مشکلات سے نئی راہیں نکالیں

January 17, 2021

انٹرویو: واصف ناگی، لاہور

عکّاسی: عرفان نجمی

زندگی میں وہی لوگ کام یاب ہوتے ہیں، جو محنت اور لگن کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں اور پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے۔ انہی لوگوں میں سے ایک معروف عالمی فیشن ڈیزائنر، محمود بھٹّی بھی ہیں، جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود کام یابی کے زینے طے کیے۔ گو کہ ہماری اُن سے پہلے بھی دو، چار ملاقاتیں ہیں، تاہم، پچھلے دنوں وہ لاہور آئے، تو اُن کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س : ابتدائی حالات، خاندان، تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: گورنمنٹ سینٹرل اسکول، سمن آباد، لاہور سے میٹرک، گورنمنٹ کالج سے ایف اے اور بی اے کیا۔ایم بی اے کرنا چاہتا تھا، مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری رہ گئی۔ بچپن غربت میں گزرا۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل، یہاں تک کے کپڑوں کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ان حالات میں رشتے داروں نے بھی کوئی مدد نہیں کی۔

فرانس میں ایک دوست رہتا تھا، اُس نے اپنے پاس بُلایا، تو جیسے تیسے پیرس پہنچ گیا۔ وہ وہاں یونی ورسٹی میں پڑھتا تھا۔لہٰذا مجھے اپنے پاس ہاسٹل میں ٹھہرایا، مگر یونی ورسٹی انتظامیہ نے وہاں سے نکال دیا۔ مَیں اپنا بریف کیس اُٹھائے ریلوے اسٹیشنز وغیرہ پر سوتا اور کوڑا کرکٹ کے ڈرمز سے کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرکے کھاتا، لیکن مَیں نے مسلسل محنت سے مشکلات ہی سے نئی راہیں نکالیں۔

س: فیشن انڈسٹری میں کس طرح آئے؟

ج: فرانس کی ایک فیشن کمپنی میں صفائی کا کام کیا کرتا تھا، وہاں کام دیکھتے دیکھتے فیشن ڈیزائنر بن گیا۔ مَیں سوچا کرتا تھا کہ جب میرے پاس پیسے ہوں گے، تو مَیں بھی اچھے کپڑے خریدوں گا اور پھر جلد ہی وہ وقت بھی آ ہی گیا۔

س : سُنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے آپ کے مالی حالات بہت خراب ہوگئے تھے ؟

ج: جی ہاں، 1996ء میں میرے گودام میں لگنے والی آگ نے مجھے ایک بار پھر فُٹ پاتھ پر پہنچا دیا تھا۔ اُس وقت میرے پاس دنیا کی قیمتی ترین کاریں تھیں، جو راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔اُن کاروباری اداروں اور بینکس نے، جو میرے آگے پیچھے پِھرتے تھے، منہ پھیر لیا۔

یہ حالات میرے لیے فرانس پہنچنے کے ابتدائی دنوں سے بھی بدترتھے۔ بہرحال، ہمّت نہیں ہاری اور ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا۔تاہم، اس موقعے پر بھائیوں اور رشتے داروں کی جانب سے جو تعاون ملنا چاہیے تھا، نہ ملا، البتہ دوستوں نے بہت ساتھ دیا۔

س :کیا کورونا نے آپ کا کاروبار بھی متاثر کیا؟

ج: جی بالکل، کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں کاروباری لوگوں کو سخت نقصان پہنچا۔ ان حالات میں حکومتیں بھی کسی کی کتنی مدد کریں گی؟ فرانسیسی حکومت پندرہ سو یورو دے رہی ہے، جو بہت کم ہے۔ میرے آفس میں ملازمین کی تن خواہیں دو، دو ہزار یورو ہیں اور میرے پاس چھے سو افراد کام کرتے ہیں۔ آفس کا کرایہ کون دے گا؟ بجلی، فون کے بلز کیسے ادا کریں گے؟

یہ سب اہم مسائل ہیں۔ دُکانوں میں کاروبار کرنے والے تباہ ہوچُکے ہیں، وہ کرائے نہیں دے پا رہے۔ اب کاروبار آن لائن ہوگیا ہے، جو ایک نئی دنیا ہے۔ فرانس میں اب دُکانیں نہیں، فلیٹ فروخت ہو رہے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی دُکانیں ختم ہو رہی ہیں، اب لوگ گھر بیٹھ کر آفس ورک اور کاروبار کر رہے ہیں۔

