ضمنی انتخابات: سندھ میں پی پی اور پی ٹی آئی میں پنجہ آزمائی ہوگی

January 14, 2021

سانحہ مچھ بلوچستان میں رونما ہواتاہم اسکے سیاسی معاشی اثرات کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں پر پڑے کراچی اور حیدرآباد میں تیس سے زائد مقامات پر احتجاجی دھرنوں کے سبب کراچی چار دن تک مفلوج ر ہا۔ سرکاری نیم سرکاری نجی دفاتر میں کام کرنے والے افراد ڈیوٹیوں پر انتہائی مشکل سے پہنچے، اکثر افراد دفاتر نہیں پہنچ سکے۔ اسپتالوں میں مریضوں کو پہنچانا مشکل ہو گیا تھا اگرچہ دھرنا منتظمین کی ہدایت تھی کہ ایمبولینس کو راستہ دیا جائے۔ دھرنے کے سبب کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ دہاڑی دار مزدور ہاتھ پر ہاتھ رکھے گھروں میں بیٹھے رہے۔فلائٹ شیڈول اور ریلوے کا نظام درہم برہم رہا۔

دھرنے کے چوتھے روز شارع فیصل پر دھرنا شرکا ء اور راہ گیروں میں راستہ بند کرنے پر جھڑپ بھی ہوئی جس میں کچھ موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی گئی خدشہ پیدا ہو چلا تھا کہ یہ ہنگامہ آرائی پورے شہر میں پھیل کر فرقہ ورانہ فسادات کی شکل اختیار نہ کر لے۔ مچھ سانحہ پر سندھ اسمبلی میں پی پی پی ،ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی مشترکہ مذمتی قرار داد بھی منظور کی گئی جبکہ کوئٹہ میں دھرنا شرکاء سے اظہار یکجہتی کے لیے جاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کچھ دیر کے لیے کراچی میں رکیں جہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم کے دھرنے سے متعلق بیان کو شدید ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ اگر تکبر اور ہٹ دھرمی کا کوئی چہرہ ہوتا تو وہ عمران خان جیسا ہوتا۔

ہزارہ برداری سے متعلق وزیرا عظم کا بیان انسانیت سے عاری ہے۔میں سلیکٹرز سے بھی سوال کرتی ہوں کہ کیا 22 کروڑ عوام میں یہی ایک سوغات ملی تھی۔موجودہ حکومت کی پے در پے غلطیوں پر عوام اب سلیکٹرز سے جواب طلب کررہے ہیں۔ کیا سلیکٹرز جانتے ہیں کہ ان کے انتخاب کی وجہ سے برادر دوست ممالک ناراض ہوئے، خارجہ پالیسی برباد کردی، گورننس کا ستیاناس کیا اور اب مظلوموں کو بلیک میلرز کا لیبل دے کر انسانیت کی توہین کی جارہی ہے ۔جس کو کوئٹہ جانے کی اجازت نہیں مل رہی اسکی کیا حیثیت این آر او دینے کی،وزیراعظم کے پاس کتوں سے کھیلنے اورڈرامے دیکھنے کاوقت ہے، متاثرین سے بات کرنے کا نہیں۔

ہزارہ برادری سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنے پیاروں کو دفنادیں کیونکہ جس انسان سے آپ اُمید لگائے بیٹھے ہیں اس کے سینے میں دل نہیں ہے۔ دوسری جانب پی پی پی کے وفد کی جانب سے ایم کیو ایم کے عارضی مرکز کا طویل عرصے بعد دورہ کرنے اور کچھ ایشوز پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی بات کے بعد امید پید اہو چلی تھی کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان دوریاں ختم ہونے کا عمل شروع ہو چکا ہے تاہم پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے شرمین چورنگی کے عوامی منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نام لئے بغیر کہا کہ ایم کیو ایم کا موجودہ حکومت کے ساتھ رہنا، ان کے اپنے ووٹرز کی ڈیمانڈ نہیں ہے، لیکن نہیں پتا وہ کونسی مجبوری ہے کہ ایم کیو ایم والے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم کراچی میں پیدا ہوئے ہیں، یہاں رہتے ہیں اور کراچی کو اُون بھی کرتے ہیں۔

