برنس روڈ: بہت کچھ بدل گیا

January 13, 2021

کراچی شہر کی میونسپل حدود میں 1860ء کی دہائی کے بعدبرطانوی حکومت کے سرویئر مسٹر میرامز کی رپورٹ کی روشنی میں جو آبادیاں (کوارٹرز) وجود میں آئیں، ان کی کل تعداد چھبیس تھی۔ ان میں سے ایک آبادی کا نام رام باغ کوارٹرز رکھا گیا تھا۔ یہ مغرب میں کچہری روڈ سے پریڈی اسٹریٹ اور ایم اے جناح روڈ تک، جنوب میں کچہری اور مشرق میں اسکینڈل پوائنٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ فریئرروڈ (موجودہ شاہ راہِ لیاقت) ان کوارٹرزکے درمیان میں کچہری روڈ سے برنس روڈ (موجودہ محمد بن قاسم روڈ) تک گزرتا ہے۔ آج اسی فریئرروڈ سے ملحق برنس روڈ کے علاقےکا یہاں تذکرہ ہے۔آج اس علاقے کو بہت سے افراد محض اس کی فوڈ اسٹریٹ کی وجہ سے جانتے ہیں،لیکن اس کی ثقافتی ، سماجی اور سیاسی اہمیت بھی ہے۔

اسی برنس روڈ پرگزشتہ برس چودہ اگست کو کراچی نیبر ہُڈ امپروومنٹ پروجیکٹ کے تحت تعمیر کردہ پیپلز اسکوائر اور زیرِ زمین دو سطحی کارپارکنگ کا وزیرِ اعلی سندھ مرادعلی شاہ نے افتتاح کیا تھا۔ ڈی جےسائنس کالج کے اطراف پیپلز اسکوائرکےپارکنگ ایریا میں ساڑے تین سو موٹر کاراور ڈھائی سو موٹرسائیکلیں پارک کرنے کی سہولت ہے۔ گراؤنڈ فلورپر لینڈاسکیپنگ کی گئی ہے،خوب صورت لائٹس لگائی گئیں اور ٹک شاپس بھی قائم کی گئی ہیں ۔

ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے تعمیر شدہ پیپلزاسکوائر میں پچاس فی صد دکانیں خواتین کےلیے مخصوص کی گئی ہیں۔یہ منصوبہ دراصل برنس روڈ،نیشنل میوزیم ،ایس ایم لا کالج،ڈی جے سائنس کالج اور ایس ایم کالج سے متصل ہے۔دوسری جانب سندھ سیکریٹریٹ سے بھی اس کی حدود ملتی ہیں۔بلاول بھٹّونے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شکوہ کیاتھا کہ 'سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے عالمی بینک سے بھاری قرض لیا ہے لیکن وفاقی حکومت سے نہیں ملا۔

پھر رواں ماہ کی دس تاریخ سے کراچی کی مشہور برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ پر شام سات بجےسے گاڑیوں کا داخلہ بند کرنےاور اسے پیدل چلنے والوںکےلیے مخصوص کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ اس بارے میں ضلع جنوبی کی انتظامیہ کی جانب سےجاری شدہ نوٹی فکیشن میں کہا گیاتھا کہ شاہ راہِ لیاقت کو فریسکوچوک سے کورٹ روڈ تک شام سات بجےکے بعد ٹریفک کے لیے بلاک کردیا جائے گا۔

اس سے چند یوم قبل فوڈ اسٹریٹ پر واقع عمارتوں پر رنگ وروغن کا کا م شروع کردیا گیاتھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں اس فوڈ اسٹریٹ کی تزئین و آرائش کے لیےحکومتِ سندھ نے دس رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ کی ترقی اور خوب صورتی سے متعلق تجاویز، منصوبے کی نگرانی کےلیے بنائی گئی کمیٹی کواپنی رپورٹ ڈپٹی کمشنر ساؤتھ کو پیش کرنی تھی۔

