہ امریکہ کی نائب صدر اور بااثر سیاسی رہنما تصور کی جاتی ہیں۔

انجیلا مرکل

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کو 2020ء میں یورپی یونین کی طاقتور ترین شخصیت تسلیم کیا گیا ہے۔ وہ 2005ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے منتخب ہو کر پہلی چانسلر بنیں۔ انہوں نے یورپی یونین کو متحد رکھنے کے لئے خاصی محنت کی ہے۔ وہ اعتدال پسند انسان دوست اور ماحول دوست رہنما ہیں۔ گزشتہ دنوں جب شمالی افریقہ اور عرب ممالک کے تارکین وطن کے جوق درجوق قافلے سمندری راستوں سے یورپ پہنچے، تب ان کی ہمدردی میں سب سے توانا آواز انجیلا مرکل کی تھی۔ ان کی اس انسان دوست پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

انجیلا مرکل نے ماحول دوست پالیسیاں وضع کر کے بھی اپنی پوزیشن کو نمایاں کیا ان کے دور میں جرمنی نے الیکٹرک کاریں تیار کیں،چھوٹی کاروں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی، سولر انرجی کے استعمال کو خاصا فروغ دیا گیا، اس پر مزید کام ہو رہا ہے۔کام کے اوقات کار کو آٹھ سے چھ گھنٹے کی تجویز پیش کی، جس پر یورپی یونین غور کر رہی ہے۔

انجیلا مرکل کو ادب کے علاوہ انگریزی فرانسیسی اور روسی ادب اور زبانوں سے بھی بہت لگائو ہے، انہوں نے کیمیا میں یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔ طلباء تنظیموں میں بھی بہت فعال کردار ادا کرتی رہیں۔ زمانہ طالب علمی سے انہیں بڑی شخصیات کی سوانح حیات پڑھنے کا شوق رہا، اس کے ساتھ ساتھ وہ عالمی منظر اور تاریخ پر گہری نظر رکھتی ہیں، یہی وجہ ہے وہ لبرل، جمہوریت پسند ہیں اور نسلی تفریق کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

ولیم ہنری بل گیٹس

ولیم ہنری بل گیٹس 1955ء میں واشنگٹن (امریکا)میں پیدا ہوئے۔ زمانہ طالب علمی میں اوسط درجے کے طالب علم تھے۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد انہوں نے ہارورڈ کالج سے گریجویشن کیا۔ اسکول کے زمانے ہی سے انہیں کمپیوٹر سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ 13 سال کی عمر میں بنیادی پروگرام سیکھ لیا۔ اس کے بعد ان کی کمپیوٹر میں دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ 1974ءمیں انہوں نے نیشنل ٹرسٹ اسکالر شپ حاصل کیا۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی، پروگرامنگ اور ویڈیو گیمز کے بارے میں گہرا مطالعہ کیا اور پھر شراکت داری میں اپنا ادارہ سوفٹ ویئر قائم کیا۔ اس دوران معروف ادارہ آئی بی ایم نے ان سے کچھ پروگرام تیار کروائے۔ 1980ء کے بعد ان کا کام پوری طرح منظر عام پرآیا اور ان کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا۔ سوفٹ ویئر کمپنی نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ کاروبار تیزی سے ترقی کرتا گیا۔سال 2000ء تک ان کا شمار امریکہ ایک سو بڑی امیر شخصیات میں ہونے لگا۔ بل گیٹس بچپن ہی سے خدا ترس اور نرم مزاج واقع ہوئے تھے۔

دولت کمانے اور شہرت پانے کے باوجود ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنی کمپنی کی ایک افسر ملینڈا سے شادی کر لی۔ اس کے بعد ان کی انسان دوستی نے انہیں ملینڈا بل گیٹس فائونڈیشن کے قیام کی راہ سجھائی اور ان کی فلاحی فائونڈیشن نے پولیو، ایڈز، ملیریا جیسی بیماریوں کے دوائیں اور ویکسین تیار کر ملک غریب ممالک میں تقسیم کرانی شروع کی۔ 2012ء تک بل گیٹس اپنی فلاحی فائونڈیشن کو 40 ارب ڈالر دے چکے تھے۔ چھ براعظموں میں ان کی فائونڈیشن کام کر رہی ہے۔ اب انہوں نے کووڈ ویکسین کے لئے بھی بھاری رقم عطیہ میں دی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2016ء میں اچانک کامیاب ہو جانے پر بہت حیرت ہوئی تھی۔ اب 2020ء میں ان کو صدارتی انتخابات میں شکست پر بھی حیرت ہے، کیونکہ ایک عرصے سے امریکی سیاست میں یہ روایت سی چلی آرہی تھی کہ اگر امریکی صدر دوسری بار انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو عموماً کامیاب ہوتا رہا ہے، مگر اس بار یہ دیرینہ روایت ٹوٹ گئی۔ امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو دراصل کووڈ۔19 نے شکست سے ہمکنار کیا، ورنہ وہ صدر بائیڈن کے سامنے نہیں ہارتے۔

