امریکی جمہوریت پر بڑا سوالیہ نشان؟

January 17, 2021

امریکی کانگریس اور سینیٹ نے اپنے مشترکہ اجلاس میں نو منتخب امریکی صدر، جو بائیڈن کی جیت کی باقاعدہ توثیق تو کردی، تاہم یہ مرحلہ ایک انتہائی ناخوش گوار واقعے کے سبب امریکی تاریخ کا سیاہ باب بھی بن گیا۔ اِس اجلاس میں دونوں جماعتوں، ری پبلکن پارٹی اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے نمایندے موجود تھے۔ابھی اجلاس شروع ہی ہوا تھا کہ صدر ٹرمپ کے حامیوں نے اجلاس کے مقام، یعنی کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا۔اِس دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی میں چار افراد ہلاک اور تیرہ زخمی ہوئے۔

ہنگامہ آرائی کی وجہ سے مشترکہ اجلاس عارضی طور پر ملتوی کرنا پڑا اور حالات پر قابو پانے کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں کرفیو لگا دیا گیا۔ تاہم، صُورتِ حال میں بہتری آنے پر اجلاس دوبارہ ہوا، جس میں جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔نومنتخب صدر نے اس موقعے پر اپنے ایک بیان میں ہنگامہ آرائی کو بغاوت قرار دیا ۔ جوبائیڈن کا اپنے پیغام میں مزید کہنا تھا کہ’’ امریکی جمہوریت پر وہ حملہ ہوا ہے، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘

اُنہوں نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ’’ وہ قومی ٹی وی پر آئیں، اپنے حلف کی پاس داری اور آئین کا تحفّظ کرتے ہوئے مظاہرین کو واپس جانے کا کہیں اور تشدّد رکوائیں۔‘‘اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ’’ کیپیٹل ہل میں گُھس جانا، کھڑکیاں توڑنا، سینیٹ کے دفاتر پر قبضہ کرنا اور منتخب ارکان کے لیے خطرہ بن جانا احتجاج، نہیں بغاوت ہے۔‘‘اِس بیان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے، جنہوں نے مظاہرین کو عمارت کی جانب جانے کو کہا تھا، حامیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے گھروں کو لَوٹ جائیں۔تاہم، اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے ایک بار پھر’’ الیکشن چُرانے‘‘ کے الزامات بھی دہرائے۔صدر ٹرمپ نے کانگریس کی جانب سے جوبائیڈن کے حق میں فیصلے کے بعد یہ تو کہا کہ20 جنوری کو اقتدار پُرامن طور پر منتقل ہوجائے گا، لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اُس تقریب میں شریک نہیں ہوں گے۔

درحقیقت، ان واقعات کی بنیاد یہی الزامات تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی شکست کے بعد سے مسلسل صدارتی انتخابات کے چوری ہونے کے الزامات لگاتے آ رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کسی صُورت شکست تسلیم نہیں کریں گے۔اس سلسلے میں اُن کے حامیوں نے متعدّد ریاستوں میں’’ جعلی ووٹس‘‘ کے خلاف مقدمات بھی درج کروائے، لیکن ٹھوس شواہد فراہم نہ کرنے کے سبب تمام مقدمات ہار گئے۔ 6 جنوری کو ہونے والا مشترکہ اجلاس دراصل آخری رسمی کارروائی تھی، جس میں نومنتخب صدر کی جیت کی توثیق کی جانی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اجلاس رکوانے کی بھی کوشش کی، لیکن اُن کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

جس کے بعد اجلاس کے موقعے پر وائٹ ہاؤس کے باہر’’ امریکا بچاؤ ریلی‘‘ کا اہتمام کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا’’ ہمارے مُلک نے بہت کچھ سہہ لیا، اب مزید برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘اِس موقعے پر اُنھوں نے مظاہرین کو ترغیب دی کہ وہ کیپیٹل ہل کی جانب جائیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔

واشنگٹن پولیس کے مطابق، کچھ مظاہرین باڈی آرمز پہنے ہوئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے کہ’’ ہمیں ٹرمپ چاہیے۔‘‘مظاہرین نے نہ صرف عمارت میں توڑ پھوڑ کی، بلکہ اہم عُہدے داران کی کرسیوں پر بیٹھ کر خُوب سیلفیاں بھی بنائیں۔بعض افراد سینیٹ کے چیمبرز میں گھس گئے، جس پر پولیس کو اسلحہ استعمال کرنا پڑا۔ہنگامہ آرائی روکنے کے لیے نیشنل گارڈز، ایف آئی اے اور امریکی سیکریٹ سروس کی بھی مدد حاصل کی گئی۔ صدر ٹرمپ کی اپیل کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر موجود رہے اور اُنھوں نے واپس جانے سے انکار کیا، تو امریکی دارالحکومت میں 15 روز کے لیے کرفیو لگانا پڑا۔

اِس پُرتشدّد ہنگامہ آرائی کی دنیا بھر میں مذمّت کی گئی۔جرمنی سے لے کر نیوزی لینڈ تک سب ہی نے اسے روکنے اور پُرامن طور پر اقتدار کی منتقلی کے مراحل طے کرنے پر زور دیا۔اچھی بات یہ رہی کہ صدر ٹرمپ نے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے بعد اقتدار کی پُرامن منتقلی کا وعدہ کیا،جس سے جمہوری قوّتوں کو ایک مرتبہ پھر تقویت ملی۔یہ بات تو ٹرمپ کی الیکشن مہم ہی سے ظاہر ہوگئی تھی کہ وہ ایک غیر روایتی سیاست دان اور’’منفرد صدر‘‘ کے طور پر سامنے آئے۔اُن کے دورِ حکومت میں اس غیر روایتی انداز کی جھلکیاں بار بار دیکھنے کو ملیں۔

اُنہوں نے بیک وقت اپنے حلیفوں اور حریفوں دونوں کو نالاں رکھا۔گو کہ اُنہوں نے عالمی امن اور امریکی عوام کے لیے کئی ایک اچھے اقدامات بھی کیے، لیکن اُنھیں میڈیا میں کچھ خاص پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی انتخابات میں شکست کا ایک بڑا سبب میڈیا سے مخاصمت کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔وہ پورے دورِ حکومت میں اپنے حریفوں اور اختلاف کرنے والوں سے راضی نامے پر مائل نہ ہوئے۔البتہ، اُنہوں نے بین الاقوامی امور میں کافی لچک دِکھائی اور سفارت کاری کی حدود پھلانگنے کی کوشش نہیں کی۔اپنے ہنگامہ خیز دورِ صدارت کے باوجود انتخابات میں شکست کے بعد وہ اُن صدور کی فہرست میں شامل ہوگئے، جو صرف ایک ہی ٹرم پوری کرسکے۔

ماہرین کے مطابق، اُن کی شکست کی ایک بڑی وجہ کورونا وائرس بھی رہا، کیوں کہ اس کے نتیجے میں امریکا میں جو ریکارڈ اموات ہوئیں، اُن سے اُن کے عالمی سطح پر کیے گئے اچھے کام بھی دھندلا گئے۔دراصل، مسلسل لاک ڈائون کی اذیّت اور فوری علاج دریافت نہ ہونے کی وجہ سے امریکی شہریوں میں مایوسی بڑھی، جس کا خمیازہ صدر ٹرمپ کو شکست کی صُورت بھگتنا پڑا۔گو کہ ٹرمپ ہی کے دَور میں امریکا نے کورونا سے بچاؤ کی دو ویکسینز تیار کیں، لیکن شاید عوامی تاثر کے لحاظ سے دیر ہوچُکی تھی۔پھر یہ کہ ڈیمو کریٹک امیدوار کی وہ حکمتِ عملی بھی کام یاب رہی، جس کے تحت وہ امریکا میں کورونا کے پھیلائو کی ذمّے داری ٹرمپ انتظامیہ پر ڈالتے رہے۔