شہر کے مرکزی علاقے صدر کے نزدیک واقع برنس روڈ کو دیسی و ثقافتی کھانوں کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے، جہاں لذیذ کھانوں کے کئی چھوٹے بڑے ریستوران قائم ہیں۔ شام ہوتے ہی یہاں کھانا کھانے اورلینےکےلیے آنے والوں کا رش لگ جاتا ہے جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔

فریسکو چوک سے ریگل چوک تک سفر کیاجائے تو شاہ راہِ لیاقت کےدائیں اوربائیں جانب ویمن کالج چورنگی تک بہت سے ریسٹورنٹس، ہوٹلز، برگر، باربی کیو، فوڈ سینٹر،بریانی، مٹھائی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں واقع ہیں۔اگرچہ یہ سڑک برنس روڈ نہیں لیکن یہ پورا علاقہ برنس روڈ ہی کے نام سے مشہور ہے۔اس فوڈ اسٹریٹ پر رونق کا آغازدن کے بارہ بجے سے ہو جاتا ہے اور رات گئے تک سیکڑوں افراد یہاں کارخ کرکے مختلف اشیائے کھاتے،پیتےہیں۔

دن کے اوقات میں زیادہ ترحلیم اور بریانی کی دکانوں پر رش ہوتا ہے۔اس فوڈ اسٹریٹ کے اطراف سندھ سیکریٹریٹ، ہائی کورٹ اور دیگرنجی اور سرکاری دفاتر واقع ہیں،جن میں ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں۔ دن کے اوقات میں یہی ملازمین یہاں کی رونق کا سبب بنتے ہیں۔رات کو سات،آٹھ بجےکےبعدبرنس روڈبھرپوراندازمیں فوڈ اسٹریٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور شہری اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں کا رخ کرتے اورانواع واقسام کے کھانے کھا کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہاںسو سے زاید ریسٹورینٹس، مٹھائی اور کھانےپینے کی دیگر اشیا کی دکانیں ہیں۔

شاہ راہ لیاقت اور محمد بن قاسم روڈ

اس علاقے کا نام جس سڑک کی وجہ سے پڑا وہ فریسکو چوک سے روزنامہ جنگ، کراچی کے موجوہ دفتر تک محیط ہے، لیکن اس کی فوڈ اسٹریٹ فریئر روڈ (موجودہ شاہ راہ لیاقت) کے ساتھ واقع ہے۔ تاہم یہ فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ کہلاتی ہے۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق دراصل یہ علاقہ شاہ راہ لیاقت کی وجہ سے دو حصوں میں منقسم ہے۔ اس کا ایک سرا اردو بازار اور بہادر شاہ مارکیٹ سے جامع کلاتھ مارکیٹ کے کونے تک اور دوسرا سرا سندھ سیکریٹریٹ کے عقبی حصے سے فریسکو چوک تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پورا برنس روڈ کا علاقہ کہلاتا ہے۔

اس علاقے کے نام کی ایک اور توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس آبادی کے قریب ہی چوں کہ برنس گارڈن واقع ہے، لہٰذا یہ پورا علاقہ برنس روڈ کہلاتا ہے۔ اس باغ کا نام ایک انگریز افسر جیمز برنس کے نام پر رکھا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ باغ 1921ء میں کراچی میونسپلٹی نے لگوایا تھا اور اس میں ہمہ اقسام کے پھولوں کے پودے موجود تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس باغ میں اتنے انگور پیدا ہوتے تھے کہ انہیں برآمد کیا جاتا تھا۔ یہ باغ تقریباً چھبّیس اعشاریہ بیس ایکڑ رقبے پر محیط تھا۔ اب یہاں قومی عجائب گھر کی عمارت کا اضافہ ہوچکا ہے اور یہ پہلے کی طرح خوب صورت نہیں رہا ہے۔