دوسرے صدر ٹرمپ سیماب فطرت، تندوتیز لہجہ، ساتھیوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھنا ان کے شکست میں بھی اہم رہے، البتہ ایران کے جوہری معاہدہ کو منسوخ کرنا اور پیرس کے وسیع تر ماحولیات کے معاہدہ کو قبول نہ کرنا بھی ان کی غیر دانش مندانہ پالیسی کے غماز ہیں۔ صدر ٹرمپ پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے یورپی یونین کے ممالک کو جو امریکہ کے زبردست حلیف تھے، ناراض کر دیا اور نیٹو ممالک سے کہا کہ اپنا اپنا دفاعی بجٹ بڑھائو اور امریکہ کی طرف نہ دیکھو۔

اس طرح وہ حالیہ صدارتی انتخابات میں پیچھے رہ گئے، جبکہ صدر ٹرمپ کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے عراق اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا اشارہ دیا اور دنیا میں امن قائم رکھنے کی پالیسی کو فروغ دیا۔ امریکی ملٹی نیشنل اداروں کو جنہوں نے چین میں سرمایہ کی، ٹیکنالوجی چین کو دی اور محض زیادہ منافع کے حصول کے لئے امریکی عوام کو بے روزگار کر کے ان کے خلاف، آواز اٹھائی اور درآمدات پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا، جس پر چین نے صدر ٹرمپ کے خلاف آواز اٹھائی مگر انہوں نے امریکہ پہلے کا نعرہ دیا، البتہ تمام حقائق کا میزانیہ صدر ٹرمپ کے حق میں نہیں گیا۔

نریندر مودی

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی 2014ء کے عام انتخابات میں پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے پھر 2018ء میں دوسری بار بھی جیت گئے مگر بھارتی عوام کا ایک بڑا حصہ بشمول مسلم، عیسائی، سکھ اور بدھ مت کمیونٹیز ان کے دور میں شدید مضطرب ہیں۔ نریندر مودی پر انتہا پسند ہندو حلقوں کی بے جا طرفداری کا الزام عرصے سے ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ متنارع شہریت کا بل، کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے، آئین کی شق ستر کو منسوخ کرنے کا عمل، حالیہ مشرقی پنجاب کے کسانوں کی ہڑتال اور متنازع کسان پالیسی پر احتجاج، یہ سب کچھ مودی سرکار کے خلاف رہا ہے، البتہ عالمی سطح پر پاکستان یا مسلم مخالف حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کی مودی کی کوششیں اور ہتھیار جمع کرنے کی پالیسی سے بھارتی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

کووِڈ۔19کی روک تھام میں کوتاہی اور غلط پالیسی نے بھی بھارتی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جاری حالات میں پورا بھارت بے چینی اور گومگو کا شکار ہے۔ہر چند کے نریندر مودی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نچلی سطح سے اوپر آئے ہیں اس حوالے سے وہ کروڑوں غریب اور مایوس عوام کی فلاح اور خوشحالی کے لئے کام کرتے، ملک سے انتہا پسند اور ناہمواری کو دور کرتے تو ان کا نام روشن ہوتا اور انہیں عوام کندھوں پر بٹھاتے مگر اس کے برعکس جو پالیسی انہوں نے اپنائی وہ بھارتی عوام کی خوشحالی، عوامی یکجہتی اور اعتدال پسندانہ رویوں کے خلاف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔

پوپ فرانسس

پوپ فرانسس 266ویں روحانی پیشوا ہیں۔ مارچ 2013ء میں انہیں پوپ نامزد کیا گیا تب سے وہ تمام جائزوں میں ہر سال دنیا کی طاقتور شخصیات کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مذہبی معاملات کے علاوہ دنیا کے سیاسی معاملات اور ماحولیات کے مسئلے میں یعنی دلچسپی ظاہر کر کے اپنی مزید جگہ نمایاں بنالی۔ 2015ء میں پوپ نے امریکی صدر باراک اوباما کی دعوت پر شمالی قطب کا دورہ کیا تھا، برفانی تودوں کے پگھلنے کے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کرہ ارض کے موسمی تغیرات گلوبل وارمنگ اور آلودگی میں تیزی سے اضافہ پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی، اسی سال پیرس میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں شرکت بھی کی، جس میں ماحولیات کے حوالے سے عالمی معاہدہ طے پایا تھا۔