انتخابی دوڑ تو اُسی وقت ختم ہوگئی تھی، جب جو بائیڈن نے الیکٹورل کالج میں بھاری اکثریت سے ٹرمپ کو شکست دی، لیکن ٹرمپ اپنی عادت اور اندازوں کے عین مطابق اِس اَمر پر اصرار کرتے رہے کہ اُن کے ووٹس چوری کر لیے گئے۔ اُنھیں الزامات ثابت کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنا پڑا، مگر وہاں سے بھی حق میں فیصلے نہ آئے، تو اُن پر میڈیا میں ہونی والی تنقید میں بھی شدّت آگئی، لیکن ٹرمپ کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اس سب کچھ کے باوجود اُن کے ساتھ کھڑی رہی اور آج بھی وہ یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ ٹرمپ کو انتخابات میں واقعی شکست ہوئی۔اور کیپٹل ہل کے شرم ناک اور پُرتشدّد واقعات اسی کا کلائیمکس ہیں۔

یہ نہیں کہ امریکا میں پہلے کبھی الیکشن تنازعات کی زد میں نہ آئے ہوں، کئی بار تنازعات جنم لیتے رہے ہیں، لیکن ہر بار معاملات پُرامن طریقوں سے حل کر لیے گئے۔امریکی تاریخ میں اِکّا دُکا ہی ایسے واقعات ہوئے، جب لوگوں نے تشدّد کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ اِن دنوں پوری دنیا میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ان پُرتشدّد ہنگاموں نے امریکا کی جمہوریت کو غیر معمولی نقصان پہنچایا؟ اور کیا ٹرمپ صدارت چھوڑنے کے بعد ہار مان کر چُپ چاپ بیٹھ جائیں گے؟

صدر ٹرمپ کی اپنی جماعت، ری پبلکن پارٹی میں سے بھی کئی ارکان نے اقتدار کی روایتی طریقے سے منتقلی کی حمایت کی اور صدر ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ شکست تسلیم کرلیں۔ان ہنگاموں نے ٹرمپ کے حامی سینیٹرز اور کانگریس ارکان کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں۔ اُن کے پاس اِس کے سِوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ جمہوریت بچانے کے لیے ٹرمپ کی شکست کا فیصلہ صادر کریں۔کانگریس کی جانب سے جوبائیڈن کی جیت کی توثیق سے یہ بات تو سامنے آئی کہ امریکی جمہوریت کو تو کوئی غیرمعمولی نقصان نہیں پہنچا، البتہ ری پبلکن پارٹی کی ساکھ ضرور متاثر ہوئی۔ نیز، ان ہنگاموں نے ایک اور خطرناک اندیشے کو بھی جنم دیا۔ وہ یہ کہ امریکا میں قوم پرستی کی جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔

ٹرمپ اسی قوم پرستی کی علامت بن کر اُبھرے تھے اور اُن کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اُن کی سیاسی فکر پر پختہ یقین رکھتی ہے۔کیپیٹل ہل ڈراما تو تیس، چالیس گھنٹوں میں ختم ہوگیا، لیکن اس نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ امریکا میں قوم پرستی کے معاملات انتہائی تدبر اور بے پناہ صبر سے نمٹانے کی ضرورت ہے۔جوبائیڈن نے اس مہم جوئی کو بغاوت تو قرار دیا ہے اور اُن کے حامیوں نے بھی اِس اقدام پر ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیا، لیکن جس قسم کی تقسیم امریکی معاشرے میں آچُکی ہے، اُسے پاٹنا آسان نہ ہوگا۔ظاہر ہے، جب امریکا جیسے مُلک میں الیکشن کے نتائج پر ایسے خوف ناک ہنگامے ہوسکتے ہیں، تو دوسرے حسّاس معاملات پر کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔ امریکی عوام کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ صرف الیکشن ہی کے دنوں میں سیاست کرتے ہیں اور باقی اوقات میں اُن کی توجّہ اپنے معمول کے کام کاج پر مرکوز رہتی ہے، لیکن شاید اب ایسا نہیں رہا۔

