تعلقات کی دنیا کا حال کیا کہیے

January 01, 2021

سن دو ہزار بیس میں ویسے تو پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا میں مبتلا رہی لیکن پھر بھی عالمی سطح پر بڑے واقعات رونما ہوئے۔سال کے اواخر میں دنیا کی مجموعی آبادی سات ارب اسی کروڑ تھی جس میں سے ساٹھ فیصد آبادی براعظم ایشیا کی تھی یعنی ساڑھے چار ارب سے زیادہ آبادی ایشیا میں رہتی ہے اور مزید غور کیا جائے تو جنوبی ایشیا کی آبادی تقریباً دو ارب افراد پر مشتمل ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً پچیس فیصد بنتا ہے یعنی دنیا کا ہر چوتھا فرد جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتا ہے اس لئےعالمی منظرنامے کا آغاز جنوبی ایشیا سے کرتے ہیں۔

بھارت۔2020ء کے اواخر میں یورپ کے علاوہ دنیا کے دیگر براعظموںمیں بھارت کے ایسے جعلی خبریں پھیلانے والے جال کا انکشاف ہوا جو دنیا بھر میں پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں مصروف تھا اس مقصد کے لئے بھارت نے درجنوں غیر سرکاری تنظیمیں اور سیکڑوں ویب سائٹس بنائیں جن سے مسلسل ایسی خبریں اور دیگر مواد نشر کیا جاتا جو گمراہ کن تھا۔بھارت نے 2020ء میں چین کو بھی آنکھیں دکھانے کی کوششیں کیں اور سرحدی جھڑپوں میں بھارت کے درجنوں فوجی ہلاک و زخمی ہوئے خاص طور پر لداخ کے سرحدی علاقوں میں بھارت اور چین ایک دوسرے پر دراندازی کے الزام لگاتے رہے لیکن حتمی طور پر چین کا پلڑا بھاری رہا۔

داخلی طور پر نریندر مودی اور ان کی جماعت نے اپنی ہندو قوم پرستانہ حکمت عملی جاری رکھی، خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ٹرمپ کے دورے کے موقع پر دہلی میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کرائے گئے اور پھر ’’لوجہاد‘‘ کا ایک نیا قانون بھارت کی چھ ریاستوں نے منظور کیا جس کے تحت بین المذاہب شادیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی جس سے معاشرتی رواداری میں اضافہ ہوسکتا تھا۔

بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ہو نے والے انتخابات میں بی جے پی کی حمایت یافتہ جماعتوں کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی ۔ بی جے پی نے سپریم کورٹ کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور زیادہ تر عدالتوں نے فیصلے بی جے پی کے حق میں دیئے۔چیف جسٹس شرد بوبدنے بھی بی جے پی کی طرف نرم گوشہ رکھا، کیوں کہ یہ اس بنچ کا حصہ تھے جس نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نریندر مودی حکومت نے بھارتی نظام تعلیم کا سیکولر چہرہ بھی مسخ کردیا۔ اس سے قبل تمام مذاہب کے بارے میں آگاہی دی جاتی تھی مگر اب بھارتی نظام تعلیم میں واضح طور پر ہندومت اور ہندوتوا کو فروغ دیا جس کے اثرات یقیناً بہت بھیانک نکلیں گے۔

بنگلہ دیش ۔بنگلہ دیش کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ، اس سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد صرف سات ہزار رہی۔دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش کوبھی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کی کارکردگی اپنے پڑوسی ملکوںسے بہتر رہی۔ سال2020 میںبھی بنگلہ دیش میں برما سے روہنگیا مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور اس کا توڑ یہ نکالا گیا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو خلیج بنگال کے ایک دور دراز جزیرے بھاسن چار میں منتقل کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔

اب بنگلہ دیش حکومت کی کوشش ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مہاجرین کی منتقلی میں اس کی مدد کریں۔ بنگلہ دیش نے اپنے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر کرنے کی حکمت عملی جاری رکھی اور نہ صرف بھارت بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک جیسے نیپال اور سری لنکا سے بھی تعلقات بنائے اور چین کی مدد سے بھی کئی منصوبوں کو آگے بڑھایا جس سے بنگلہ دیش کی معیشت کو مہمیز ملی اورتقریباً تمام انسانی ترقی کے اشاریوں کے مطابق بنگلہ دیش کی کارکردگی پاکستان سے بہتر رہی چاہے وہ تعلیم و صحت کے شعبے ہوں یا فراہمی نکاسی آب کے سب میں بنگلہ دیش بہتر رہا۔

افغانستان۔2020ء میں افغانستان بدستور طالبان اور داعش کے حملوں کا شکار رہا۔ گو 2020ء کی فروری میں امریکا نے طالبان سے ایک معاہدہ کرلیا تھا جس سے امید پیدا ہوچلی تھی اب افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے تھے جن میں سے بڑی تعداد کو حکومت نے رہا کر بھی دیا لیکن پھر بھی طالبان کے حملے بند نہ ہوئے۔

اسپتالوں اور تعلیمی اداروں تک کو نہیں بخشا گیا۔ جنگ جو سال بھر سرگرم رہے۔معاہدے کے مطابق طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی افواج کو نشانہ نہیں بنائیں گے یعنی انہیں اپنے ہم وطن افغان شہریوں کو نشانہ بنانے کی امریکی صدر ٹرمپ نے کھلی چھوٹ ے دی تھی۔طالبان نے اس چھوٹ کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور خوب حملے کئے۔

اشرف غنی حکومت بڑی بے چارگی کے عالم میں نظر آئی اور مبینہ طور پر اس کی عمل داری صرف کابل کے اطراف کے چند علاقوںمیں رہ گئی۔ سال کے اواخر میں صدر ٹرمپ نے انتخاب ہارنے کے بعد بھی افغانستان سے اپنی فوج واپس بلانے کا عمل جاری رکھا۔ ان کا وعدہ ہے کہ جنوری 2021میں اقتدار کی منتقلی تک وہ افغانستان سے مزید ڈھائی ہزار فوجی واپس بلالیں گے اس طرح افغانستان میں بہ مشکل دو ڈھائی ہزار امریکی فوجی رہ جائیں گے۔

ایران۔ ایران شدید دبائو کا شکار رہا ۔ایک طرف امریکا اور سعودی عرب اس کے درپے رہے، دوسری طرف اسرائیل اور کورونا نے ناک میں دم کئے رکھا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو مسلسل کنارے لگائے رکھا ۔ جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد سے یورپ پر بھی دبائو ڈالا کہ وہ پابندیاں جو امریکا نے لگائی ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے۔

ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کورونا سے مقابلے کے لئے ضروری ادویات اور آلات بین الاقوامی منڈی سے خریدنے میں دشواری کا سامنا کرتا رہا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ 2020ء میں ایران نے اپنے دو بڑے افراد گنوادیئے ایک تو جنرل قاسم سلیمانی جن کو امریکی ڈرون کے حملے نے عراق میں ہلاک کیا اور دوسرے ایران کے سب سے بڑے جوہری سائنس دان محسن فخری زادے کو تہران میں ایک خودکار مشین گن سے ہلاک کیا گیا جس کا الزام اسرائیل پر لگایا گیا۔

اس کے علاوہ ایران سعودی عرب کی طرف سے بھی دبائو میں رہا کیونکہ اس کے تعلقات اسرائیل سے بغتر ہوتے جارہے ہیں جس کو ایران اپنا سب سے بڑا دشمن کہتا ہے اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان سے بھی اسرائیل کے تعلقات نے ایران کو مایوس کئے رکھا۔

مصر۔مصر میں 2020ء میں فوجی آمر اور خودساختہ صدر جنرل عبدالفتاح السیمی بدستور ایک مرد آہن کی طرح مصر کواپنی گرفت میں لئے رہے۔انہیںاقتدار میں چھ سال ہوچکے ہیںا ور وہ حزب مخالف کو بری طرح کچل کر اظہار رائے پر پابندیاں لگا کر اور ریاستی اداروں کو استعمال کرکے مصر کو ایک بار پھر حسنی مبارک کے دور میں و اپس لے جاچکے ہیں۔مصر کے تعلقات حسب سابق امریکا اور سعودی عرب سے بہت اچھے ہیں کیونکہ دونوں کو انسانی حقوق اور جمہوریت سے زیادہ خود اپنے مفادات عزیز ہیں۔

