اطاعت و فرماں برداری، عشقِ رسولﷺ کا بنیادی تقاضا

January 17, 2021

امام الاوّلین والآخرین، سیّد الانبیاء و المرسلین، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ ایک ایسے دَور میں بنی نوع( انسان) کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمائے گئے، جب انسانیت کی قدریں بدل چُکی تھیں۔ لوگوں کو اچھائی، برائی کی تمیز مِٹتی جارہی تھی۔وہ کائنات کی سب سے اٹل حقیقت، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے یک سَر بیگانہ اور لاتعلق ہوچُکے تھے۔ مالکِ ارض و سما کے دنیا میں پہلے گھر، ’’خانۂ کعبہ‘‘ میں تین سو ساٹھ بُتوں کی پرستش ہو رہی تھی۔ فحاشی و بے حیائی نے ثقافت اور ادب کا مقام حاصل کرلیا تھا۔

خانۂ خدا کا برہنہ طواف کیا جاتا اور جو شخص برسرِ محفل فحش قصّے جس قدر بے باکی سے بیان کرتا، اُسی قدر’’قادر الکلام‘‘ سمجھا جاتا۔ لوگ جہالت اور گم راہی کی آخری حدود بھی پار کرکے انسان تو کُجا، جانور بھی نہ رہے تھے کہ اپنی ہی بیٹیاں زندہ درگور کرنا ملّی فریضہ ٹھہرا تھا۔ مقتدر طبقہ ہی کم زوروں کا قانون ساز تھا۔ اخلاقی اقدار، ضمیر کی آزادی، عدل و انصاف، اخوّت و مساوات وغیرہ نہ صرف یہ کہ مفقود تھے ،بلکہ اُنھیں حاصل کرنے تک کا بھی شعور نہ تھا۔ انسان مستقل ایک فریب کا شکار تھا، مُلک میں رائج کھوکھلے نظام کی پُشت پر جابر حکّام اور اُن کے گماشتے مسلّط تھے۔

قومی وسائل اور قومی دولت اُس چھوٹے سے گروہ کے لیے مخصوص تھی، جو فسق و فجور اور لہو ولعب میں زندگی گزارتا تھا۔وہ لوگ حق ، ناحق جانتے تھے اور نہ ہی جاننے کے آرزو مند تھے۔ گویا جنگل کا قانون تھا اور ’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘ کے مِصداق صرف تلوار ہی ہر مسئلے کا حل تھی۔ قومی یک جہتی کی بجائے قبائلی اور گروہی قوّت تھی، جو انتقام در انتقام ہی کے چکر میں الجھی جارہی تھی۔

اُن کے بازارِ تہذیب میں انسانی خون سے زیادہ ارزاں کوئی شے نہ تھی۔ایسے میں ضرورت تھی ایک ایسی تہذیب کی، جو انسان کو انسانوں کی غلامی سے نجات دِلا کر ضمیر کی آزادی بخشے اور حق و انصاف کی راہ دِکھائے۔ ضرورت تھی ایسے نظامِ زندگی کی، جس میں لوگوں کے معاملاتِ باہمی میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہوں، جو مالک و مملوک اور آجر و اَجیر کے تعلقات کو نظم و ضبط کا پابند بنا سکے، یہاں تک کہ حق دار کو اپنا حق لینے کے لیے کسی کی خوشامد نہ کرنی پڑے۔

ضرورت تھی ایسے معاشرے کی، جس میں عزّت و شرافت کا معیار، دولت کی بجائے اخلاقی اقدار اور کردار کی بلندی ہو۔ ایسے دَور میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے سرورِ کائنات، حضرت محمّدﷺ کو مبعوث فرمایا کہ دعوت دیجیے اس انسانی انبوہ کو، جو جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور اپنے آپ کو ایسے عذاب میں مبتلا کررہا ہے، جو اس کی دنیا و آخرت کو بگاڑ کر خسارے کی طرف لے جا رہے ہیں۔

یہ ایسی بھلائی کی طرف دعوت تھی، جو انسان کو انسان کی بندگی سے نجات دلائے، جو انسانی برادری کے قیام اور اس کی تاسیس میں ممدّ ومعاون ہو، جس کا رنگ، نسل اور نسبتی تفاخر میں کوئی دخل نہ ہو، جس میں انسان کی فضیلت اور عزوشرف کا معیار صرف تقویٰ ہو۔ اس دعوت کا کلمہ و نعرہ ’’لاالہ الااللہ محمّد رسول اللہ‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا اظہار اور رئوسائے عرب کی گدیوں سے بغاوت کا اعلان تھا۔ اس اعلان نے نہ صرف غرب، بلکہ تمام عالَم میں کھلبلی مچادی، کیوں کہ یہ اعلان محض خانۂ کعبہ میں پنج وقتہ نمازوں یا مخصوص تسبیحات و وظائف تک محدود نہ تھا۔