پوپ فرانسس نے گزشتہ دنوں تمام کیتھولک کلیسائوں کو اپنی طرف سے گشتی مراسلہ ارسال کیا، جس میں ماحولیات کی تشویشناک صورتحال سے آگہی دی گئی تھی۔ امریکی پبلکن پارٹی کے رہنمائوں نے پوپ فرانسس کی ان سرگرمیوں پر تنقید کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ اگر پوپ فرانسس یہی کچھ کہتے رہے تو وہ اپنے موجودہ عہدے سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست میں آجائیں۔ پوپ نے اس طرح کی تنقید کی کبھی پروا نہیں کی، کیونکہ ان کا مشن کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ وہ انسانیت کی بقاء اور سلامتی کے لئے قدرتی ماحول کا تحفظ چاہتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات ایک حقیقت میں ماہرین اور سائنس دان جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں پوپ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا۔

ایمانوئل میکرون

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون 1977ء میں فرانس میں پیدا ہوئے۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف پیرس میں داخلہ لیا، جہاں میکاونی اور کارل مارکس پر مقالات تحریر کر کے اعلیٰ سند حاصل کی۔ کچھ عرصہ بینک میں ملازمت کی پھر وزارت مالیات سے وابستہ ہو گئے۔ اس ملازمت سے عملی سیاست میں داخل ہوئے اور جنرل سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ پارٹی میں ان کی کارکردگی بہت نمایاں رہی۔ پر جوش تقریروں اور فعال کردار کی وجہ سے پارٹی نے انہیں 2007ء کے صدارتی امیدوار کے لئے ٹکٹ دیا، حزب اختلاف سے سخت مقابلے کے بعد میکرون جیت کر صدر بن گئے، پھر 2017ء کے صدارتی انتخابات میں بھی جیت گئے۔

فرانس کے صدر کو آئینی طور پر بہت سے اختیارات حاصل ہوتے ہیں تو مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔ 2020ء میں صدر ایمانوئل میکرون نے آزادی اظہار کے نام پر جس طرح انتہائی نازیبا خاکوں کی نمائش کی اور ناموس رسالتؐ کا مذاق اُڑایا، اس پر تمام عالم اسلام سراپا احتجاج ہوا، اور میکرون سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت بن گئے۔ اسلامی دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے فرانس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا۔مغربی دنیا کے بھی بیشتر ممالک نے فرانس کے صدر کے انتہا پسند رویئے کو قطعی ناپسندیدہ قرار دیا۔

کینیڈا کے وزیراعظم نے سخت الفاظ میں مذمت کی، آزادی اظہار کی حدود اور اخلاقیات کی پابندیاں گنوائیں۔ واضح رہے کہ فرانس میں مسلم آبادی کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد ہے۔ مسلم ممالک نے بروقت اپنا شدید ردعمل ظاہر کر کے فرانس اور دیگر قدامت پسندوں کو بھی اپنا پیغام دے دیا۔ صدر ایمانوئل میکرون کی شہرت اور سیاسی ساکھ اس افسوسناک واقعہ سے شدید نقصان پہنچا ہے اور عوام کی نمایاں تعداد ان کی اس نوعیت پالیسی کے خلاف ہے۔

نینسی پلوسی

نینسی پلوسی امریکن ایوان کانگریس کی اسپیکر مارچ 1940ء میں بائی مور میں پیدا ہوئیں، ان کا آبائی وطن اٹلی تھا۔ والد کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے رہا وہ بھی کانگریس کے رکن رہے۔ پلوسی نے 1962ء میں گریجویشن کیا اور ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہوئیں۔ 1987ء میں پارٹی کی طرف سے انتخابات میں حصہ لے کر کانگریس کی رکن منتخب ہوئیں اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔

ان کو بہترین مقررہ، ترجمان اور سیاستداں تسلیم کیا جاتا ہے۔ مذاکرات کامیاب بنانے اور دوسروں کو قائل کرنے کا گر جانتی ہیں۔ امریکہ کینیڈا اور میکسیکو کے مابین بڑے تجارتی معاہدوں کو طے کرنے ، کووِڈ۔19کے حوالے سے بہترین کارکردگی دکھانے اور حزب اختلاف کے رہنما کا بھرپور کردار ادا کرنے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو پلوسی نے سخت وقت دیا۔2020ء میں کانگریس کے فلور سے بچوں، امیگریشن اور پولیس کے مسائل، رنگ دار نسل کے تنازع اور معاشی گراوٹ جیسے مسائل پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جس سے ان کا سیاسی قد اوربلند ہوگیا۔ کانگریس میں امیگریشن کے مسئلے پر تقریر کرنے کا آٹھ گھنٹے کا ریکارڈ قائم کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے محاسبہ میں بھی پلوسی نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2020ء کے صدارتی انتخابات کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کی فہرست میں نینسی پلوسی کا نام بھی شامل رہا تھا۔ نائب صدر کے لئے کملا ہیرس کی حمایت انہوں نے بھی کی۔