کُل دس گلیاں

برنس روڈکے علاقے میں کل دس گلیاں ہیں، جنہیں ایک تا دس نمبر دیے گئے ہیں۔ تجاوزات قائم ہونے کے باوجود آج بھی اس کی گلیاں کافی کشادہ نظر آتی ہیں۔ محمد بن قاسم اسٹریٹ پر ڈی جے سائنس کالج کی عمارت کے قریب واقع سگنل سے ایم اے جناح روڈ کی طرف چلیں تو بائیں ہاتھ پر سگنل سے لے کر فریسکو چوک تک پتھروں سے بنی تین منزلہ خوب صورت عمارتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دائیں ہاتھ پر سگنل کے ساتھ ہی پتھروں سے بنی ایک عمارت نظر آتی ہے، لیکن اس کے بعد جو اپارٹمنٹ بلڈنگز نظر آتی ہیں، وہ ان عمارتوں کے بہت بعد میں اور اینٹوں سے تعمیر شدہ اور بھدی ہیں۔

علاقے میں موجود پتھر سے بنی خوب صورت عمارتوں کے ساتھ ان کا کوئی جوڑ نظر نہیں آتا۔ پھریہ کہ محمد بن قاسم روڈ کے پوری طرح کاروباری رنگ اختیارکرلینے کی وجہ سے پورے علاقے کا مزاج اور ماحول تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ صورت حال برنس روڈ کے پورے علاقے میں نظر آتی ہے۔ یہاں ہر گلی میں دکانیں، بازار یا کاروباری دفاتر نظر آتے ہیں۔ محمد بن قاسم روڈ کے دائیں جانب واقع گلیوں میں سے ایک گلی میں گوشت اور سبزی مارکیٹ قائم ہوچکی ہے۔

شاہ راہ لیاقت کے دوسری طرف واقع گلیوں میں مسالا پیسنے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں، کباڑیے کاروبار میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کھانے پینے کے مراکز یا ان کے باورچی خانے ہیں، اسپتال ہے اور اردو بازار وغیرہ ہیں۔ شاہ راہ لیاقت پر فریسکو چوک سے کورٹ روڈ کے چوراہے تک جائیں تو دونوں طرف ریستوران، ربڑی، لسی، مٹھائی، آئس کریم، دہی بڑے، بن کباب وغیرہ کی دکانیں، ٹھیلے، چائے خانے، کریانے، جوتے چپل، فوٹو اسٹیٹ، ٹائپ رائٹر بنانے والوں کی دکانیں نظر آئیں گی۔

کشادہ بالکونیاں، پلّوں والے روشن دان

برنس روڈ کا علاقہ دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی یہ بہت پُرسکون رہا ہوگا اور یہاں خوش حال گھرانوں کے لوگ رہتے ہوں گے جنہیں کشادہ اور خوب صورت عمارتوں کی تعمیر کا شوق رہا ہوگا۔ اس پورے علاقے میں زیادہ تر تین منزلہ پرانی اپارٹمنٹ بلڈنگز ہیں، بیرونی جانب سے ان عمارتوں کے نمایاں پہلوئوں میں کشادہ بالکونیاں، پلّوں والے روشن دان، لکڑی کے دروازے اور کھڑکیاں اور بالکونیوں میں نصب ڈھلے ہوئے لوہے کی جالیاںیاگرلز شامل ہیں۔ بہت سی بالکونیوں میں لکڑی سے بنی جافریاں بھی نصب نظر آتی ہیں۔

ان پرانی عمارتوں کو دیکھتے ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ آج ان کی جو شکل و صورت ہے، ویسی کل نہیں رہی ہوگی۔ کیوں کہ ان بالکونیوں کو لوگوں نے بہت بھدے انداز میں لوہے کی گرلز یا لکڑی کے تختوں کی مدد سے ڈھانپ دیا ہے۔اب یہاں کی اکثر عمارتوںمیں چوتھی اور پانچویں منزلیں بھی تعمیر کی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس صورت حال نے علاقے کی تقریباً تمام خوب صورت عمارتوں کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان پرانی عمارتوں میں سے اکثر 1930کی دہائی میں تعمیر کی گئی تھیں۔

