وبا، ویکسین اور سیاست

January 14, 2021

گزشتہ سال کورونا وائرس کے اچانک پھیلنے کے بعد احتیاطی تدابیر سے صرف نظر کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ممکنہ خطرات کو معتدل قرار دیتے ہوئے ملک میں کسی بھی قسم کی بندشوں کے نفاذکو خارج از امکان قرار دےکرانسانوں کی قدرتی قوتِ مدافعت کو بہترین دفاع قرار دیا۔ چند ہفتوں کے بعد صورتحال ابتر ہوئی تو انہیں مجبوراًلاک ڈاؤن کا اعلان کرنا پڑا۔ اس دوران انھوں نے اپنی پارٹی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور وابستہ افراد کو بغیر کسی میرٹ کے ضروری میڈیکل سپلائز کے حصول کیلئے اربوں پاؤنڈ کے ٹھیکے دئیے جس سے صورتحال مزید ابتر ہوگئی۔ اس دوران وزیراعظم جانسن مختلف اوقات میں کرسمس تک حالات کے ٹھیک ہونے کا عندیہ دیتے رہے جو دوبارہ سے ہونے والی ابتر صورتحال کے باعث درست ثابت نہ ہوسکا۔ اب وائرس کی ایک نئی قسم کی وجہ سے برطانیہ بھر میں انفیکشن اور ہلاکتیں تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ لندن شہر میں ہر تیس میں سے ایک شخص کورونا پازیٹو ہے مگر بعض رپورٹوں کے مطابق حالات اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔

کورونا کے علاج کیلئے دسمبر میں کئی ملکوں کی جانب سے ویکسین بنائے جانے کا اعلان کیا گیا تو یہ امید کی جانے لگی کہ نئے سال میں معمولاتِ زندگی دوبارہ بحال ہوں گے۔ مگر برطانیہ سے نکلنے والی وائرس کی نئی قسم جس تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے، اس سے نئے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے نامور سائنسدان اور کورونا سے نمٹنے کیلئے قائم شدہ سرکاری ٹاسک فورس کے نگران ڈاکٹر سالم عبد الکریم جو پورے افریقہ کیلئے قائم ٹاسک فورس میں بھی کلیدی رول نبھا رہے ہیں، نے ایک تازہ انٹرویو میں بتایا کہ برطانیہ اور جنوبی افریقہ کے علاوہ کورونا کی مزید بیس نئی قسمیں سامنے آئی ہیں مگر انہیں ابھی تک اس بارے میں نہیں معلوم کہ یہ کیسے اور کیوں کر ہورہا ہے؟ عبد الکریم کو امریکہ میں کورونا کے معاملات کے انچارج ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کے ہمراہ وائرس سے بچاؤ کی کوششوں کیلئے 2020ء کا جان میڈاکس انعام دیا گیا۔ مستقبل کی عکاسی کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الکریم کہتے ہیں کہ ویکسین کے استعمال کے بعد بھی حالات معمولات کی طرف نہیں جاسکتے۔

کورونا سے بچاؤ کیلئے ویکسین اور اس کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے کئی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اتنی کم مدت میں ویکسین کی تیاری ممکن نہیں اور یہ کہ حکومتوں کی سیاسی اور معاشی مجبوریوں کے دباؤ پر اسے جلدی میں سامنے لیا جارہا ہے جس سے مستقبل قریب میں کئی انجانے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ برازیل کے صدر جائیر بولسونارو نے ویکسین کے ممکنہ خطرات کے بارے میں حال ہی میں کہا کہ اس سے مرد حضرات مگرمچھ کی طرح بن سکتے ہیں اور خواتین کی داڑھیاں اگ سکتی ہیں۔ اگرچہ خود ان کی حکومت نے ویکسین خریدنے کیلئے لگ بھگ چار بلین ڈالر مختص کئے ہیں مگر خود وہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ویکسین نہیں لیں گے۔ گزشتہ جولائی میں بولسونارو خود بھی کورونا کا شکار ہوگئے تھے مگر انھوں نے اس کو ایک قسم کی ٹھنڈ سے تشبیہ دے کر اس کا مذاق اڑایا۔ ان کے اسی طرز عمل کی وجہ سے ان کے ناقدین انہیں ملک میں کورونا کے خلاف حفاظتی تدابیر کا بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ مگر ویکسینز کے بارے میں برازیلی صدر کے خدشات میں وزن ضرور ہے۔ ان کی بنیادی تنقید یہ ہے کہ کورونا ویکسین سے کسی بھی قسم کے سائیڈ افیکٹس یا ضمنی اثرات سے صارفین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے کیونکہ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں نے اپنے معاہدوں میں پہلے ہی حکومتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں کی کریں گی۔

بھارتی کمپنی بائیوٹیک نے اعلان کیا ہے کہ وہ مارچ تک ویکسین بنالے گی جو موثر اور محفوظ ہے۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے طبی قاعدے پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے اورمودی حکومت عالمی سطح پر اپنی ساکھ بہتر بنانے کی خاطر مروجہ سائنسی طریقہ کار سے صرفِ نظر کر رہی ہے۔ خود حکومتی عہدیدار مانتے ہیں کہ ابھی تک ویکسین کے صرف دو ٹرائل ہوئے ہیں اور وہ بھی صرف جانوروں پر اس لئے اس کے مؤثر یا محفوظ ہونے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ بھارت کی ویکسین بنانے کی صلاحیت سے تمام عالم انسانیت کی مدد کی جاسکتی ہے۔