نیا قانون

January 16, 2021

سینئر صحافی مطیع ﷲ جان کا 21جولائی 2020 کواسلام آباد میں اغوا ہوا۔ تو کچھ ہی دیر میں اغوا کی سی سی ٹی وی وڈیو منظر عام پر آگئی۔وڈیو میں دیکھا جاسکتا تھا کہ کس طرح مطیع ﷲ جان کو وفاقی دارالحکومت میں سرعام تشدد کرتے ہوئے ایک گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔

واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ اغوا کی اس کارروائی میں باوردی پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں چند ملبوس افراد ملوث تھے۔

اغوا کے بعد اس وڈیو نے پورے سماج پر گہرا تاثر چھوڑا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور تقسیم شدہ میڈیا کے نمایاں چہرے اپنے اختلافات بھول کر میدان میں آگئے اور مطیع ﷲ جان کے اغوا کے خلاف ہر پلیٹ فارم پرآواز اٹھانے لگے۔ شور اتنا اٹھا کہ چند گھنٹوں بعد ہی اغوا کاروں نے مطیع ﷲ جان کو رہا کردیا۔

کچھ روز بعد پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما و سینیٹر فرحت ﷲ بابر کو نجانے کیا خیال آیا۔ انہوں نے معلومات تک رسائی کے قانون مجریہ 2017 کا سہارا لیا اور وزارت داخلہ و اسلام آباد پولیس کو درخواست دیدی کہ اس قانون کے تحت مطیع ﷲ جان کے اغوا کے وقت اسلام آباد کی شاہراہوں پر لگے سیف سٹی کیمروں کی وڈیو فوٹیج انہیں فراہم کردی جائے۔

وزارت داخلہ کے افسران اور اسلام آباد پولیس کے اس وقت کے آئی جی عامرذوالفقار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ معاملہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا پاکستان انفارمیشن کمیشن کے پاس پہنچ گیا۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن اسی قانون کے تحت قائم کیا گیا وہ ادارہ ہے جس میں پہلی بار تین کمشنرز، چیف انفارمیشن کمشنر اعظم خان اور انفارمیشن کمشنرز زاہد عبدﷲ اور فواد ملک ایڈووکیٹ تعینات ہیں۔ یہ کمیشن ان تمام درخواستوں کی سماعت کرتا ہے جن کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت وفاقی اداروں نے شرف پذیرائی نہ بخشا ہو اور عوام کو معلومات تک رسائی کے آرٹیکل 19 اے کے تحت دئیے گئے آئینی حق سے محروم رکھا ہو۔

اس قانون کی روح بھی یہی کہتی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والی ریاست کے بارے میں عام آدمی کو بھی معلومات فراہم کی جائیں۔

سینیٹر فرحتﷲ بابر کی درخواست اس پلیٹ فارم پر پہنچی تو بھلا ہو کمیشن کے تینوں معزز ارکان کا جنہوں نے قانون کی روشنی میں درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دیدیا مگر وزارت داخلہ کے عہدیداروں اور اسلام آباد پولیس نے قانون اورفیصلے کے اطلاق کے حوالے سے کچھ نہ کیا

۔انفارمیشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو 7 جنوری 2021 کو وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری نے شاید تادیبی کارروائی کے خوف سے اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کے ہمراہ کمیشن کے سامنے پیش ہوکر بتا دیا کہ جناب ہم اگلے 24 گھنٹوں کے اندر مذکورہ وڈیو فوٹیج معززدرخواست گزارکودے دیں گے۔

وہ دن اور آج کا دن میں سینیٹر فرحت ﷲ بابر اور وزارت داخلہ کے سینئر افسروں کو ہرروز اس امید سے فون کرتا ہوں کہ اب اس قانون پر اطلاق کا آغاز ہوا کہ ہوا؟ آج نجانے کیوں مجھے اپنی حالت سعادت حسن منٹو کے شہرہ آفاق افسانے ’’ نیا قانون‘‘ کے کردار منگو کوچوان جیسی لگنے لگی ہے۔