عراق۔2020ء میں عراق کے نئے وزیر اعظم مصطفی کاظمی نے اقتدار سنبھالا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ صدام حسین کے دور میں عراق سے برطانیہ جاکر وہاں کی شہریت لی اور اب یہ برطانوی شہری عراق کے وزیراعظم ہیں۔اصل میں 2020ء کے شروع میں عراق میں شدید مظاہرے ہوئے جس کےنتیجے میں وزیراعظم عادل مہدی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا اور ان کی جگہ مصطفیٰ کاظمی کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ اس دوران عراق نے کورونا کے علاوہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث شدید بحران کا سامنا کیا۔

اگست 2020ء میں انہوں نے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو کم کرنے کے لئے سیکڑوں عراقی بے روزگاروں کو وزارت دفاع میں بھرتی کرلیا پھر بھی سرکاری دفاتر کے باہر دھرنے کم نہ ہوئے۔ 2020ء میں بھی عراقی پارلیمان پر ایران نواز ارکان کا غلبہ رہا ۔مصطفیٰ کاظمی اس میں بھی ناکام ر ہے کہ وہ ان فوجیوں کو سزا دے پاتے جنہوں نے چھ سو سے زیادہ مظاہرین کو ایک سال کے دوران ہلاک کیا تھا اس کے علاوہ عراق میں 2020ء میں بھی صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔

سعودی عرب۔اب ہم آتے ہیں سعودی عرب کی طرف جو اس خطے میں عراق کے بعد آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا عرب ملک ہے جس کی آبادی تقریباً ساڑھے تین ک روڑ ہے۔ 2020ء میں سعودی عرب کو سب سے بڑی پریشانی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث ہوئی جس کی وجہ سے بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔اسی لئے جب دسمبر 2020ء میں سعودی عرب نے اپنے تقریباً 260؍ ارب ڈالر کے سالانہ بجٹ کا اعلان کیا تو 2021ء کے لئے اخراجات میں سات فیصد کمی کا عندیہ دیا۔

سعودی عرب دنیا بھر میں تل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، پھر بھی اسے تقریباً اسی ارب ڈالر کے خسارے کا بجٹ پیش کرناپڑا ۔اب 2021ء کے لئے پیش گوئی ہے کہ تیل کی آمدنی تیس فیصد کم ہوگی جو مجموعی پیداوار کوپ انچ فیصد کم کرسکتی ہے اس کےس اتھ ہی 2020ء میں سعودی عرب وقتاً فوقتاً حملوں کا سامنا بھی کرتا رہا جو مبینہ طور پر ایران اور یمن کے حوثی قبائل کی طرف سے کئے جاتے رہے۔

2020ء میں سعودی عرب نے اسرائیل اور بھارت سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں پہلی مرتبہ بھارتی افواج کے سربراہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا ۔ اسی طرح پہلی مرتبہ اسرائیل کے وزیراعظم نے بھی سعودی عرب کادورہ کیا ان دونوں سے واضح ہوا کہ سعودی عرب کے پینتیس سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے پچاسی سالہ والد شاہ سلمان کے مقابلےمیں تیزی سے تبدیلیاں لانے کے خواہاں ہیں۔

یمن۔2020ء امریکا ور سعودی عرب یمن میں حوثی قبائل کے مخالفین کی مددکرتے رہے جس کےنتیجے میں یمن میں ایک طرح کی نیابتی یا پراکسی جنگ چلتی رہی جس میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا جو امریکی صدر نے یمن کے لئے سفیر نامزد کیا تو ایران نے ان پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا۔اسی طرح حوثیوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی کی اور صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا، اسی دوران میں یمن ورونا وائرس کا بھی نشانہ بنتا رہا یعنی جنگ اور وبائیں اور دیگر بیماریاں یمن کے لئے تباہی کا پیغام بنی رہیں اور اس کے لئے سعودی عرب اور ایران کے علاوہ مغربی طاقتیں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں جو سعودی عرب کو بھاری اسلحہ جات بیچنے کے لئے خطے میں جنگ پھیلائے ہوئے ہیں اور یمن ایک تختہ مشق بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لاکھوں بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں او جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