اس کلمے کی شدید مخالفت کی وجہ یہی تھی کہ اُس نے سارے نظام ہائے حیات، بیک جنبشِ قلم مسترد کردیے تھے۔مکّے کا اقتداری گروہ آپؐ کی دشمنی میں پیش پیش تھا کہ اُنہیں اپنی چوہدراہٹ کے خاتمے کا ڈر تھا، اسی باعث ولید بن مغیرہ نے کہا تھا کہ’’ یہ کیا بات ہوئی کہ مجھے اور ابو مسعود ثقفی کو چھوڑ کر (حضرت) محمّد(ﷺ) پر قرآن اُتارا جارہا ہے، حالاں کہ ہم دونوں مکّہ اور طائف کے بڑے آدمی ہیں، مَیں قریش کا اور ابو مسعود ثقیف کا سردار ہے۔‘‘

نبی کریمﷺ مکّے میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے، آپؐ کی نبوّت سے قبل کی چالیس سالہ زندگی سے مکّے کا ہر شخص واقف تھا۔ آپؐ نے کسی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کوئی ایسی صحبت ملی کہ جس کی وجہ سے آپﷺ کو وہ علوم حاصل ہوتے، جس کے چشمے یکایک نبوّت کے بعد آپؐ کی زبانِ مبارک سے جاری ہوئے۔آپؐ کی چالیس سالہ زندگی دیکھ کر قریش کو اِس قدر علم تو ضرور ہوچُکا تھا کہ آپؐ کی طبیعت جھوٹ، فریب، عیّاری، بدعہدی اور اس قبیل کی تمام گراوٹوں سے پاک تھی، اِسی لیے تو بڑے چھوٹے سبھی آپ ؐ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے۔ نبوّت سے پانچ سال قبل، جب خانۂ کعبہ کی تعمیرِ نو ہوئی تو حجرِ اسود کے نصب کرنے کے سلسلے میں ہونے والی خون ریزی کا خطرہ یوں ٹلا کہ’’ کل صبح سے پہلے جو حرم میں آجائے، وہی اس کا فیصلہ کرے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اُس دن سب سے پہلے حرم پہنچایا۔

چناں چہ سب نے بڑی خوشی سے آپؐ کا فیصلہ قبول کرنے کا اعلان کیا اور پھر آپؐ نے نہایت عمدہ طریق پر اشتراکِ عمل کے تحت فیصلے پر عمل کیا۔ یوں آپؐ اعلانِ نبوّت سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے قریش سے ’’سیادت‘‘ کی گواہی حاصل کرچُکے تھے۔ آپؐ کی پوری زندگی بذاتِ خود ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی پیغمبر یا بانیٔ مذہب ایسا نہیں کہ جس کی اخلاقی زندگی کا ہر ہر پہلو ہمارے سامنے اس طرح ظاہر ہو کہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔ صرف معلّمِ اعظم اور محسنِ انسانیتﷺ کی حیاتِ طیّبہ ہی یہ خاص انفرادیت رکھتی ہے کہ اس کا ایک ایک پہلو دنیا میں محفوظ اور اپنی اصل میں سب کے سامنے ہے۔

مشہور دانش ور، باسورتھ اسمتھ نے لکھا ہے کہ’’ سیرتِ محمّدیؐ پورے دن کی روشنی ہے، جس میں (حضرت) محمّد(ﷺ) کی زندگی کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے۔‘‘ آپؐ کا خود یہ حکم تھا کہ ’’ میرے ہر قول اور عمل کو ایک سے دوسرے تک پہنچائو۔‘‘ محرمانِ راز کو اجازت تھی کہ وہ آپﷺ کو خلوت میں جو کرتے دیکھتے، اسے جلوت میں برملا بیان کردیتے، جو حجرے میں کہتے سنتے، اُسے کُھلے عام بیان کرتے۔ فرمایا’’ حاضر، غائب تک میری بات پہنچادیا کرے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو باطنی خوبیوں کے ساتھ ظاہری حُسن و جمال سے بھی خُوب نوازا تھا۔ اور صرف یہی نہیں، بلکہ سیّدنا آدمؑ سے لے کر سیّدنا عیسیٰ ابنِ مریمؑ تک تمام انبیا و رُسلؑ کی تمام تر ظاہری و باطنی خوبیاں اکیلے آپﷺ میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ کہنے والوں نے کہا ہے کہ’’ حُسنِ یوسفؑ سے متاثر ہو کر زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی اُنگلیاں کاٹ ڈالیں، لیکن سیّدنا یوسفؑ کے چہرے سے نگاہیں ہٹا نہ سکیں۔ لیکن میرے مصطفیٰﷺ کو جنہوں نے دیکھا، پہلے ایمان لائے، پھر گلے بھی کٹوا ڈالے، لیکن آپؐ کے دامنِ اقدس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔‘‘ احادیث اور سیرۃ کی کتب میں متعدّد صحابۂ کرامؓ نے آپؐ کے چہرۂ پُرانوار کی خُوب صورتی بیان کی ہے، لیکن یہ اَمر باعثِ حیرت ہے کہ کوئی ایک بھی راوی آپؐ کے چہرے کے خدوخال اور حُسن و جاذبیت کی تمام تر خوبیاں مکمل طور پر روایت نہ کرسکا اور اس کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ آپؐ کے چہرۂ مبارک پر اس قدر وقار و دبدبہ تھا کہ کوئی ٹکٹی باندھ کر کیسے دیکھتا اور ویسے بھی ادب کا تقاضا تھا کہ جُھکی جُھکی نظروں ہی سے شوقِ دیدار پورا کرلیا جائے۔

سیّدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ آپؐ کا چہرہ آفتاب و مہتاب جیسا تھا (مسلم شریف)۔ خود روح الامین ، حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا کہ ’’مَیں تمام مشارق و مغارب میں پھرا، لیکن نبی اکرمؐ سے زیادہ کوئی افضل اور حَسین و جمیل نہیں دیکھا۔‘‘ دربارِ نبوّت کے عظیم نعت خواں، سیّدنا حسّان بن ثابتؓ نے بجا فرمایا ہے کہ’’و احسن منک لم ترقط عینی…واجمل منک لم تلد النّساء…خُلِقت مبراً مّن کُل عیب…کانک قد خُلِقت کما تشاء۔‘‘ یعنی ’’آپؐ سا حَسین کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور آپؐ کا سا جمیل کسی ماں نے نہیں جَنا۔ آپؐ ہر عیب سے اس طرح پاک صاف پیدا کیے گئے کہ معلوم ہوتا ہے، گویا آپؐ خالق سے کہتے چلے گئے کہ’’ مجھے ایسا بناتا جا اور وہ بناتا چلا گیا۔‘‘

بہتوں نے آپؐ کے چہرۂ مبارک کو چاند سے تشبیہہ دی، لیکن بہتوں نے یہ بھی کہا؎’’چاند سے تشبیہہ دینا، یہ بھی کوئی انصاف ہے… چاند کے چہرے پر جھائیاں، میرے محمدؐ کا چہرہ صاف ہے۔‘‘تاہم، ہمیں مزید آگے بڑھتے ہوئے انسانیت کی ہدایت کے لیے نبی کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ کو سامنے لانا ہوگا تاکہ آج کا مسلمان سَر سے پیر تک، ظاہر سے باطن تک، گھر سے مسجد اور مسجد سے تمام کاروبار ہائے زندگی تک مکمل مسلمان بن کر ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو‘‘ کی عملی تصویر بن سکے۔

عام طور پر نبی آخر الزماںﷺ کی سیرت بیان کرتے ہوئے محض آپؐ کے حُسن و جمال کا تذکرہ کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ نعتیہ شاعری میں بھی اندازِ تبّسم، ابروئے چشم اور گیسو ہی موضوعِ دادِ سخن بنائے گئے ہیں، گویا دوسرے لفظوں میں سارا ذکر نبیؐ کی اُس حیثیت کا کیا جارہا ہے، جو محمّدؐ بن عبداللہ کی ہے، محمّد رسول اللہؐ کی حیثیت سے آپؐ نے دنیا کو امن و آشتی کا جو چلن دیا، اپنے عمل سے انسانی حقوق کا جو چارٹر عطا کیا اور اپنی 23 سالہ نبوّت کی زندگی میں جو اُسوۂ حسنہ چھوڑا، اکثر اُسے اس طرح بیان نہیں کیا جاتا کہ وہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے انقلاب آفریں ثابت ہو، یہی وجہ ہے کہ اس قدر عظیم الشّان پیغمبرؐ کے عظیم اُمتی ہونے کے باوجود ہم مختلف اور عجیب عجی قسم کے احساساتِ کم تری میں مبتلا ہیں۔

تمدّن، وضع قطع اور معاشرتی رکھ رکھائو سے ہم کسی بھی طرح’’ محمّدی‘‘ معلوم نہیں ہوتے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ محض عشقِ مصطفیٰ ﷺکے زبانی دعوے کرلینے سے ہمارا ایمان کامل نہیں ہوتا کہ اطاعت و تابع داری کے بغیر محبّت معتبر نہیں کہلائے گی۔

نبی کریمﷺ کی ساری زندگی اسلام کے غلبے اور فروغ کی کوششوں سے لب ریز ہے، یہی وہ مقصدِ اوّلین تھا کہ جس کی تکمیل کے لیے آپﷺ مبعوث فرمائے گئے کہ’’اللہ وہ ذات ہے، جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام ادیان پر ظاہر و غالب کردے۔‘‘ (القرآن)۔