اس بات کی تصدیق سبزی گلی کے کونے پر موجود ایک عمارت پر درج شدہ سن سے ہوتی ہے، جو 1937ء ہے۔ یہاں اکثر پرانی عمارتوں پر سنِ تعمیر درج شدہ ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ کراچی کے پرانے علاقوں اور عمارتوں کی خاص بات ہے۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد یا حال میں تعمیر ہونے والی عمارتیں مذکورہ بالا خصوصیات سے عاری نظر آتی ہیں۔

چائے خانوں سے فوڈ اسٹریٹ تک کا سفر

محمد سعید ، برنس روڈ کی گلی نمبر دو میں پیدا ہوئے اور زندگی کےساٹھ برس سے زاید اسی علاقے میں گزارچکے ہیں۔ وہ ایک دکان میں کام کرتے ہیں۔ ان کے بہ قول برنس روڈ کا علاقہ ویمن کالج سے فریسکو چوک تک ہے، جس میں چھام رائے اسٹریٹ بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق 1962-63ء تک گلی نمبر دو میں گوشت کی عارضی دکانیں تھیں۔ بعدازاں حکومت نے ان دکانوں کو فریئر مارکیٹ میں منتقل کردیا، مگر یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا اور یہاں دوبارہ گوشت مارکیٹ آباد ہوگئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ جہاں آج مشہور فوڈ اسٹریٹ (شاہ راہ لیاقت پر) واقع ہے،پہلے وہاں ایک دو چائے خانے اور اشیائے خورونوش کی ایک دو دکانیں تھیں۔

اس کے علاوہ وہاں ایک دکان میں کیرم کلب قائم تھا، سائیکل کی دکان اور ایک طبیب کا شفاخانہ تھا۔ وہاں ربڑی کی مشہور دکان 1978ء میں کھلی۔ فریسکو چوک کے قریب موجود مٹھائیوں کی مشہور دکان 1956ء ۔57ء میں کھلی۔ پہلے پہل اس دکان کے باہر فٹ پاتھ پر جلیبی بنتی تھی۔ فوڈ اسٹریٹ پر موجود نہاری کی مشہور دکان 1974ء میں کھلی۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والے یہاں آباد ہوئے۔

سندھ سیکریٹریٹ اور انکم ٹیکس بلڈنگ کے مقام پر جھونپڑیاں تھیں۔ بعدازاں ان میں رہنے والے خاندانوں کو حکومت نے لانڈھی اور کورنگی میں منتقل کردیا۔ پہلے یہاں دہلی سے ہجرت کرکے آنے والےاور میمن برادری کے لوگوں کی اکثریت تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ تاہم اب بھی یہاں دہلی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی اکثریت آباد ہے۔

ریڈیو ہوٹل

شاہ راہ لیاقت پرایک دکان کے مالک ،نسیم احمد کے مطابق یہ دکان ان کے والد نے 1948ء میں کھولی تھی۔ پہلے یہ پرچون کی دکان تھی۔نسیم احمد کی پیدائش اسی علاقے کی ہے، اور وہ آج بھی اسی علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کے بہ قول شاہ راہ لیاقت پر واقع آئس کریم کی دکان قیام پاکستان کے وقت کی ہے۔ نہاری کی مشہور دکان بھی کافی پرانی ہے۔ جہاں آج ایک فوڈ سینٹر واقع ہے، پہلے وہاں زچہ خانہ قائم تھا۔

اسی سڑک پر مشہور ریڈیو ہوٹل تھا۔ جب ٹیلی ویژن عام نہیں ہوا تھا تو لوگ یہاں بیٹھ کر خبریں اور دیگر پروگرام سنتے تھے۔ یہاں کبھی ایرانی کا ہوٹل بھی تھا۔ دو چائے خانے، ٹائپ رائٹر کی دکانیں(جو اب نہیں رہیں)، مٹھائی کی دو دکانیں، لسّی کی دکان اور ایک جنرل اسٹور کافی پرانا ہے۔