شام ۔شام میں ہونے والی خانہ جنگی 2020ء میں ماند پڑ گئی لیکن پھر بھی بڑی تعداد میں پناہ گزین بے گھر رہے اندازوں کے مطابق اب بھی تقریباً تیس لاکھ شامی مہاجرین دیگر ملکوںمیں پناہ لئے ہوئے ہیں جن میں ترکی، لبنان اور اردن سرفہرست ہیں۔گو کہ اقوام متحدہ انہیں واپس بھیجنے کی کوشش کرتی رہی مگر 2020ء میں بھی اس سلسلے میں کوئی بڑی کامیابی نہ مل سکی لیکن یہ ضرور ہواہے کہ داعش یا دولت اسلامیہ نامی دہشت گرد گروہ 2020ء میں شام میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکا اور شامی صدر بشار الاسد ایران اور روس کی مدد سے اپنی حیثیت کو مستحکم رکھنے میں کامیاب ہوئے۔اب اصل مسئلہ شامی کردآبادی کا ہے جس کے لئے 2020 مزید تباہی لایا ایک طرف تو ترکی کی فوج شام میں گھس کر کردوں کے خلاف کارروائی کرتی رہی اور دوسری خود شامی افواج بھی انہیں مارتی رہیں۔

اردن۔2020ء میں بننے والے وزیراعظم کا نام بشر الخصاونہ ،اردن کی معیشت کو بہتر بنانے کے دعوے دار ہیں۔ معیشت کا یہ حال ہے کہ اردن بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضے لیتا رہا ۔دسمبر کے اواخر میں ان قرضوں کا پہلا جائزہ بھی لیا گیا۔

اسی دوران میں اسرائیل سے ملاقاتیں بھی جاری رہیں کیونکہ اردن کے اسرائیل سے تعلقات ہیں اور اردن فلسطین کو الگ ریاست پر زور بھی دیتا رہا ہے مگر یہ صرف رسمی طور پر کیا جاتا ہے اب جوبائیڈن کے صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد امید کی جارہی ہے کہ وہ اسرائیل کو فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے مجبور کرسکیں گے اور اس سلسلےمیں اسرائیل اور فلسطینی رہنما دونوں نےاردن کے دورے کیے۔نومبر 2020ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اردن کی حزب مخالف پھر ہار گئی اور عوام کے ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی کم رہا۔

متحدہ عرب امارات۔سعودی عرب کی طرح یہاں بھی ولی عہد کی عملی حکومت ہے اور شہزادہ محمد بن زاید 2020ء میں بھی سرگرم عمل رہے اور انہوں نے بھی اس سال اسرائیل اور بھارت سے تعلقات مزید بہتر کئے۔اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا بڑا قدم اٹھایا گیا اور ایران کو پیغام دیا گیا کہ اس کا سب سے بڑا دشمن اب امارات کا قریبی دوست ہے۔

اسی طرح بھارتی فوج کے سربراہ نے بھی سعودی عرب کے ساتھ امارات کا بھی پہلا دورہ کیا جو ایک طرح کے پاکستان کے لئے پیغام تھا کہ امارات پاکستان کے تعلقات کی قیمت پر بھارت سے تعلقات خراب نہیں کرے گا اسی لئے اس نے کشمیر پر بھارت کی پالیسی پر اف نہیں کی۔ 2020ء میں امارات نے یمن کی خانہ جنگی سے بھی بظاہر کنارا کیا اور کسی بڑی فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیا اس طرح 2020ء میں امارات نے تاریخ کا نیا موڑ عبور کیا ہےا ور اسرائیل اور بھارت اس کے قریبی دوست ہیں۔