’’روشنی‘‘ ( سالِ رفتہ و آئندہ کا سنگم،خصوصی افسانہ)

January 17, 2021

کمیٹی کے لیمپ کی روشنی شدید سردی میں ٹھٹھر رہی تھی۔سرد ہوا ،جو گندم کے کھیتوں میں اُگے ننّھے منّے پودوں سے ہم آغوش ہو کر ایک سرمستی کے عالم میں شہر کے گلی کُوچوں میں داخل ہوئی تھی، یہاں کا گرد و غبار اور دھواں اُس کا گلا گھونٹ رہا تھا۔اس نے سر پرسولا ہیٹ ٹکا رکھا تھااورلمبے اوور کوٹ کے کالر کھڑے تھے ، جس سےاس کی گردن کے ارد گرد سردی کے خلاف ایک فصیل کھڑی ہو گئی تھی۔اس نے دستانوں میں چُھپی انگلیوں سے ناک کو چُھوا۔بغیر سگریٹ کا کش لگائے، دھویں کی شکل کی بھاپ اس کے منہ سے نکلی ۔رات کی تاریکی اس شہر کے دَر و دیوار پہ پھیلی تھی۔

اُسے لگ رہا تھا ،جیسے یہ رات کبھی ختم ہی نہیں ہوگی۔یہ اندھیرا، جو گلی کُوچوں میں اُترا ہے، یہ کبھی بھی الوداع نہیں کہے گا۔فٹ پاتھ پہ ایک لاغر، آوارہ کتّا سردی میں ٹھٹھر رہا تھا۔ وہ دونوںکچھ دیر تک ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔سامنے سے آتی کمیٹی کے لیمپ کی پیلی روشنی میں اُن کے عقب میں اُن کے سائے بھی ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔وہ آہستہ آہستہ فٹ پاتھ پہ چلنے لگا۔کتّا بھی اس کے ساتھ ساتھ گردن جُھکائے چل پڑا۔اب کمیٹی کا لیمپ پیچھے رہ گیا تھا اور ان دونوں کے سائے ان کے آگے آگے پیش قدمی کر رہے تھے۔وہ آگے بڑھتے رہے اور روشنی آہستہ آہستہ تاریکی کے ہاتھوں مغلوب ہوتی کہیں گُم ہو گئی۔اورسائے بھی تاریکی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے۔

اسے اس شہر سے بہت ڈر لگ رہا تھا۔یہ آسیب زدہ شہراُس کے لیے ہر لمحہ خوف کا ایک نیا پھندا تلاش لیتا تھا۔جس طرح یہ آوارہ کتّا کسی بن بلائے مہمان کی طرح اس کے قریب آیا تھا اور اب شاید روٹی کے لالچ میں اس کے ساتھ ساتھ پھر رہا تھا، ایسے ہی گھر سے نکلتے ہی ڈر اور خوف کسی بن بلائے مہمان کی طرح اس کے ساتھ چلے آئے۔اُسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ نفسیاتی مریض بن چُکا ہے۔ وہ جب گھر سے نکلتا ،تو اسے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔وہ بڑے غور سے اس چاپ کو سنتا رہتا۔کبھی رفتارآہستہ کرلیتا اور کبھی تیز،مگر رُک کےپیچھے دیکھتا تو خالی سڑک بھائیں بھائیں کر رہی ہوتی۔یہ شہر آفت کی زَد میں تھا۔

اب لوگ بھی ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہتے۔ایک دوسرے کے قریب جاتے ڈرتے۔شہر میں ایک عجیب و غریب وَبا پھیل گئی تھی۔ایک اندھیری رات نہ جانے کب ، کیسے مسلّط ہوگئی تھی اور اس گرد و غبار آلود رات میں موت کا اژدھا لوگوں کو آہستہ آہستہ نگل رہا تھا۔ہنستے مسکراتے چہرے دو چار دن کی بیماری میں موت کی خاموشی اوڑھ کے ابدی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ۔کبھی کبھار چارپائی پہ لیٹے لیٹے اُسے بھی محسوس ہوتا کہ وہ بخار میں پھنک رہا ہے۔