ڈاکٹر انتھونی فاوچی

کووِڈ۔19نے جب 2019ء میں امریکہ کو نشانہ بنایا تب امریکی عوام کے سامنے پہلی بارایک ایسی شخصیت ابھر کر سامنے آئی جس نے اس مہلک بیماری کے بارے میں امریکی عوام کو درست آگہی دی اور اس وبائی مرض سے بچائو کے طریقے بتائے، مگر صدر ٹرمپ نے کووِڈ۔19 کے حوالے سے جس غیرسنجیدہ روئیے کا مظاہرہ کیا اس سے امریکہ کو شدید نقصانات برداشت کرنے پڑے، مگر ڈاکٹر انتھونی جو کرسکتے تھے انہوں نے کیا اور ایسے وقت میں وہ امریکی عوام کے سامنے کھڑے رہے۔ انہیں صدر بائیڈن نے اپنا مشیر صحت نامزد کردیا ہے۔

ڈاکٹر انتھونی فاوچی نے 1968ء میں قومی صحت کے ادارے ’’طبی ریسرچ‘‘ کے شعبے میں اپنی خدمات انجام دیں۔ 1985ء میں انہیں قومی صحت کے ادارے کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ انہوں نے اپنی محنت، اعلیٰ صلاحیتوں اور انسانی خدمت کے ذریعہ بڑا نام پیدا کیا اور بیس سے زائد امریکی جامعات نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی اسناد سے نوازا۔ وہ مختلف جامعات میں لیکچرز بھی دیتے ہیں۔مختلف ریسرچ جرنلز میں تین درجن کے قریب تحقیقی مقالات تحریر کئے ہیں۔ انہیں مختلف قومی طبی اداروں نے بہت سے اعزازات سے نوازا ہے۔ کووِڈ۔19کے وبائی مرض کے دوران بھی وہ میدان میں اپنی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور کووِڈ کی ویکسین تیار کرنے کے عمل میں شریک ہیں۔انہیں 2020ء کی اہم شخصیت کہا جاتا ہے۔

برازیل کے صدر جیر پولسنیرو

برازیل کے صدر جیر پولسنیرو نے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد فوجی اکیڈمی میں دوسالہ کورس مکمل کرکے فوج میں شمولیت اختیار کی، جہاں وہ 1988ء تک اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے بعدازاں عملی سیاست میں شرکت کی اور سٹی کونسل منتخب ہوگئے۔ نوے کی دہائی سے 2018ء تک وہ برازیل نیشنل کانگریس میں اپنا کردار نبھاتے رہے۔ دوران سیاست ان کو بدعنوانی کرنے اور مخالفین سے سخت روئیے اپنانے کے الزامات سے بھی گزرنا پڑا۔

2017ء میں پولسنیرو نے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا، مگر مطلوبہ ووٹوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوئے، 2018 میں منتخب صدر کے انتقال کے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات میں ہدف سے زائد ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے اور صدر منتخب ہوئے۔ کووِڈ۔19کے وبائی مرض نے ان کی شہرت کو بہت نقصان پہنچایا ۔ برازیل کے عوام کی نمایاں تعداد کووِڈ۔19کا مقابلہ کرنے کی پالیسی میں ناکامی پر ان سے برہم ہیں کیونکہ اس مہلک وبا نے برازیل میں بڑی تعداد میں عوام کی جان لے لی۔

ڈاکٹرسائی انگ وین

تائیوان کی صدر ڈاکٹر سائی انگ وین اگست 1951ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق متمول گھرانے سے رہا۔والد کاروباری شخصیت تھے۔ انہوں نے سیاسیات اور قانون کی اسناد حاصل کیں اور پی ایچ ڈی کی بھی سند حاصل کی\1984ء میں وہ واپس تائیوان آگئیں اور یونیورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ ہوئیں۔ بعدازاں انہوں نے جمہوری ترقی پسند پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور پارٹی کی فعال رہنما بن گئیں۔ 1990ء میں انہوںنے جنرل ایگریمنٹ ٹریڈ اینڈ ٹیرف کے معاہدہ میں تائیوان کو رکن بنوایا پھر چند برس بعد تائیوان کو ان کی کوششوں سے ڈبلیو ٹی او کی بھی رکنیت مل گئی۔ 2004ء تک وہ نائب صدر سے پارٹی کی صدر نامزد ہو گئیں۔

اس اثناء میں ڈاکٹر سائی انگ نے بیشتر اہم علاقائی معاہدوں اور فورمز میں تائیوان کو شریک کیا اور اقتصادیات کی ترقی کیلئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔انہوں نے عالمی سطح پر تائیوان کے مفادات اور اس کی قومی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ وہ جمہوریت پسند اور آزادی کی حامی رہنما تسلیم کی جاتی ہیں۔