دیر گئے تک جاگنے کی روایت

علاقے کے پرانے رہائشیوںکے مطابق یہاں رات کو دیر تک جاگنے کی روایت کافی پرانی ہے۔ پہلے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کو لوگ شاہ راہ لیاقت کے فٹ پاتھ پر دریاں بچھا کر رات دیرگئے تک تاش اور شطرنج کھیلتے یا خوش گپیوں میں مصروف رہتے تھے۔ گلیوں میں بھی لوگ جگہ جگہ ٹولیوں کی صورت میں اسی طرح مصروف نظر آتے تھے۔ پہلے کی طرح اس علاقے میں اب بھی سورج رات کو طلوع ہوتا ہے۔

شاہ راہ لیاقت پر واقع ایک بینک کی شاخ کافی پرانی ہے۔ کبھی یہاں پاک مینشن نامی عمارت میں پہاڑ گنج کے نام سے دکان تھی، جہاں اصلی گھی فروخت ہوتا تھا۔ پہلے اس علاقے میں دہلی والوں اور میمن برادری کے علاوہ پراچہ برادری سے تعلق رکھنے والے خاندان بھی رہتے تھے۔ تاہم اکثریت دہلی والوں اور میمن برادری کی تھی۔ اب یہاں ملی جلی آبادی ہے۔ پہلے اس علاقے میں رہائش پزیر زیادہ تر افرادکا اپناکاروبارتھا۔

جانوروں کی منڈی اور بنجاروں کی جھونپڑیاں

کبھی موجودہ سندھ سیکریٹریٹ کے مقام سے پاکستان چوک تک عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی منڈی لگتی تھی۔ شہر بھر میں جانوروں کی لگنے والی منڈیوں کے مقابلے میں اس منڈی میں سب سے نفیس جانور فروخت کرنے کے لیے لائے جاتے تھے۔ جامع کلاتھ مارکیٹ کے قریب جہاں اب طغروں کی دکانیں ہیں، وہاں کبھی بنجاروں کی جھونپڑیاں تھیں اور قریب موجود کھوکھوں میں چائے خانے تھے اور کپڑوں کے رنگ فروخت کرنے والی دکان تھی۔ شاہ راہ لیاقت پر ایک طبیب کا شفاخانہ کافی پرانا ہے۔

گلیاں بھی گھر کی طرح

اس علاقے میں اب تک رہایش پذیریا ماضی میں یہاں رہنے کا تجربہ رکھنے والے افراد کے مطابق یہاں رہائش کا اپنا ہی مزہ ہے۔ یہاں کی گلیاں بھی گھر کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔ گھر سے نکل کر دفتر جارہے ہوں یا کسی اور کام سے، چلتے پھرتے بہت سے لوگوں سے علیک سلیک ہوجاتی ہے۔ یہاں بہت سی دکانیں محلے میں یا آس پاس رہنے والوںکی ہیں، وہ کاروبار بھی کرتے ہیں اور میل ملاقات بھی جاری رہتی ہے۔یہاں ایک تا پانچ کمروں کے فلیٹس ہیں۔ یہاں کی پرانی عمارتیں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں تعمیر کرانے والے متوسط اور متمول طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

یہاں سبزی گلی میں واقع شکور کیرم کلب بہت پرانا ہے۔ پہلے شہر میں کیرم کلب خال خال تھے، لہٰذا دور دور سے لوگ یہاں کیرم کھیلنے آتے ۔ دہلی سے تعلق رکھنے والے یہاں بہت سے رہائشی اب بھی تانبے کے برتن استعمال کرتے ہیں، لہٰذا جناح مسجد کی دکانوں میں برتنوں پر قلعی کرنے والے کی دکان ہے۔ یہاں عید میلادالنبیؐ کے موقع پر بھی کافی رونق ہوتی ہے اور چراغاں کیا جاتا ہے۔