اُس کے جسم کا ریشہ ریشہ بخار کی آنچ پہ تپ رہا ہے۔عجیب و غریب وہم اور وسوسے اُسے گھیر لیتے ۔اُسے لگتا کہ وہ اس حرارت سے موم کی طرح پگھل جائے گا یا پانی بن کر کمرے کی موری سے باہر نالی میں بہہ جائے گا۔سوتے سوتے اُسے لگتا ،کوئی اس کا گلا دبا رہا ہے اور اس کی سانس سینے میں دَب گئی ہے۔ وہ یک دَم اُٹھ بیٹھتا ،تواس کا جسم پسینے میں شرابور ہوتا۔پھر ایک گہری سانس لے کر جھٹکے سے سانس سینے سے باہرنکالتا ،تو یقین آتا کہ وہ زندہ ہے۔کبھی کھانستا تو کھانستا ہی چلا جاتااورکھانسی کے یہ دَورے اتنے شدید ہوتے کہ آنکھیں اُبل کر باہر آجاتیںاورچہرہ سُرخ ہو جاتا۔سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی۔

کئی بار تو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ مر گیا ہے اور اس کی لاش کوغسل دے کر کفنایا جارہا ہے۔ اسے اپنے جنازے میں صرف چاراجنبی آدمی دکھائی دیتے،جوجلدی جلدی جنازہ پڑھا کر ایسے قبر میں دفن کر تے، جیسے کوئی طاعون زدہ چوہا کسی گڑھے میں دبایا جا رہا ہو۔اندھیری قبر میں اس کا دماغ پھٹنا شروع ہو جاتا اوروہ نیند میں چیخنا چلّانا شروع کر دیتا۔

وہ انہی خیالوں میں گُم سڑک پہ چلا جا رہا تھا کہ اُسے اپنے پیچھے پھرچاپ سنائی دی ۔ اُسے لگا ، ملک الموت اس کے تعاقب میں ہے۔ مُڑ کے دیکھا تو وہ آوارہ کتّا اس کے پیچھے پیچھے تھا۔وہ رُکا تو کتا بھی رُک گیا۔کچھ لمحوں کے لیے تو اس کے دل میں رشک وحسد کے احساسات نے انگڑائی لی کہ اس قدر خوف ناک رات میں اس کتّے کے دل میں کوئی ڈر نہیں، اُسے اگر کوئی فکر ہے تو فقط روٹی کے چند ٹکڑوں کی۔کتے کی یہ ذہنی آسودگی اُسے ایک آنکھ نہیں بھائی، اُس نے سڑک سے ایک پتھر اُٹھایا اور زور سے کتّے کو دے مارا۔وہ چاؤں چاؤں کرتا بھاگ کھڑا ہوا۔اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیانکالی۔

ڈبی میں آخری سگریٹ تھا،اس سال کا آخری سگریٹ۔وہ کچھ دیر کے لیے فٹ پاتھ پہ رُکا، سگریٹ سلگائی، ایک لمبا کش کھینچا اور دھوئیں کو اس سرد رات کی دُھند میں ٹھٹھر نے کے لیے چھوڑدیا۔پھر دھیرے دھیرے لبوں کی طرف سرکتے انگارے سے متصل راکھ جھاڑتے سگریٹ کو دیکھا۔سگریٹ ختم ہونے والی تھی اور ایک لمبی رات کا سفر ابھی باقی تھا۔شہر تاریکی کی چادر اوڑھے سو چکا تھا۔اس کی آنکھیں بار بارکوئی دُکان یا کھو کھا تلاش کر رہی تھیں۔اتنی لمبی رات سگریٹ کے بغیر کیسے کٹے گی اور یہ رات تو اسے لگتا تھا کبھی ختم ہی نہیں ہوگی۔اسے محسوس ہورہا تھا، یہ رات قیامت تک پھیل چُکی ہے۔اُسےلگا،دو ہزار بیس کی یہ آخری رات کبھی نہ جانے کے لیے آئی ہے۔

یہ پورا سال ہی اُسے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لگ رہا تھا، جو ازل سے ابد تک پھیلی رات میں اُس کی آنکھوں کے آگے پھیلا ہوا تھا۔اس ڈراؤنے خواب میں ایک قاتل وَبا نے اس سے کئی پیارے چہرے، اس کی ماں، اس کا قریبی دوست چھین لیا تھا۔ اس ڈراؤنے خواب نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔اسےلوگوں سے خوف آنے لگا تھا۔وہ لوگوں کے قریب جانے سے ڈرتا،گھر آتا تو گھنٹوں ہاتھ دھوتا رہتا۔ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتا تو لگتا، وہ ایک مُردہ آدمی کا چہرہ دیکھ رہا ہے۔