وہ انتخابات کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ سیاست میں دل چسپی لے رہے ہیں، بلکہ اپنے پسندیدہ سیاست دان کے لیے انتہائی قدم تک اُٹھانے پر بھی کمر بستہ ہیں۔ان پُرتشدّد ہنگاموں سے ثابت ہوا کہ وہ ٹرمپ جیسے قوم پرست کو فتح دِلا کر وائٹ ہاؤس تک پہنچا سکتے ہیں اور پھر اُس کے لیے قانون کو بھی اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔اِس سے قبل امریکا میں سیاہ فام باشندوں سے متعلقہ مسائل تشدّد کا باعث بنتے رہے ہیں، لیکن اب قوم پرستی اور’’ امریکا فرسٹ‘‘ جیسے جذبات بھی توانا ہوچُکے ہیں۔اس کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں؟ ان پر امریکی سیاسی ماہرین اور دانش وَروں کو غور کرنا ہوگا، کیوں کہ صرف مذمّت سے کام نہیں چل سکے گا۔

امریکی معاشرہ ایک کثیر القومی معاشرہ ہے۔ مختلف اقوام اور ممالک کے لوگ وہاں آکر آباد ہوئے۔امریکا کو’’ لینڈ آف اپرچیونٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یعنی اگر کسی کے پاس ٹیلنٹ ہے، تو وہ یہاں پھل پاتا ہے، لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے، جب معاشرہ مکمل طور پر تعصّب سے پاک ہو اور قوم پرستانہ سوچ میں اس کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔اس ماحول کے براہِ راست اثرات تارکینِ وطن پر بھی پڑنے کے امکانات ہیں، جو اب تک وہاں ایک پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔

عالمی اقتصادی بحران کے بعد سے امریکی معاشرے میں ایک خاص قسم کی بے چینی دیکھنے میں آ رہی ہے، وہ اپنے معاشرے اور سیاست سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں۔خاص طور پر اُن کی مِڈل اور لوئر مِڈل کلاس تبدیلی کی خواہاں ہے۔اُنھوں نے صدر ٹرمپ کی شکل میں ایک تجربہ کرکے دیکھا، لیکن چار سال بعد وہ اُسے بھی جاری نہ رکھ سکے۔

اس کی ایک وجہ تو کورونا سے ہونے والی غیر معمولی تباہی تھی، جس نے امریکی معاشرے کو بُری طرح نقصان پہنچایا۔شاید اُنہیں اس اَمر پر بہت تاسّف تھا کہ ٹیکنالوجی میں دنیا کا قائد ہونے کے باوجود اُن کا جانی اور مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا۔اسی دَوران الیکشن بھی آگئے اور اُن کا غصّہ صدر ٹرمپ کی شکست کی صُورت میں سامنے آیا۔امریکی سیاست میں ایک خُوبی یہ ہے کہ وہاں اہم اور قومی معاملات پر پارٹی پالیسی کے برعکس بھی ووٹ دیا جاسکتا ہے، جیسے جوبائیڈن کی کانگریس سے توثیق کے موقعے پر ہوا۔

اس روایت سے بھی وہاں جمہوریت خطرات سے بچ نکلتی ہے۔ گو کہ کیپیٹل ہل واقعے سے کوئی آئینی بحران تو پیدا نہیں ہوا، لیکن پُرتشدّد ہنگاموں، توڑ پھوڑ اور ہلاکتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔یہ اب وہاں کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ان معاملات پر کس طرح قابو پاتی ہے۔اُسے اپنی بہتر حکمتِ عملی سے معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم کو مفاہمت میں تبدیل کرنا ہوگا۔ نیز، اُسے عوام کو یہ بھی یقین دِلانا ہوگا کہ الیکشن ہی تمام مسائل کا حل ہے۔