اس علاقے میں آج بھی بہشتی کام میں مصروف نظر آتے ہیں اور مختلف مقامات پر دو تین ہینڈ پمپ نصب ہیں، جہاں سے وہ پانی بھر کر گھروں میں ڈالتے ہیں۔ یہاں پتھروں سے بنی ایک خوب صورت عمارت شفقت ہائوس کو سندھ کلچرل ہیری ٹیج پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ جناح مسجد 1948ء سے ہے اور مولانا شاہ احمد نورانی نے اس کے ابتدائی دور سے یہاں تراویح پڑھانا شروع کی اور پچاس برس سے زاید عرصے تک یہ خدمت انجام دی۔

مشہور ’’جلیبا‘‘

فریسکو چوک کے قریب واقع مٹھائی کی ایک بہت مشہور اورپرانی دکان ہے۔اس دکان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ 1956ء میں قائم ہوئی تھی۔ ابتدا میں یہاں جلیبی اور گلاب جامن بنتی تھیں۔ بعدازاں دیگر مٹھائیاں بھی بنائی جانے لگیں۔ اس دکان کی جلیبی اور ’’جلیبا‘‘ کافی مشہور ہے۔ جلیبا بھی جلیبی ہی کی طرح بنتا ہے۔

گاہکوں کی فرمائش پر بڑی سی جلیبی (پائو یا نصف پائو کی) بنائی جاتی ہے اور اس پر کچا اصلی گھی پکانے کے دوران ڈال دیا جاتا ہے، جس سے اس میں مکھانے کا مزہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کل کی طرح آج بھی یہاں کی جلیبی اور جلیبا کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کی بالوشاہی، قلاقند، گلاب جامن اور بیسن کا لڈو بھی خاص طور سے مشہور ہے۔

قائدِ اعظم نے علاقے کا دورہ کیا

شاہ راہ لیاقت پر واقع خشک میوہ جات کی دکان کے میں امتیاز احمد سے گفتگو ہوئی۔ان کے بہ قول کبھی اس شاہ راہ پر رات بارہ بجے سے فجر کے وقت تک لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ وہ برنس روڈ کے علاقے میں پیدا ہوئے اور زندگی کے پچپن برس انہوں نے یہیں گزارے۔ ان کے بہ قول شاہ راہ لیاقت پرکبھی پارچہ جات کی ایک دکان تھی، جہاں مرد اور خواتین گاہکوں کی طویل قطار لگی ہوتی تھی، کیوں کہ اس وقت آس پاس ایسی کوئی دکان نہیں تھی۔

محمد بن قاسم روڈ پر ایک دکان کے باہر بیٹھے ہوئے یعقوب اور محمد حبیب سے گفتگو ہوئی۔ ان دونوں افراد نے اس علاقے میں طویل وقت گزارا ہے، تاہم محمد حبیب تین برس قبل یہاں سے منتقل ہوگئے تھے۔ ان کے مطابق جہاں آج فضل الرحمن اسکول قائم ہے، پہلے وہاں سکھوں کا گردوارہ تھا، جسے قیام پاکستان کے بعد بعض شرپسندوں نے آگ لگادی تھی۔ چناںچہ علاقے میں صورت حال کشیدہ ہوگئی اور کرفیو نافذکردیا گیا تھا۔ اس وقت قائداعظم نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا۔ جہاں آج بہادر شاہ مارکیٹ قائم ہے، وہاں پہلے بہت چوڑا نالا تھا، جس میں محمد حبیب دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں آنے والے بعض افراد نے فلیٹس خریدے اور بعض نے قبضہ کیا۔

کسی زمانے میں اس علاقے میں دو کمروں کا فلیٹ دو تین سو روپے میں مل جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں رائو جی بوہرہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد، ہندو، پارسی اور سکھ رہتے تھے۔ آج بھی اس علاقے میں بوہرہ برادری کے لوگوں کی کافی جائیدادیں ہیں۔

محمد بن قاسم روڈ پر 1950ء کے بعد دکانیں کھلنا شروع ہوئیں۔ آرام باغ کا علاقہ کبھی کھلا میدان ہوتا تھا۔ جہاں آج فوڈ اسٹریٹ ہے وہاں اِکا دُکا چائے خانے اور اشیائے خورونوش کی دوچار دکانیں تھیں۔

