بدعنوانی کا ناسور

January 16, 2021

دوسری جنگِ عظیم میں سرگرم کردار ادا کرنے والے امریکی فوج کے سابق چیف آف اسٹاف جنرل (ر) ڈگلس میک آرتھر نے کہا تھا کہ ’’تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے ثابت ہوتا ہو کہ اخلاقی گراوٹ کا شکار قوموں کو سیاسی اور معاشی زوال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اخلاقی گراوٹ پر قابو پانے کے لئے یا تو روحانیت کا آسرا لیا گیا یا پھر ایسا بگاڑ پیدا ہوا جو قومی تباہی کا موجب بنا‘‘۔ چند روز قبل وزیراعظم عمران خان کا انٹرویو کرتے ہوئے ایک سینئر اینکر پرسن کے منہ سے 220ملین روپے کی بدعنوانی ایک معمولی واقعہ ہونے کے متعلق سنا تو ایسا لگا جیسے موصوف معاشرے سے بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے کے حکومتی عزم کے خلاف رائے تشکیل دے رہے ہوں۔

اینکر پرسن کے خیالات سن کر مجھے کچھ عرصہ قبل FATFبل کی منظوری کے موقع پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ذاتی مفاد کو تحفظ دینے کے لئے پیش کی گئی ترامیم یاد آ گئیں۔ اِن ترامیم میں سے ایک ترمیم 1999کے آرڈیننس XVIIIکی شق 4سے متعلق تھی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اِس ایکٹ کی دفعات کا اطلاق اِن معاملات یا افراد پر نہیں ہوگا جن سے وفاقی یا صوبائی حکومت کو پہنچنے والے نقصان کی کل رقم ایک ارب روپے سے کم ہو یا اُن کا تعلق منی لانڈرنگ ایکٹ 2010کے تحت سرزد ہونے والے جرائم سے ہو‘‘۔ اگر اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی اِس ترمیم کو منظور کر لیا جاتا تو اِس سے رمضان شوگر ملز مقدمہ ،شہباز شریف (ٹی ٹی مقدمہ)، آصف علی زرداری(جعلی اکائونٹس مقدمہ)، چوہدری شوگر ملز مقدمہ،خواجہ آصف (اثاثہ جات مقدمہ)، رانا ثناء اللہ، فریال تالپور اور شہباز شریف کے بچوں سمیت بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث تمام افراد کو براہِ راست فائدہ پہنچتا۔ یہ ترمیم اُن 34ترامیم میں شامل تھی جو FATFبل کی منظوری سے متعلق قانون سازی میں تعاون کے بدلے دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے پیش کرکے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تاکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بڑے لیڈران کے خلاف درج مقدمات میں سے اکثریت میں وہ بری ہو سکیں۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے بدعنوانی سے بچنے کے لئے پیش کیا گیا آئیڈیا نیا نہیں۔ اب اُن حقائق کی جانب چلتے ہیں جو براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کرپشن نیٹ ورک کی موجودگی سے متعلق بیان کئے ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان لٹیروں کی طرف سے حکمرانوں کو کس طرح ترغیبات اور شدید دبائو کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کی گھناؤنی حرکتوں کا مواخذہ نہ کریں۔ اسی انٹرویو کے مطابق نواز شریف سے لے کر شہباز شریف اور ان کے بچوں تک، بےنظیر بھٹو سے لے کر آصف زرداری تک، چند بیوروکریٹس اور کاروباری افراد کی اکثریت نے ریاست کو یرغمال بنائے رکھا۔

جب سے تحریکِ انصاف اقتدار میں آئی ہے اور اُس نے تمام افراد اور اداروں کے خلاف احتساب کے عزم کو دہرایا ہے تو اپوزیشن نے احتساب سے بچنے کے لئے مختلف حربے آزمانے شروع کر دیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت کو درپیش چیلنجز کے باوجود ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے بائیکاٹ،احتجاج ریلیاں، دارالحکومت کی طرف مارچ جیسے حربے بدعنوانی کے خلاف حکومتی عزم کو کسی بھی طرح کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اپوزیشن کا احتجاج اصولوں پر مبنی نہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس بھٹکے ہوئے افراد کا ایک متفرق ٹولہ ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کو جعلی قرار دیتی ہیں اور ساتھ ہی ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی خواہاں بھی ہیں۔ وہ سینیٹ کو بھی غیرآئینی سمجھتے ہیں لیکن ایوانِ بالا کے انتخابات میں حصہ لینے کے موقع کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی آئینی حیثیت پر بھی سوال تو اٹھاتی ہیں لیکن شاید وہ بھول گئی ہیں کہ جب مولانا فضل الرحمٰن کو صدارت کے منصب کیلئے امیدوار نامزد کیا گیا تھا اس کے لئے الیکٹورل کالج انہی اسمبلیوں پر مشتمل تھا۔ مولانا صاحب موجودہ حکومت پر کشمیر پر سودے بازی کا الزام بھی لگاتے ہیں لیکن وہ جب خود ایک دہائی تک کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے تو انہوں نے وادیٔ کشمیر کے محکوم لوگوں کیلئے آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دِنوں کشمیر پر بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

دراصل اپوزیشن جماعتوں کے کھوکھلے اعلانات اخلاص سے عاری ہیں۔ یہ اعلانات سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کےسواکچھ نہیں،اِن اعلانات سے صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کے ذاتی مقاصد اور خواہشات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے منفی رویے کی وجہ سے ریاست آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور یوں یہ غیرملکی دبائو کے باعث اپنی آزادی کے تحفظ میں بھی ناکام ہوئی۔ ان کی اسی منفی روش کے باعث ملک کے حالات میں بہتری کے لئے کی جانے والی ہر کوشش اپنے نتائج حاصل نہیں کرسکی۔ چونکہ اب وزیراعظم عمران خان نے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات اٹھانا شروع کر دیے ہیں تو ایک مخصوص سیاسی گروہ ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے منفی ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ اس عمل میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ ایسے اقدامات سے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے حکومتی عزم اور حوصلے کو مزید تقویت ملی ہے اور بلاخوف و خطر ملک کو لوٹنے اور کمزور کرنے والے عناصر سے پاک کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہےکیونکہ بدعنوانی کا یہ ناسور ملک کی تقدیر کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