س : تو کیا آپ پروفیشن تبدیل کرنے کا سوچ رہے ہیں؟

ج:بالکل بھی نہیں۔ فیشن کا شعبہ تو میری پہچان ہے، اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔البتہ آن لائن بزنس میں تیزی کے بعد مَیں بھی نئے انداز میں کام کر رہا ہوں۔

س: پاکستان اور فرانس، کِسے ترجیح دیتے ہیں؟

ج: مجھے پاکستان سے عشق اور پیرس سے پیار ہے۔پاکستان میں پیدا ہوا، یہاں پلا پڑھا، یہیں سے مجھے شناخت ملی، اس پر مجھے فخر ہے۔ فرانس سے مجھے رزق ملا۔اللہ رازق ہے، لیکن زندگی میں اُسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے، جو آپ کی روزی روٹی کا وسیلہ بنے۔ پوری دنیا میں کہیں بھی چلا جائوں، میری شناخت پاکستان ہی ہے۔میرے بچّوں کی ماں امریکن ہے، لیکن بچّے سچّے پاکستانی ہیں۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن میں رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں، مگر اُنھیں جائیدادوں پر قبضے اور لوٹ مار کا خوف ایسا نہیں کرنے دیتا۔پاکستان بے حد خُوب صُورت مُلک ہے اور پاکستانیوں میں ٹیلنٹ کی بھی کمی نہیں۔ جس صوفے پر آپ بیٹھے ہیں، اس کے لیے کپڑا لنڈا بازار سے خریدا تھا۔

مَیں اپنی اہلیہ کو برقعہ پہنا کر وہاں لے گیا تھا۔ اس کمرے میں لگی ہوئی تمام پینٹنگز ایک ایسے پاکستانی لڑکے نے بنائی ہیں، جو کبھی اسکول نہیں گیا، مَیں نے اُسے کچھ پینٹنگز دیں اور اُس نے کاپی کر دیں۔

س: پھر شادی پاکستان میں کیوں نہیں کی؟

ج:پاکستان ہی میں شادی کرنا چاہتا تھا۔ میرے والدین زندہ نہیں تھے، تو دوست نجیب اللہ ملک( سابق چیف سیکرٹری) ایک جگہ میرا رشتہ مانگنے گئے، مگر لڑکی والوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ’’ اس کا تو اَگّا، پچھا ہی نہیں ہے۔‘‘(کوئی آگے پیچھے ہی نہیں ہے) پھر مَیں نے ایک امریکن لڑکی سے شادی کر لی، مگر وہ بھی ساتھ نہ نبھا سکی اور چھوڑ کر چلی گئی، اب اکیلا ہی رہتا ہوں۔

میرے دوست ہی اب میری فیملی ہیں کہ خاندان کے لوگ تو جائیدادیں چھین کر چلتے بنیں گے۔ میرا کوئی رشتے دار نہیں، یار دوست ہی بہتر ہوتے ہیں۔ مجھے اپنی بیوی سے بہت پیار تھا اور اب بھی ہے۔وہ جب بھی لاہور آتی، مَیں اُسے داتا صاحبؒ بھی لے کر جاتا۔

س: دوبارہ شادی کرنے کا ارادہ ہے؟

ج :بالکل نہیں، اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے صرف سکون چاہیے، اس لیے دوسری شادی کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔

س : کتنے بچّے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟

ج: دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹے نے امریکا سے ایم بی اے کیا ہے اور آج کل ماڈلنگ کر رہا ہے۔ بڑی بیٹی ڈاکٹر بن رہی ہے۔ دوسری تعلیم کے ساتھ ایک بڑے برانڈ کے لیے ماڈلنگ بھی کرتی ہے۔

س: اِس کے علاوہ کیا مشاغل ہیں؟

ج: مَیں آج کل مختلف یونی ورسٹیز میں لیکچرز دے رہا ہوں، جو کہ میری پرانی خواہش تھی۔ پچھلے دنوں پنجاب یونی ورسٹی کے ہیلی کالج آف کامرس کی انٹرنیشنل کانفرنس میں بلایا گیا، جس میں خطاب کے علاوہ طلبہ کے ساتھ سوال و جواب کی ایک طویل نشست بھی ہوئی۔

