’’فرینڈلی احتساب‘‘ ہی کیوں؟

January 14, 2021

یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت کے آخری دِن تھے۔ وہ خودپر اور اپنے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ سے مایوس ہو چکی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان پر لگے الزامات کی شفاف تفتیش ہو تاکہ حقیقت سب پر عیاں ہو جائے۔ انہوں نے اس تناظرمیں ہی اپنی حکومت برطرف کئے جانے سے ایک ہفتہ قبل پارلیمان میں انسدادِ کرپشن بل پیش کیا تاہم، پارلیمان سے ان کا یہ بل قبول ہونے سے قبل ہی ان کی حکومت ایک بار پھر کرپشن کے الزامات اور بدانتظامی پر ان کی پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق لغاری نے برطرف کر دی۔ انسدادِ کرپشن بل تو پارلیمان سے منظور نہ ہوسکا لیکن 90 کی دہائی میں جاری رہنے والے کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ اُس وقت ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گئی جب اس وقت کی نگران حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت شفاف انتخابات کروانے کے اپنے آئینی دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے احتساب کمیشن قائم کیا۔ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم نگران وزیراعظم ملک معراج خالد نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ احتساب کا عمل انتخابات کے انعقاد سے اہم ہے۔

ماضی کا یہ مختصر باب بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ نیب پر تنقید کرنے والوں نے ہی درحقیقت ’’احتساب‘‘ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا کیوں کہ نگران حکومت کی میعاد ختم ہونے کے بعد دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم نواز شریف نے احتساب ایکٹ 1997 کے تحت چیف احتساب کمشنر سے اختیارات واپس لیتے ہوئے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ایک احتساب سیل قائم کیا جس کی سربراہی اُس وقت سینیٹ کے رُکن اور سابق سزایافتہ وزیراعظم نوازشریف کے قریبی ساتھی سیف الرحمٰن کو سونپی گئی جن کا مقصد ہی دراصل یہ تھا کہ پارٹی کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے علاوہ اپوزیشن کو اِس قدر کمزور کر دیا جائے کہ موصوف کیلئے ’امیرالمومنین‘ بننے کی راہ میں کوئی طاقت حائل نہ ہو سکے۔ اُس وقت کےوزیراعظم نواز شریف کی اس پر تشفی نہ ہوئی تو اس وقت صدر رفیق تارڑ کے ذریعے ایک آرڈیننس جاری کروایا گیا اور احتساب سیل کو لامحدود اختیارات کے ساتھ احتساب بیورو میں تبدیل کر دیا گیا جس کے سربراہ سیف الرحمٰن کی ہدایات پر پورا بھٹو خاندان احتساب کے کڑے عمل سے گزرا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو کرپشن کے پانچ مقدمات کے علاوہ منشیات کی اسمگلنگ کے ایک معاملے میں بھی حراست میں لیا گیا۔ یہ پاکستان میں ’’احتساب‘‘ کے نام پر انتقام کا بدترین دور تھا اور یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ انہی سیف الرحمان نے بعدازاں 2010 میں آصف علی زرداری سے مبینہ طور پر بھٹو خاندان اور ان کے خلاف غلط اور سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کرنے پر معافی مانگی۔ سیف الرحمان اگرچہ یہ تردید کر چکے ہیں کہ انہوں نے آصف علی زرداری سے کوئی معافی مانگی تھی لیکن ان کی اس تردید کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی کیوں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان کا کردار ایک ’ولن‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ریڈکو ٹیکسٹائل ملز کا معاملہ یہ ثابت کر چکا ہے کہ سیف الرحمان کی شخصیت کس قدر متنازع تھی؟ تاہم، کیا کیجئے کہ ان دنوں نواز شریف اور ان کے حواری احتساب کی زد میں آئے ہیں تو ان کی چیخیں اور آہ و بکا ہر سو سنائی دے رہی ہے۔ ان کے نزدیک نواز شریف اور ان کے رفقا کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو سراسر ایک غلط تاثر ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہ ہیں جن میں سرفہرست تو یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو یا نیب کے چیئرمین سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جاوید اقبال ہیں جو سیاسی پس منظر رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا جھکائو اب تک کسی سیاسی جماعت کی جانب ثابت کیا جا سکا ہے کیوں کہ 11 اکتوبر 2017 میں جب وہ نیب کے چیئرمین بنائے گئے تو اس وقت تحریکِ انصاف حکومت میں تھی اور نہ ہی اپوزیشن رہنما تحریکِ انصاف سے تھے۔ وہ اس وقت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے اتفاقِ رائے سے ہی اس اہم ترین منصب پر فائز کئے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں وہ ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ بنائے گئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں اور موجودہ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کے نیب اور اس کے سربراہ کو متنازع بنانے کی کوششوں کی کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ نیب نے احتساب کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے پرخلوص کوششیں کی ہیں جس کا اظہار اس وقت احتساب عدالتوں میں زیرِسماعت ریفرنسز کی تعداد سے بھی ہوتا ہے جو ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت 1230 سے زیادہ ہیں جب کہ نیب نے کرپشن میں ملوث عناصر سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر 714 ارب روپے وصول کئے ہیں۔ یہ تمام ریفرنسز صرف شریف خاندان اور زرداری خاندان کے خلاف ہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے بہت سے اہم رہنمائوں کے خلاف بھی بنائے گئے ہیں۔ ان میں وائٹ کالر کریمنلز کے علاوہ ہر شعبۂ زندگی کے وہ بدعوان عناصر شامل ہیں جن سے ملک کی لوٹی دولت واپس حاصل کرنا نیب اور اس کے موجودہ سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا اولین ہدف ہے اور اپوزیشن کی سرکردہ شخصیات غالباً اسی وجہ سے ان سے نالاں نظر آتی ہیں کیوں کہ وہ ایک ایسا احتسابی عمل چاہتے ہیں جو ماضی کے دو ادوار میں پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی فرینڈلی اپوزیشن کی طرح ’’فرینڈلی‘‘ ہو تاہم یہ ممکن نہیں کیوں کہ نیب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ کرپٹ عناصر کو کوئی چھوٹ نہ مل سکے جس کے لئے نیب بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کے حوالے سے پُرعزم ہے اور اسی وجہ سے اس ادارے کے وقار اور جانبداری پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ نیب کسی کو جواب دہ نہیں کیوں کہ اس ادارے کی خودمختاری ہی احتسابی عمل کی شفافیت کی ضمانت ہے۔