اس شہر کے انفرااسٹرکچراور اس کی ترقی کے لئے جتنا کام پیپلز پارٹی نے کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری پیدائش سے بھی پہلے سے ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی والے یہاں سے’’سلیکٹ‘‘ہوتے رہےہیں، ان سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے کورنگی وغیرہ جیسے علاقوں کے لیے کیا کیا ہےجواباََ ایم کیو ایم نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان کی وفاقی حکومت سے علیحدگی کی صورت میں سندھ پر مسلط ٹولہ وفاق میں مسلط نہ ہوجائے، پچھلے پچاس برس سے پیپلزپارٹی کے حکمرانوں اور انکے خاندانوں نے سندھ کو برباد کیا ہواہے،ایم کیوایم پاکستان سے وفاق میں رہنے کی مجبوری پوچھنے والے بلاول پہلے چیئرمین سینٹ کو دئےجانےوالےووٹوںکی اپنی مجبوری بتائیں، بلاول بھٹو پی ڈی ایم میں وعدہ کرکے استعفیٰ نہ دینے کی مجبوری بتائیں؟،چند ماہ قبل بلاول بھٹو کی جانب سے ایم کیوایم کو دو وزارتوں کی پیشکش کس سازش کا حصہ تھا؟

مردم شماری میں کراچی کے ساتھ ناانصافی ذوالفقار علی بھٹو کے دورسے شروع ہوئی ان تلخ بیانات کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان وسیع خلیج ہے جو جلد ختم نہیں ہو گی اب سندھ کے تین حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی وہ جماعت ایک دوسرے کے خلاف ہونگی یا پھر ایک دوسرے کی مخالف اُمید وار کی حمایت کریں گی۔ مسلم لیگ نے سندھ میں پی پی پی کے امیدوار کے خلاف امیدوار سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے پی ٹی آئی نے سانگھڑ پی ایس 43کی سیٹ پر جی ڈی اے جبکہ ملیر پی ایس 88 پر ایم کیو ایم اور پی ایس 52 عمر کوٹ پر سندھ کی تمام اپوزیشن جماعتوں سے حمایت مانگی ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ حتمی مذاکرات کے بعد سانگھڑ کی نشست پر مسلم لیگ فنگشنل،ملیر کی سیٹ پر ایم کیو ایم اور عمر کوٹ کی نشست پر پی ٹی آئی ، پی پی پی کا مقابلہ کریگی۔

پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ ملیر کی نشست سے بھی انکا اُمیدوار ہو ، دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعت جے یو آئی نے ابھی تک کسی بھی جماعت کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا 2018 کے عام انتخابات میں جے یو آئی ۔ جی ڈی اے کے ساتھ تھی اب صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔ ان حالات میں جے یو آئی کیا فیصلہ کرےگی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ممکنہ طور پر وہ غیر جانبدار رہ سکتی ہے۔ پی ایس 52 عمر کوٹ پر پولنگ 18 جنوری کو ہو گی جبکہ پی ایس88ملیر اور پی ایس 43 سانگھڑ کی نشستوں پر پولنگ 16 فروری کو ہو گی۔

پی ایس 52 عمر کوٹ سے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم پی پی پی کے اُمیدوار کے مد مقابل ہونگے یہاں دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔ اس ضمن میںچیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کی زیر صدارت اہم اجلاس سندھ سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا، اجلاس میں عمرکوٹ، ملیر، سانگھڑ اور تھر پارکر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں سیکیورٹی اور دیگر انتظامی معاملات کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز انور چوہان نے بتایا کہ عمرکوٹ میں 18 جنوری کو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، عمرکوٹ میں 128 پولنگ اسٹیشنز ہیں، جس میں سے 50 انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں۔