خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے...

January 17, 2021

فرحی نعیم، کراچی

سال 2020ء اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اختتام پذیرہوا ، گویا یہ سال 12 ماہ پہ نہیں، صدیوں پہ محیط تھا، جو ختم ہی نہیں ہو رہاتھا ۔ سالِ رفتہ نے بالخصوص زندگی کی بے ثباتی کے جس چہرے سے ہمارا تعارف کروایا، عقل و بصیرت کا تقاضا ہے کہ اب بھی وقت ہے، ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائیں۔ 2020ء جس کی ابتدا پر دوستوں نے اسے’’ٹوینٹی ٹوینٹی‘‘ کا دل چسپ عنوان دیا تھااور سنسنی خیز کرکٹ میچ سے تشبیہ دی تھی، وہ دَر حقیقت پانچ روزہ طویل ٹیسٹ میچ ثابت ہوا، جس کا آغاز بھی غیر دل چسپ، اکتاہٹ بھرا اور انجام بھی بے نتیجہ۔

گرچہ سالِ گزشتہ کےابتدائی ڈیڑھ ماہ کا سفر تو عام ہی تھا، لیکن جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا گیا، اس نے اپنے خونی پنجے دنیا بھر میں گاڑنے شروع کرد ئیےاور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہماری زندگیوں کا ایک ناقابلِ یقین دَور شروع ہوگیا۔ایک ،دو، تین، ایک ایک کرکے دنیا کے تمام ممالک اس آدم خور وَبا کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اس نے نہ صرف لاکھوں زندگیوں کو نگلا، بلکہ دنیا بھر کی رونقیں بھی معدوم کردیں۔

سال 2020ء جسے کہنے والوں نے ’’خونی سال‘‘ قرار دیا، صرف وطنِ عزیز ہی میں نہ جانے کتنی معصوم زندگیاں نگل گیا، نہ جانے کتنے لوگ اپنے پیاروں سے جُدا ہو گئے، جن کے بغیر زندگی کا تصوّر بھی ممکن نہ تھا، اپنے ہی ہاتھوں انہیں منوں مٹی تلے دفن کرنا پڑا۔کیسی کیسی علمی، ادبی، مذہبی ، سیاسی شخصیات ،کیسے کیسے اَن مول ہیروں جیسے نام وَر افراد اجل کو لبّیک کہہ گئے۔

ہر گزرتا دن اور طلوع ہوتا آفتاب ،ایک نئے اندیشے ہی سے وابستہ رہا کہ اب کون، اب کس کی باری ہے…؟؟کورونا نامی وبا، وبا نہیں بلا تھی یا عفریت جس نے لاکھوں زندگیوں کے چراغ گُل کردئیے اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن نئے سال کی آمد ایک خوش خبری تو لائی کہ اس کی ویکسین تیارہو گئی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی بہت سے تحفّظات اور کچھ فکرات بھی وابستہ ہیں۔

کہتے ہیں مایوسی کفر ہےاور امید پر دنیا قائم ہے، لہٰذا ہم نے بھی دو ہزار بیس کے شام وسحر کو اس امید پر الوداع کیا کہ 2021ء کا خورشید اپنی نارنجی شعاؤں سےمایوسی، غم، ناامیدی کے تمام تراحساسات خوشیوں سے بھر دے گا۔ ؎نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے …خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے۔