جو میری طرح سمجھ بیٹھا تھا کہ نیا قانون نافذ ہو گیا تو شاید سب کچھ تبدیل ہوجائے گا مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ سال 2016-17 میں جب پارلیمنٹ میں معلومات تک رسائی کے حوالے سےموثر قانون سازی کی جارہی تھی تو ہم بڑے خوش تھے کہ اب تبدیلی آئی کہ آئی۔

اب سرکاری اداروں سے شہری معلومات مانگیں گے تو انہیں جواب دیا جائے گا اور معلومات فراہم کی جائیں گی۔ اس سے ملک میں طرز حکمرانی میں تبدیلی آئے گی اور سرکاری نوکرشاہی کو عوامی جوابدہی کا سامنا کرنا ہوگا۔

ان دنوں میں پارلیمنٹ میں اس نئے قانون کی شقوں پر ہونے والی بحث کوقومی اسمبلی اورسینٹ کی انفارمیشن کمیٹیوں میں جاکر سنتا ہی نہیں بلکہ اس میں بالواسطہ طورپرحصہ بھی لیتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ عرصہ دراز سے معلومات تک رسائی کے بوسیدہ آرڈیننس 2002 کی روشنی میں سرکاری محکموں سے معلومات حاصل کرنے کی کوششیں اکثر ناکام بنا دی جاتی تھیں۔ سال 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت نے معلومات تک رسائی کا ایک موثر قانون اپنے صوبے میں نافذ کیا تو پنجاب میں ن لیگ کی حکومت نے بھی شرما شرمی ایسا ہی قانون اپنے صوبے میں نافذ کردیا تاہم چیف انفارمیشن کمشنرپاکستان میں اس قانون کے بانیوں میں سے ایک مختار احمد علی کو تعینات کیا جس نے کچھ ہی عرصہ میں پنجاب میں اس قانون کا ڈنکہ بجا دیا، مشکلات مگر موجود رہیں۔

مرکز میں ن لیگ حکومت نے 2017 میں متعارف کروائے گئے بل کی روشنی میں 2018 تک ایک موثر قانون بنا ڈالا جو بہرحال ملک کے باقی قوانین سے بہتر تھا۔ مگراس قانون کی روشنی میں معلومات فراہم نہ کرنے والے سرکاری محکموں کے خلاف اپیل کے لیے انفارمیشن کمیشن بنانے پر تاخیر ہو گئی۔

اس طالبعلم نے اپنی جیب سے وکیل کی فیس کا بندوبست کرکے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو موجودہ چیف جسٹس جناب اطہر من ﷲ نے انفارمیشن کمیشن کی فوری تشکیل کا حکم دیدیا۔

موجودہ دورِ حکومت میں سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری کی کاوشوں سے کمیشن بن گیا اور اس نے محدود وسائل میں رہ کر موثر طور پر کام بھی شروع کردیا لیکن بعض اداروں نے معلومات کی فراہمی کے لیے سوالیوں کو منگو کوچوان بنا رکھا ہے۔

سرکاری ادارے اس قانون کو نیا قانون سمجھ کرنظر انداز کررہے ہیں۔ ایسے میں کم ازکم وزیر اطلاعات شبلی فراز کو آگے بڑھ کر پاکستان انفارمیشن کمیشن کی سرپرستی کرنا ہوگی اور قومی سطح پر معلومات تک رسائی کے قانون کے بارے میں آگہی مہم چلانا ہوگی۔

اگر اس نئے قانون پر اطلاق نہ کیا گیا تو کوئی بھی اس قوم کو منگو کوچوان بننے سے نہیں روک سکتا کیونکہ جس معاشرے میں عوام کو معلومات کا حق نہ ہو وہ ناسمجھ اور لاعلم منگو کوچوانوں کا معاشرہ ہوتاہے۔