س :کچھ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بھی بتائیے؟

ج: مَیں اپنے ملک کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ پچھلے سال ناردرن ایریا میں ایک سو بچّوں کی شادی کروائی۔ ان کاموں کے لیے مَیں نے ایک کمپنی بنائی ہے۔ جیو ٹی وی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر فیشن شوز بھی کیے اور اُن سے ہونے والی آمدنی کبھی پیرس لے کر نہیں گیا۔ پاکستان ہی کے کسی اسکول کو عطیہ کردیتا ہوں۔

لاہور میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائننگ بنوایا، جسے سندر داس روڈ پر ایک کوٹھی میں شروع کیا گیا۔ مَیں دس سال کی عُمر میں بہت بیمار ہونے کے سبب میو اسپتال میں داخل تھا، عید کے روز کئی والدین اپنے بچّوں سے ملنے آئے، جس سے میرے دل میں بھی ایک ہوک سی اُٹھی۔ مَیں نے دیکھا کہ اسپتال کی چھت سے پانی ٹپک رہا تھا، تو اُسی وقت عہد کیا کہ جب میرے پاس پیسے ہوں گے، تو ایک بڑا اسپتال بنائوں گا۔ لہٰذا، پیسے آتے ہی لاہور میں ایک بڑا پرائیویٹ اسپتال بنا دیا۔

س: روپے پیسے کی ریل پیل نے آپ کے رویّے پر کیا اثرات مرتّب کیے؟

ج: مَیں اُن لوگوں سے نفرت کرتا ہوں، جو اپنا ماضی بھول جائیں، لوگوں سے جھوٹ بولیں اور فراڈ کریں۔میری اہلیہ نے کہا کہ’’ مجھے وہاں لے چلو، جہاں تم بچپن میں جاتے تھے‘‘، تو مَیں اُنھیں داتا دربار لے گیا۔ وہاں کچھ بچّے زمین پر بیٹھے کھیل رہے تھے اور کچھ لنگر لینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے، مَیں نے اہلیہ سے کہا’’ یہ میرا ماضی تھا۔‘‘انسان کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاہیے، کیوں کہ جس دن انسان اپنا ماضی بھول جاتا ہے، اُسی دن سے اُس کی تباہی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مجھے ایوانِ صدر میں ستارۂ امتیاز ملا، تو آنکھوں میں آنسو آگئے کہ مَیں اکیلا مستانی روڈ، سمن آباد سے چلتا ہوا کہاں تک جا پہنچا۔

س: لگتا ہے، آپ کو داتا صاحبؒ سے بہت لگائو ہے؟

ج: مَیں وہاں باقاعدگی سے جاتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں۔البتہ اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی مزار پر جانے سے پہلے اپنے گھر سے دُعا لے کر جائو، پھر ہی دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ کچھ دن قبل داتا صاحبؒ جاتے ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور کے بوسیدہ ہاسٹل کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔

س: خود بھی فیشن کے شوقین ہیں؟

ج: فیشن ڈیزائنر ہوں، اگر خود فیشن ایبل نہیں ہوں گا، تو لوگوں پر اچھا امیج نہیں پڑے گا۔ چناں چہ نت نئے فیشن کا شوق ہے۔ پھر مجھے لوگوں سے ملنے کا بھی بہت شوق ہے کہ اچھے لوگوں سے مختلف چیزیں سیکھتا ہوں۔

س: فارغ اوقات میں کیا کرتے ہیں؟

ج : فارغ وقت تو ملتا ہی نہیں اور اگر کبھی مل جائے، تو ٹی وی چینلز پر کلچرل پروگرامز شوق سے دیکھتا ہوں۔ رات گئے گھر لَوٹتا ہوں، تو خبریں سُن لیتا ہوں۔ مَیں تو شیو بھی ویک اینڈ ہی پر کرتا ہوں۔ ویسے بھی کورونا کی وجہ سے دنیا بند پڑی ہے، چناں چہ زیادہ وقت گھر ہی پر گزرتا ہے۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج :پاکستانی کھانے پسند ہیں، مگر روز نہیں کھاتا، کیوں کہ پاکستانی کھانے موٹا کرتے ہیں۔

س: سیاست دان کون سا پسند ہے؟

ج : میری سب سے دوستی ہے، حالاں کہ مجھے سیاست سے کوئی خاص دل چسپی بھی نہیں ہے۔

س: کسی بات کی کسک یا افسوس؟

ج : کوئی افسوس نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ دیا، جس کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