بعض افراد کے بہ قول قیامِ پاکستان کے وقت یہاں یہودیوں کے بھی کچھ خاندان آباد تھے۔لیکن قیامِ پاکستان کے بعدیہاں رہنے والے ہندو ،سکھ،پارسی اور یہودی خاندان بھارت اوردیگر مقامات پر ہجرت کرگئےتھے۔

کبھی سیاسی تحریکیں وجہ شہرت تھیں

آج برنس روڈ کا علاقہ اپنی فوڈ اسٹریٹ کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک مشہورہے، لیکن پہلے یہ سیاسی تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کرنے کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔شاہ راہ لیاقت پر واقع نشاط ہوٹل میںکبھی بڑے بڑے سیاست داں شام کو بیٹھک کرتے تھے۔ یہاں آنے والوں میں محمود ہارون، حسین ہارون، عبدالخالق اللہ والاو غیرہ نمایاں نام تھے۔

علاقے کے بزرگ رہائشیوں کے بہ قول اس شاہ راہ کے کونے پر واقع ٹینٹ کی دکان کافی پرانی ہے۔ اسی سڑک پر واقع پان کی چار دکانیں بھی کافی پرانی ہیں۔ پہلے صرف شاہ راہِ لیاقت اور محمد بن قاسم روڈ پر چند دکانیں تھیں، لیکن اب علاقے کی ہر گلی میں دکانیں وغیرہ کھل گئی ہیں۔ اصل برنس روڈ جامع کلاتھ مارکیٹ سے ڈی جے کالج کے کونے تک ہے۔

اس علاقے میں رمضان کے مہینے میں سحری کے وقت تک دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ آخری عشرے میں یہاں رات کو بہت رونق رہتی ہے۔ چراغاں ہوتا ہے اور بچّے بھی رات بھر کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔ کھانے پینے کے مراکز پر لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ عصر کے وقت سے افطار کے وقت تک یہاں چھولے، پکوڑے، جلیبیاں، وغیرہ خریدنے کے لیے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔

کئی برس سے فریسکو چوک پر اجتماعی افطار کا اہتمام کیا جانے لگا۔ کسی زمانے میں گلی نمبر ایک میں پروگریسیو انگلش اسکول تھا۔ اب وہاں شادی ہال قائم ہوچکا ہے۔ بمبئی میمن برادر ہڈ ایسوسی ایشن نے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سیکنڈری اسکول اور ڈسپنسری قائم کی تھی، جو اب بھی موجودہیں۔

ان کے مطابق کبھی برنس روڈ کا علاقہ سیاسی طور پر بہت سرگرم تصور کیا جاتا تھا۔ قریب ہی این ای ڈی یونیورسٹی کا کیمپس اور ڈی جے کالج اور صدر کے علاقے میں جامعہ کراچی کا کیمپس تھا۔ اس وقت کی سیاسی تحریکوں میں طلبہ کا بہت اہم کردار ہوتا تھا۔ صدر بازار کے علاقے میں روزانہ ریستورانوں اور کتاب گھروں میں سیاسی، رہنما، کارکنان، دانش ور، شاعر اور صحافی مجلس کرتے ۔

وہاں طلبہ بھی آتے اور ان کی باتیں سن کر اپنے سیاسی اور سماجی شعور کی سطح بڑھاتے ۔ ایوب خاں اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومتوں کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں طلبہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران تقریباً ہرجمعہ کو نمازِ جمعہ کے بعد فریسکو چوک سے جلوس نکلتا، جسے اے ایس ایف آگے بڑھنے سے روکتی تھی۔ ایم کیو ایم کے ابتدائی دور میں یہاں کافی سیاسی سرگرمیاں ہوتی تھیں، جو اب بھی ہوتی ہیں، لیکن اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ 1977ء کے بعد یہاں سے بہت سے سیاسی لوگ شہر کے دیگر علاقوں میں منتقل ہوگئے تو یہاں کی سیاسی فضا میں وہ گہما گہمی نہیں رہی۔