امریکی بحران اور عالمی صورتحال

January 15, 2021

امریکی ایوان نمائندگان (کانگریس) میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کیلئے تحریک برائے بحث کی منظوری کے باوجود اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے عہدے کی میعاد پوری ہونے سے پہلے برطرف کردیئے جائیں گے کیونکہ موجودہ عددی کیفیت میں ڈیمو کریٹک پارٹی کو ایوان بالا (سینٹ) میں اکثریت حاصل نہیں جبکہ نئے تشکیل شدہ ایوان بالا میں، جس کا اجلاس 19جنوری کو ہوگا، ڈیمو کریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہوگی اور اس میں تحریک مواخذہ پر غور کرنا ممکن ہوگا۔ دراصل امریکی آئین میں اپنے نظام کی حفاظت کے لئے کئی ایسے سیفٹی والو رکھے گئے ہیں جن کے باعث وقتی ہیجان میں بنیادی ڈھانچے پر اثر انداز ہونے والا کوئی فیصلہ کر کے فوری طور پر نافذ کرنے کی بجائے غور و فکر کے مراحل کا اہتمام ہے۔ ایوان نمائندگان (کانگریس)میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی پہلے سے اکثریت ہے جس کی عمارت کیپٹل ہل پر 6جنوری کو ٹرمپ کے حامیوں کے پرتشدد حملے اور توڑ پھوڑ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد سے امریکی صدر کو عالمی سطح پر سبکی کا سامنا ہے مگر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ عالمی صورتحال پر آج کی کیفیت یا پانچ روز بعد نومنتخب صدر جوبائیڈن کو اقتدار کی منتقلی کے بعد کے منظرنامے میں فوری طور پر کسی تبدیل شدہ نقشے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ میں مستقبل کی پلاننگ سو سال، ڈیڑھ سو سال یا اس سے بھی زیادہ مدت کے منصوبوں کی صورت میں تھنک ٹینکس کے ذریعے جاری رہتی ہے اور حکومتوں کی تبدیلی کی صورت میں وقتی نوعیت کے فیصلوں سے ہٹ کرحکمت عملی میں بڑی تبدیلی کا انتہائی سنگین صورتحال کے سوا تصور محال ہے۔ ایوان نمائندگان میں تحریک مواخذہ کی منظوری دراصل الزامات عائد کرنے کی کارروائی ہے جس کا اگلا مرحلہ سینٹ میں ٹرائل کا ہوگا اور ایوان بالا اکثریت کے ساتھ فیصلہ دے گا۔ روایات کے مطابق منتخب ایوانوں میںووٹنگ کے موقع پر اراکین اپنی اپنی پارٹی لائن کے تحت رائے دیتے ہیں مگر گزشتہ روز کی رائے شماری میں 10 ری پبلکن اراکین نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت کی جبکہ ایوان میں205 کے مقابلے میں 223 ووٹ سے نائب صدر مائیک پنس سے مطالبے کی قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ 25ویں آئینی ترمیم استعمال کرکے اپنے باس کو ہٹا دیں تاہم نائب صدر مائیک پنس نے اس مطالبے پر عمل سے انکار کر دیا ہے۔ مائیک پنس کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قبل ازیں انہوں نے صدارتی انتخاب کے نتائج میں الٹ پھیرکی ٹرمپ کی ہدایت پر بھی عمل نہیں کیا تھا جس کی بنا پر انہیں ڈیمو کریٹ حلقوں میں بھی سراہا جا رہا ہے۔ انہوں نے امریکی قوم کو یقین دلایا ہے کہ اقتدار کی منتقلی مقررہ وقت پر ہوگی اور 20جنوری کوجوبائیڈن کے منصب سنبھالنے کی تقریب میں وہ خود موجود ہوں گے۔ صدر ٹرمپ مذکورہ تقریب میں شریک نہ ہونے کابرملا اظہار کر چکے ہیں۔ سپر پاور امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات سے عام طور پر دنیا کے متعدد ممالک میں ہلچل مچ جاتی ہے مگر خیال کیا جاتا ہے کہ صدر جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد عالمی منظر نامے میں کوئی فوری تبدیلی رونما نہیں ہوگی، ان کی اولین توجہ کورونا کا پھیلائو روکنے اور معاشی امور کی جانب ہوگی ۔مبصرین محسوس کرتے ہیں کہ جو بائیڈن کے دور میں بین الاقوامی امور میں سفارت کاری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا، جبکہ ماحولیات کے معاہدوں، کورونا کا پھیلائو رکھنے کے اقدامات اور دیگر وبائی امراض روکنے کی تدابیر پر توجہ دی جائے گی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی نئی امریکی انتظامیہ سے امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوگا۔