وہ بہت دیر تک سگریٹ کی دُکان تلاش کرتا رہا،جب کوئی دکان کُھلی نہیں ملی، تو اپنے فلیٹ کی طرف چل دیا۔گلی میں اُسے اپنے پیچھے پھرچاپ محسوس ہوئی۔ مُڑ کے دیکھا، توخالی گلی منہ چڑا رہی تھی۔کچھ تو تھا، اس کے پیچھے کوئی تو ہے، وہ کچھ دیر کھڑا خالی گلی کو گھورتا رہا۔مگر وہاںکوئی نہیں تھا۔ اس نے سولا ہیٹ تھوڑا سا پیچھے کھسکایا۔کھڑے کالر گردن کے پیچھے دُہرے کیے اور آہستہ آہستہ زینہ طے کرنے لگا۔فلیٹ کے دروازے کے سامنے پہنچ کے تھوڑی دیر سانس درست کی، اوور کوٹ کی جیب میںہاتھ ڈالا اور جیب سے ایک چابی نکال کر دروازہ کھولا۔فلیٹ کے اندر بھی گہری تاریکی تھی۔تہوّر علی نے لائٹ جلائی اور فریج سے پانی نکال کر پینے لگا۔ اُسے لگا، جیسے کوئی فلیٹ کے دروازے پہ نرمی سے دستک دے رہا ہے۔لیکن وہ اس کا وہم تھا۔ کھڑکی کا پردہ ہٹا یاتوشہر کی ٹمٹماتی روشنیوں پہ دھند زدہ تاریکی کا نزول جاری تھا۔

رات بارہ بجے ایک ہنگامے کے ساتھ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے بعد اب شہر گہری نیند کی آغوش میں سو چُکا تھا، جب کہ تہوّر علی کی آنکھوں سے نیند ابھی کوسوں دُور تھی۔اس نے دیوار میں لگے آئینے میں اپنی شکل دیکھی، تواس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ اُس نےلائٹ بند کی اور جوتوں سمیت ہی بستر پہ درازہو گیا۔

اُس میں اتنی ہمّت بھی نہیں تھی کہ جوتے اُتارلیتا۔بستر پہ لیٹ کے اُس نے کھڑکی کے پار دیکھا،اُسے لگا،تاریک آسمان سے نرمی سے لَو دیتے تارے جیسے سردی سے کپکپا رہے ہیں۔وہ جانے کتنی دیر تاروں کو گھورتا رہا۔ نیند کی سرحد پہ ڈولتی آنکھیں کہیں دُور خلاؤں میں سفر کر رہی تھیں اور امید و پیہم کی اسی کیفیت میں اُس کا دماغ نیند کی تاریکی میں ڈوب گیا۔

جانے کتنی دیر گزر گئی اور وہ سویا رہا۔اُسے اپنے چہرے پہ حرارت محسوس ہوئی۔ آنکھیں کھولیں تو اُسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔سورج کی روشنی کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھی۔2021ء کے پہلے دن کا سورج طلوع ہو چُکاتھا۔اس سورج کی روشنی نے اُس کے دل کے گلستاں میں امیدوں کے کئی پھول کھلا دئیےتھے۔رات اس کو لگا تھا کہ یہ تاریک رات کبھی ختم نہیں ہوگی۔

مگر جویہ صبح طلوع ہوئی ، تو اس کے دل و دماغ سے مایوسی کے سب اندھیرے یک دَم ہی چَھٹ گئے ۔اس نے ماسک اُٹھا کے منہ پہ لگایا۔کوٹ اور جوتے تو وہ پہنے پہنے سو گیا تھا۔سولا ہیٹ میز سے اُٹھا کر سر پہ رکھااور فلیٹ کا دروازہ کھولاتودل دھک سے رہ گیا۔وہ رات والا کتا اس کے دروازے پہ لیٹا تھا۔وہ اس کے پیچھے پیچھے فلیٹ تک آ گیا تھا۔اس نے کچن سے روٹی کے ٹکڑے لاکے کتے کے آگے ڈالے، تو وہ منٹوں میں چٹ کر گیا۔ تہوّر علی کے دل میں ایک اَن جانا سا اطمینان جاگا۔

وہ فلیٹ کا دروازہ لاک کر کے تیزی سے زینہ اُتر گیا۔گلی میں زندگی کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی۔نئے سال کی روشنی اُسے گلی میں بھی خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ اس سال کا آغاز بھی وبا کے سائے میں ہو رہا تھا۔ لیکن اس نئے سال کے نئے سورج نے اُس کے دل میںوبا کا مقابلہ کرنے کا اِک جذبہ بیدار کردیا تھا۔ اس کے چہرے پہ ترو تازگی سی آ گئی تھی۔ کتا بھی اُس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھااورنئے سال کی نئی روشنی میں اُن کے سائے بھی بڑے اطمینان سےاُن کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